چند دنوں پہلے کراچی کے تعلیمی ادارے ’’زیبسٹ‘‘ اور ’’سیکولر پاکستان‘‘ کے زیر اہتمام ڈاکٹر ریاض احمد شیخ اور پروفیسر ایس ہارون احمد نے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا جس میں پاکستان کے تین اہم دانشوروں علی امام، سبط حسن اور پروفیسر کرار حسین کے مختصر مقالات پر گفتگو ہوئی۔
سید سبط حسن کے مقالے پر اپنی بات کہنے سے پہلے اس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ انھوں نے پاکستان کی حکمران اشرافیہ اور اس کے معاون و مدد گار مذہبی حلقے کے سامنے آوازِ حق بلند کی۔ انھوں نے تھیاکریسی، سیکولر ازم اور اسلامی ریاست پر 70ء اور 80ء کے ابتدائی برسوں میں طویل مضامین لکھے۔ 1986 میں اپنی رخصت سے پہلے انھوں نے Battle of Ideas تحریر کی۔ ایک ایسے زمانے میں جب یومِ شوکت اسلام منایا جا رہا تھا اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ سرکاری سرپرستی میں آزاد خیالات و افکار کا گلا گھونٹ دیا جائے گا، سبط حسن نے نہایت دبنگ انداز میں وہ بات کہی جو پاکستانیوں کے جمہوری اور انسانی حقوق کی طلبگار تھی۔ انھوں نے لکھا کہ ’’قلم کا جواب زبانِ قلم سے دینا ارباب فہم کا مسلک ہے، اس لیے کہ خیالات کو بہتر خیالات ہی سے شکست دی جا سکتی ہے اور گمراہیاں، راستی کی راہ دکھانے سے ہی رک سکتی ہیں، نہ کہ احتساب کی آہنی دیواروں سے۔‘‘
سبط حسن خوش نصیب تھے کہ ایک ایسے زمانے میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے جب پاکستانی سماج میں رواداری کی پرچھائیاں ابھی موجود تھیں اور لوگ ’’شاتم‘‘ ہونے کے سب سے آسان ہتھیار سے قتل نہیں ہو رہے تھے۔ آج ہمارے سامنے مشال خان، سلمان تاثیر اور دوسری متعدد مثالیں موجود ہیں جنھیں راستے سے ہٹانے کے لیے مختلف نوعیت کے بہانے تراشے گئے۔
سبط حسن نے 1982 میں لکھا تھا کہ ’’جذباتیت، تنگ نظری اور نارواداری ذہنوں پر اس قدر حاوی ہے کہ نئی فکر کی تازہ ہوائیں ادھر کا رخ کرتے ڈرتی ہیں۔ یہ روش اگر جلد نہ بدلی گئی تو ہم اپنی نئی نسلوں کو شاہ دولہ کے چوہوں کے سوا تحفے میں کچھ نہیں دے سکیں گے۔‘‘
انھیں گزرے ہوئے 33 برس بیت گئے زمانہ آگے بڑھ گیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستانی سماج وقت کے ساتھ قدم ملا کر چلتا، لیکن ہوا اس کے برعکس۔ ان کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ ہمارے یہاں دولہ شاہ کے چوہوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ کسی استاد کے خیالات سے اختلاف رکھنے والے شاگرد اسے چھرا مارکر ہلاک کر دیتے ہیں اور پھر آلہ قتل لہراتے ہوئے اپنے اس بھیانک جرم پر فخر کرتے ہیں، اسے جنت میں جانے کا پروانہ جانتے ہیں۔
سبط صاحب یہ بات برملا کہتے تھے کہ غور و فکر کے بغیر کوئی تہذیب اور کوئی ثقافت جنم نہیں لے سکتی۔ وہ انسان پر قبائلی، جاگیردارانہ اور صنعتی ادوار کے اثرات پر گفتگو کرتے ہیں اور یہ اہم سوال اٹھاتے ہیں کہ کوئی سماج کسی خاص زمانے میں کیوں عظیم دانشور، سائنسدان، منصف اور فنکار پیدا کر سکا اور پھر اچانک وہ سماج ان تمام خصوصیات سے کیوں محروم ہو گیا۔ اس سلسلے میں وہ آٹھویں صدی سے گیارہویں صدی کے درخشاں مسلم سماج کی مثال دیتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس تابانی میں اصل کردار نو مسلم ایرانی دانشوروں، شاعروں اور فلسفیوں کا تھا۔
یہ بات دلچسپ ہے کہ ابن رشد کی کتابوں کو کفر و الحاد کا پلندا قرار دے کر انھیں جلا دینے والوں پر فخر کرنے والے اس بات پر غور نہیں کرتے کہ یہ اسی کی کتابیں تھیں جنھیں اس کے یہودی شاگرد اپنی آستینوں میں چھپا کر اٹلی لے گئے۔ وہاں یہ کتابیں ترجمہ ہوئیں اور ابن رشد کے خیالات سے یورپ میں نشاۃ ثانیہ کا سورج طلوع ہوا۔ ابن رشد اور دوسرے فلسفیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک نے مسلم سماج میں دوسروں کو خاموش رہنے پر مجبور رکھا اور اسی کے بعد علم و تحقیق کی دنیا میں اندھیرا چھا گیا۔
پاکستان میں کلچر کی بحث دہائیوں سے چل رہی ہے۔ پاکستانی کلچر کے نام سے کچھ دانشوروں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان اپنا ایک مخصوص کلچر رکھتا ہے۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ پاکستان مختلف قومیتوں کا مجموعہ ہے، ان کی اپنی زبانیں ہیں۔ ان کا اپنا کلچر ہے جو صدیوں اور بعض حالات میں ہزاروں برس سے چلا آ رہا ہے۔ اس لیے کسی ایک زبان یا کلچر کو تمام پاکستانیوں پر مسلط کرنا، ان کی حق تلفی اور ان قومیتوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ یہ خطہ شعر و ادب، فنون لطیفہ، تعمیرات، رقص و موسیقی اور مصوری میں ایک شاندار ماضی رکھتا ہے۔
انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ ماضی کے ان تمام جواہر کو اپنایا جائے اور کسی کو کسی پر فضلیت حاصل نہ ہو۔ ہم مادھو لال حسین، وارث شاہ، شاہ عبداللطیف بھٹائی، بابا فرید، لال شہباز قلندر، رحمان بابا، خواجہ میر دردؔ، میرؔ تقی، غالبؔ، نظیرؔ اکبر آبادی اور بے شمار دوسرے شعرا اور صوفیوں کے کلام کا خزانہ رکھتے ہیں جو تمام انسانیت کا سرمایہ ہیں۔ اس میں ہندو مسلم کی تخصیص نہیں۔ مسجد اور مندر الگ طرز تعمیر رکھتے ہیں، اس کے باوجود وہ انسانوں کی مقدس عبادت گاہیں ہیں۔ ہمارے صوفیوں اور بھگتی تحریک کے ماننے والوں نے ہزاروں برس پر پھیلی ہوئی ایک ایسی تہذیب کو جنم دیا جو آج بھی ہمارے لاکھوں کروڑوں شہریوں کے سینوں میں اپنی جڑیں رکھتی ہے۔
1857کے بارے میں کہا گیا کہ یہ آزادی حاصل کرنے کی کوشش ضرور تھی لیکن اس لیے کامیاب نہ ہو سکی کہ یہ دراصل قدیم و جدید کے درمیان آویزش تھی۔ انگریز استعماری طاقت تھا، وہ ہندوستان پر قبضہ کرنے میں اس لیے کامیاب ہو سکا کہ وہ نئے ہتھیاروں سے لیس تھا۔ اپنے ساتھ چھاپہ خانہ لایا تھا۔ اس نے ریل کی پٹریاں بچھائی تھیں جو نہایت تیز رفتاری سے کمپنی کی فوجوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی تھیں۔ اسی طرح تار برقی تھا جو منٹوں میں خبریں پہنچاتا تھا۔
یہاں یہ عرض کرتی چلوں کہ ہمارے یہاں چھاپہ خانے کو اس قدر ناپسند کیا جاتا تھا کہ سولہویں صدی میں جب پرتگیزی سفارتکار شہنشاہ اکبر کے دربار میں حاضر ہوئے اور تحفے کے طور پر چھاپہ خانہ پیش کیا تو اسے مہابلی اکبر نے کاٹھ کباڑ کہہ کر گودام میں ڈلوا دیا۔ اسی طرح ٹیپو سلطان کے سوا ہمارے اس وقت کے حکمرانوں نے پرتگیزیوں، ولندیزیوں، فرانسیسیوں اور انگریزوں کی بحری قوت کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے بحری بیڑے تیار نہیں کیے۔ جدید ایجادات سے منہ پھیرنا اور اپنے پرانے طریقوں پر اصرار کرنا وہ بڑے اسباب تھے جنہوں نے برصغیر کو برطانوی استعمار کے شکنجے میں جکڑ دیا۔
برصغیر میں راجا رام موہن رائے، غالبؔ، ٹیگور اور سرسید نے جدید طرز حیات کی طرف توجہ کی اور نئے رجحانات اور خیالات سے استفادہ کیا۔ ہمارے ان دانشوروں نے اپنی قدیم تہذیب کی شاندار روایات کے ساتھ ساتھ جدید خیالات کی آمیزش کو برصغیر میں رہنے والوں کو جدید تعلیم اور حکومت کرنے کے جدید انتظامی طریقوں کو اپنانے پر زور دیا۔ بوڑھے غالب نے نوجوان سرسید کی ’’آئین اکبری‘‘ پر فارسی میں جو تقریظ لکھی، وہ ہمارے یہاں جدید و قدیم کی آویزش کی ایک شاندار مثال ہے۔
سبط حسن اپنی تہذیب اور تمدن کے شیدا ہیں، انھیں مسجدوں کا نیا انداز تعمیر ناگوار گزرتا ہے لیکن وہ جانتے ہیں کہ جدید ایجادات، خیالات اور تصورات کا جو سیلاب امڈا ہے، اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ وہ اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ یہ صرف برصغیر کا احوال نہیں، تمام دنیا تبدیلی کے اس گرداب میں گرفتار ہے۔ وہ اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ ہم اپنی تہذیبی روایات سے پہلو تہی نہ کریں، ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ جدید و قدیم اور مشرق و مغرب کی آمیزش سے ایک نئی دنیا تخلیق کریں جو زیادہ جمہوری، انسان دوست، رنگارنگ اور حسین ہو۔ پاکستان کو وہ ایک روادار، روشن خیال اور کثیرالمشرب سماج کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
وہ جا چکے ہیں لیکن اپنے اس خواب کو تعبیر دینے کے لیے انھوں نے اپنے قلم سے ایسی روشن کتابیں لکھیں جنہوں نے بلوچستان، سندھ، پنجاب اور پشتون علاقوں کے نوجوانوں کو متاثر کیا۔ آج کچھ لوگوں کی سیاہ قلبی کے ساتھ ہی اگر ہمارے نوجوانوں کے ایک بڑے طبقے میں بیداری پائی جاتی ہے اور وہ زندگی اور اس کے معاملات کو معروضی انداز میں دیکھتے ہیں تو یہ سبط حسن، علی عباس جلالپوری، حمزہ علوی، ڈاکٹر مبارک علی اور بعض دوسروںکی تحریروں کا کمال ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے انھیں فرقوں، مسلکوں اور طبقات میں تقسیم کیا جا رہا ہو، جہاں ہر طرف آگ اور بارود کا کھیل ہو رہا ہو، وہاں سبطے صاحب اور ان کے دوسرے ہم خیال دانشوروں اور لکھاریوں نے پاکستانی سماج کو سنوارنے اور اس کے ذہن میں چبھے ہوئے کانٹے نکالنے میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ قابل صد ستائش ہے۔
یہ درست ہے کہ دولہ شاہ کے چوہوں کی نسل کو ایک سوچے سمجھے انداز میں پروان چڑھایا گیا ہے لیکن تاریک ذہنوں کے خلاف عوام کی مزاحمت میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ یہی سبط حسن جیسے دانشوروں کی جیت ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ