بچپن کی وہ یادیں بہت دور چلی گئی ہیں جب کراچی کی گڈوانی اور ایڈوانی اسٹریٹ کے مد مقابل بنے ہوئے فٹ پاتھ اور مضبوط دیوار کے ساتھ ساتھ جھونپڑیوں کی ایک قطار چلی گئی تھی۔ ہوا سے ٹاٹ کے پھڑپھڑاتے ہوئے پردے جو ان جھونپڑیوں میں رہنے والوں کی زندگیوں کو کچھ چھپانے، کچھ دکھانے کی کوشش کرتے۔ یہ جھونپڑیاں وائی ڈبلیو سی اے اور ماما پارسی گرلز اسکول کی پشت پر تھیں۔ وہ چند برس وہاں رہیں پھر ایک روز اچانک ریڑھوں اور ٹھیلوں پر ان کا سامان لادا جانے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ غائب ہوگئیں۔کسی نے بتایا کہ ان جھونپڑی والوں کو رہنے کے لیے متبادل جگہ دے دی گئی تھی، اسی لیے کسی قسم کا شور ہنگامہ نہیں ہوا اور وہ لوگ خوشی خوشی وہاں سے چلے گئے۔
یہ بات ہفتوں سے اس لیے یاد آرہی ہے کہ تجاوزات کو ہٹانے اور گرانے کی جو مہم شہر میں چل رہی ہے ، اس نے کسی منصوبہ بندی اور متبادل جگہ کا انتظام کیے بغیر کم حیثیت لوگوں کا جو حشر کیا ، وہ رفتہ رفتہ سب کے سامنے آرہا ہے۔
چند دنوں پہلے ایمپریس مارکیٹ کے سامنے سے گزر ہوا تو وہ عمارت اور علاقہ پہچان میں نہیں آرہا تھا۔ تجاوزات یقینا علاقے کی خوبصورتی، ٹریفک کی روانی اور پیدل چلنے والوں کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہیں ، لیکن متعلقہ محکموں کو تجاوزات کے خاتمے کا خیال بہت دیر سے آیا۔ ان تجاوزات کی موجودگی کئی اداروں کی مستقل آمدنی کا سبب تھی اور جب یہ تجاوزات قائم ہورہی تھیں اس وقت بھی رقم ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوئی تھی۔ اس وقت متعلقہ محکمے کیوں سوتے رہے ؟ اتنی طویل نیند تو ایک مشہور ولندیزی کہانی کے کردار رپ وان و نکل کو آئی تھی۔
انگریزی اخبارات شہر کے معاملات میں سنجیدگی سے دلچسپی لیتے ہیں اور ان پر ماہرین کی رائے بھی شایع کرتے ہیں۔ یہ شہر کا سلگتا ہوا مسئلہ ہے۔ اس موضوع پر معروف ماہر تعمیرات عارف حسن صاحب کا ایک مضمون شایع ہوا جس میں انھوں نے دو ٹوک انداز میں لکھا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے نتیجے میں صرف صدر کے علاقے میں جو دکانیں گرائی گئیں ، ان میں وہ دکانیں بھی شامل ہیں جو قانونی یعنی لیز شدہ تھیں۔ جناب عارف حسن نے اپنے اس مضمون کو ”صدر کا قتل عام “، کے نام سے لکھا اور یہ کہا کہ اس علاقے میں چار ہزار ہاکر اپنی جگہوں سے بے دخل کیے گئے۔ ان میں سے بیشتر وہ تھے جن کے باپ اور دوسرے بزرگ رشتے دار 50برس یا اس سے بھی پہلے یہ کاروبار قائم کرچکے تھے۔ انھوں نے لکھا کہ صرف دو سے تین دن کی اس مہم کے دوران لگ بھگ دس ہزار خاندان اپنے روزگار سے محروم ہوئے۔ ان لوگوں کو کسی قسم کی متبادل جگہ فراہم نہیں کی گئی اور ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا کہ پاکستان کی انتظامیہ ، پروفیشنل افراد اور سیاسی جماعتوں کو غریب کے مسائل و معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ انھیں اگر غریب دشمن کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
انھوںنے یہ اہم نکتہ بھی اٹھایا کہ ایمپریس مارکیٹ اور اس کے آس پاس کے علاقے میں یہ سب کچھ کراچی کے ورثے کو محفوظ کرنے کے نام پر ہوا۔ انھوں نے سوال کیا کہ ثقافتی ورثہ کیا صرف پتھر کی عمارتیں ہوتی ہیں یا ان عمارتوں میں اور ان کے اردگرد سانس لینے والے انسان بھی زندہ ثقافتی ورثہ ہوتے ہیں ؟
یہ ایک ایسا اہم نکتہ ہے جس پر ہم سب کو غور کرنا چاہیے۔ وہ پھل بیچنے والا جو اپنے ترازو کے بل نکالتے ہوئے امرود ، خربوزہ یا موسم کا کوئی بھی پھل تول رہا ہے، خریدار سے جو مول تول ہورہا ہے، دکاندار اور خریدار دونوں کے چہرے پر جو ہنسی یا ناراضگی ہے کیا وہ رواداری اور بھلمنساہٹ ہمارے جیتے جاگتے ثقافتی ورثے کا حصہ نہیں۔ یہ دکانیں صرف کدالوں اور پھاﺅڑوں سے نہیں گرائی گئیں۔ ان کے لیے بل ڈوزر آئے ، سب کچھ تہس نہس کرتے ہوئے۔ تجاوزات کو گرانے کا حکم دینے والوں نے لمحے بھر کے لیے یہ بھی سوچا ہوتا کہ جن کی روزی روٹی ایک حکم نامے سے چھین لی گئی ہے ، ان گھروں میں کھانا کیسے پکا ہوگا؟ ان کے اسکول جانے والے بچوں کی فیس کہاں سے آئے گی اور ان کے گھروں میں جو بیمار ہیں ان کی دواﺅں کا خرچ کون دے گا۔
صدر کا علاقہ اور بہ طور خاص ایمپریس مارکیٹ ایک ایسی جگہ تھی جہاں ہمیں بلوچ ، سندھی ، پٹھان اردو بولنے والے، شیدی، بنگالی اور میمن سب ہی دکھائی دیتے تھے،اپنی اپنی بولیاں بولتے ہوئے ، ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی ٹھٹھول کرتے ہوئے، دکھ درد میں شریک ہوتے ہوئے اور دوپہر ڈھلنے لگے تو کسی پیڑ کے نیچے مختلف گھروں سے آئے ہوئے ٹفن کھل جاتے اور سب ہی اس کھانے میں شریک ہوتے، دوسروں کی گھر والیوں کے ہاتھ کے ذائقے کی داد دیتے۔ ایک ساتھ کاروبار کرنا اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھانا ، دل کے بند دروازے کھول دیتا ہے۔ کیا کمال حکم نامہ تھا جس نے کھلے ہوئے دلوں کے دروازے بند کردیے۔
عارف حسن نے جب یہ لکھا کہ میں کراچی کا رہائشی ، شرمندہ ہوں کہ جو کچھ ہوا۔ وہ لوگ جو اس شرم ناک توڑ پھوڑ کو قانونی بنیادوں پر درست ٹھہراتے ہیں ، انھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ نسلی امتیاز بھی قانونی تھا اور فلسطینیوں کے گھر جب اسرائیلی قانون کے تحت گرائے جاتے ہیں تو وہ بھی قانونی ہے کیونکہ ان فلسطینیوں کے پاس بھی ایمپریس مارکیٹ سے بے دخل کیے جانے والوں کی طرح مالکانہ حقوق کے کاغذات نہیں ہیں۔
ایمپریس مارکیٹ کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے اس تاریخی حقیقت کو یاد نہیں رکھتے یا شاید انھیں علم نہیں کہ 1857ءمیں یہ وہ پریڈ گراﺅنڈ تھا جہاں چند جیالوں کو ، آزادی کے مجاہدین کو کمپنی بہادر کے سپاہیوں نے ”بغاوت“ کی سزا یوں دی تھی کہ اس میدان میں آزادی کے ان سپاہیوں کو توپوں سے باندھ کر اڑا دیا تھا اور ان کے بدن کے چیتھڑے اس میدان میں بکھر گئے تھے ، کچھ پیڑوں سے لٹک گئے تھے اور کچھ گڑھوں میں جا گرے تھے۔ رام دین پانڈے ان باغیوں کا رہنما تھا۔
اس طرح تو یہ گنجِ شہیداں ہوا۔ جدوجہدِ آزادی کی ایک زندہ روایت، 1857ءکی جنگ آزادی میں کراچی کا حصہ۔ اب اگر کچھ لوگ ایمپریس مارکیٹ کو فوڈ اسٹریٹ جیسی کوئی جگہ بنانے کی تجویز دے رہے ہیں، وہ ان توانا اور جوان بدن کے ٹکڑوں کے بارے میں سوچیں تو سہی کہ جن کے خوف سے تاج برطانیہ نے اس پریڈ گراﺅنڈ کو ایک بڑے بازار میں بدل دیا تھا اور 1889ءمیں ایمپریس مارکیٹ بنائی گئی تھی جہاں سبزی ، پھل ، گوشت اور خشک میوے کی دکانیں تھیں، جہاں خریداری کرنے والے برطانوی خاندان تھے۔ یہ تو 1947ءکے بعد ہوا کہ یہاں پرندہ بازار ، کپڑا بازار اور خشک چائے بازار کھل گئے۔ ایک زمانے میں یہاں کے خاص خریدار گوا کے کرسچین اور کراچی کی پارسی اور کرسچین آبادی تھی لیکن شہر جب دینداروں کے ہاتھوں میں آیا تو یہ لوگ صدر کے منظر نامے سے غائب ہونے لگے اور اب شاید سلیمانی ٹوپی پہن کر اس شہر کراچی میں رہتے ہیں۔
اب شہر کے کچھ لوگوں نے تجاوزات سے نجات کے نام پر ہونے والی توڑ پھوڑ کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اتوار 13جنوری کو کچھ حضرات اور خواتین نے پریس کلب کے سامنے صدر کے متاثرین سے اظہار یک جہتی کے لیے ایک علامتی بھوک ہڑتال کی جس میں عارف حسن ، قیصر بنگالی اور کرامت علی کے علاوہ چند حضرات اور خواتین شامل تھے۔ ایک روز کی اس بھوک ہڑتال میں حصہ لیتے ہوئے قیصر بنگالی کا یہ جملہ کئی لوگوں کو ر±لا گیا کہ ”میری نگاہوں میں جب ان بھوکے بچوں کے چہرے آتے ہیں جن کے والدین سے ان کا روزگار چھین لیا گیا تو میری بھوک مرجاتی ہے “۔
مجھے یقین ہے کہ ایسا کرنے والوں سے ایمپریس مارکیٹ ناراض ہے۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ