معروف عشقیہ کردار سوہنی مہینوال کا تعلق گجرات یا سرائیکی وسیب کے قصبہ گجرات سے ؟ اس سلسلے میں پنجابی لکھاری حکیم اشرف صاحب کی تحقیق کے مطابق سوہنی گجرات نہیں بلکہ سرائیکی وسیب کے قصبہ گجرات سے ہے ۔ میری رائے اس کے برعکس ہے ، گزشتہ کالم میں عظیم سرائیکی شاعر خواجہ فرید کے حوالے سے بات ہوئی ، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا انہوں نے تین جگہوں پر اس کا ذکر اس انداز میں کیا ۔ کافی نمبر 118میں خواجہ فرید فرماتے ہیں۔ سسی پنوں اتے مومل انہاں وچ گنڑیساں میں کافی نمبر 105میں تذکرہ اس طرح ہے۔ دل بوڑ دی دل رولدی سوہنْیاں سسیاں ہیران بٖہوں اور کافی نمبر 73میں خواجہ فرید فرماتے ہیں کتھ لیلیٰ کتھ مجنوں کتھ سوہنْی مہینوال میرے والد مولانا کریم بخش صاحب دھریجہ کسی بڑی لائبریری کے مالک تو نہ تھے، البتہ ان کے ذاتی کتب خانے میں مذہبی کتابوں کے علاوہ عشقیہ داستانیں بھی موجود تھیں، انہوں نے سرائیکی مثنوی سیف الملوک مصنف مولوی لطف علی جتنی مشکلوں سے حاصل کی وہ ایک الگ داستان ہے، نجی کتب خانے میں پنجابی شاعر دائم اقبال قادری کی پہچان مثنوی سوہنی مہینوال بھی موجود تھی ، کتاب کے معالعے سے سوہنی مہینوال کا جو قصہ سامنے آتا ہے ۔ اس کے کوائف گجرات سے وابستہ ایک رومانی داستان اس طرح بیان ہوئی کہ کہتے ہیں کہ شاہ جہاں کے دور حکومت میں یہاں ایک کمہار عطاء اللہ رہتا تھا اور تلا کے نام سے مشہور تھا۔ کوزہ گری کے فن میں وہ اس قدر طاق تھا کہ اس کے فنی کمالات کی شہرت نے اس کے اردگرد دولت کے انبار لگا دیئے تھے۔ دولت کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ نے اسے ایک اور نعمت سے بھی نوازا تھا اور وہ اس کی چاند ایسی نوجوان خوبصورت بیٹی ’’ سوہنی‘‘ تھی۔اسی زمانے میں بلخ بخارا کے ایک دولت مند سوداگر کا بیٹا عزت بیگ سیرو تفریح کے لیے گجرات آیا۔ یہاں اس کے ایک دوست نے اس کی دعوت کی۔ دعوت کے دوران میں پیالیوں کا ذکر زیر بحث آیا۔عزت بیگ کو پیالیاں بہت پسند آئیں، اس نے بری تعریف کی نوکر جو پیالیاں خرید کر لایا تھا ،اس نے عزت بیگ سے مخاطب ہو کر کہا حضور پیالیوں سے تو پیالیاں بنانے والی زیادہ حسین ہے۔ یہ سن کر عزت بیگ کے دل میں سوہنی کمہارن کے حسن کا ایک عجیب خمار پیدا ہوا۔ وہ برتن خریدنے کے لیے تلے کے دکان پر آیا۔ اس کی دست کاری کے نمونوں میں قدرت کا شاہکار بھی دیکھا۔ سوہنی پر نظر پڑی۔ دونوں میں پیار کی آگ بھڑک اٹھی۔ عزت بیگ، تلے کے ہاں ملازم ہو گیا ۔ تلا نے بھینس رکھی ہوتئی تھیں، وہ بھینس چَرانے پر مامور ہو گیا اور مہینوال مشہور ہوا۔ لیکن ان کی محبت نے ابھی وحشت کا روپ بھی نہ دھارا تھا کہ اس بے رحم دنیانے ان کو رسوا کر نا شروع کردیا۔ سوہنی کے والدین تک جب یہ خبر پہنچی تو انہوں نے اس کی شادی کسی اور جگہ رچا دی ، مہینوال فقیر ہو گیا اور چناب کے کنارے جھونپڑی بنا کر رہنے لگا۔ وہ روزانہ رات کے وقت چناب کو عبور کرتا اور سوہنی سے چوری چوری ملاقات کر آتا۔ مچھلی سوہنی کو بہت مرغوب تھی۔ مہینوال روزانہ اس کے لیے مچلیاں بھون کر لاتا۔ روایت ہے کہ ایک رات مہینوال جب سوہنی سے ملنے کے لیے روانہ ہونے لگا تو اسے مچھلی یاد آگئی۔ اس نے بہت کوشش کی مگر تلاش بسیار کے باوجود مچھلی اسے ہاتھ نہ لگی۔ بالاخر اس نے اپنی ران سے گوشت کا ایک ٹکڑا کاٹا اور اسے بھون کر لے گیا۔ جب مہینوال‘ سوہنی کے پاس پہنچاتو اس میں قدرے نقاہت تھی، اس کی ٹانگوں سے خون بہہ رہاتھا۔ سوہنی والہانہ محبت کا یہ انداز دیکھ کر سہم گئی‘ اس نے مہینوال کو منع کر دیا کہ اب وہ اسے ملنے کے لیے نہ آیا کر ے بلکہ وہ خود گھڑے کے سہارے تیر کر آیا کرے گی چنانچہ روزانہ رات کو وہ گھڑے سے تیر کر مہینوال سے ملنے آتی۔ بظاہر تیرنا بہت مشکل ہوتا لیکن اس کا جنون اور پھر سچی محبت اس کا بہت بڑا سہاراتھی۔ سوہنی کی نند کو جب ان ملاقاتوں کا علم ہوا تو اس نے ایک چال چلی اور پکے گھڑے کی جگہ وہاں ایک کچا گھڑا رکھ دیا۔ اگلی رات حسب معمول سوہنی چناب کے کنارے آئی تو آسمان پر مہیب بادلوں کا جھرمٹ تھا۔ فضا میں ہولناک طوفان کا شور بپا تھا۔ بجلی کوند رہی تھی۔ سوہنی مہینوال کو ملنے کے لیے اس قدر بیقرار تھی کہ اسے اپنی نند کی جعلسازی کا بھی احساس نہ ہوا۔ وہ دریا کی طرف بڑھی لیکن قبل اس کے کہ وہ اپنے محبوب سے ملتی ، موت کی ظالم لہروں نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ مہینوال بھی دور کنارے پر کھڑا یہ سب منظر دیکھ رہا تھا۔ اسے جب سوہنی کو بہتی ہوئی نعش نظر آئی تو وہ بھی بے خوف و خطر دریا میں کود پڑا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی سوہنی سے مل گٖیا۔کسی بھی سماج میں لوک داستانوں کو بہت اہمیت حاصل ہے، ہر خطے اور ہر وسیب کی اپنی اپنی لوک داستانیں ہیں جو وہاں کی پیار و محبت کی تاریخ کا حوالہ ہونے کے ساتھ وہاں کی ادبی ثقافتی اور جغرافیائی تاریخ کا حوالہ بھی ہیں ۔بہرحال میں اپنے بزرگ حکیم اشرف صاحب کا اس بناء پر مشکور ہوں کہ انہوں نے علمی بحث کا ایک درکھولا ہے،میں جو سمجھا عرض کردیا آگے اس کام کو محقق بڑھائیںگے۔ (ختم شد)
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ