چولستان میں 21 واں سالانہ خواجہ فرید روہی امن میلہ آج 15 فروری 2019ء سے جھوک فرید چولستان میں شروع ہو رہا ہے ۔ اس میلے کا آغاز 20 سال قبل سجادہ نشین دربار عالیہ خواجہ فریدؒ خواجہ معین الدین کوریجہ نے شروع کیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ میلہ چولستان کے بہت بڑے ایونٹ کی حیثیت اختیار کر گیا ۔ میلے میں تصوف سمینار ، سرائیکی مشاعرہ ، قوالی ، کافی رنگ ، فری میڈیکل کیمپ ‘ سرائیکی ثقافتی رنگوں کے ساتھ ساتھ مختلف تقریبات شامل ہوتی ہیں ۔ اس میلے کو جزوی طور پر رحیم یارخان کی ضلعی انتظامیہ کی مدد حاصل رہی ہے مگر اس سال ڈپٹی کمشنر رحیم یارخان جمیل احمد جمیل اور اسسٹنٹ کمشنر لیاقت پور آصف اقبال کی خصوصی توجہ اور محنت سے ڈسٹرکٹ انتظامیہ کی مکمل سرپرستی حاصل ہے ۔ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے اس مرتبہ وسیب کے علاوہ سندھ ‘ پنجاب سے کُشتی کے پہلوان آ رہے ہیں اور ملاکھڑا کرایا جا رہا ہے ‘ انٹرنیشنل صوفی مجلس کا اہتمام کیا گیا ہے، نیزہ بازی ، اونٹوں اور گھوڑوں کے رقص کے ساتھ ساتھ کافی رنگ اور گرینڈ میوزیکل شو کے پروگرام بھی شامل ہیں ۔ خواجہ فرید نے اپنی زندگی کے 17 سال چولستان میں گزارے ، انہوں نے اپنی محبتوں سے چولستان جسے مقامی زبان میں روہی کہتے ہیں کو امر کر دیا ۔ خواجہ فرید نے روہی کو دعا دیتے ہوئے فرمایا ’’ ایہا روہی یار ملاوڑی ہے ‘ شالا ہووے ہر دم ساوڑی ہے ‘ ونجٖ پیسوں لسڑی گٖاوڑی ہے ‘ گھن اپنے سوہنے سئیں وو کنوں‘‘ ۔ اسی طرح خواجہ فرید نے روہی کے ایک ایک ذرے سے پیار کیا اور تو اور خواجہ فرید نے روہی کے جانوروں کو بھی ان الفاظ میں دعا دی ’’ نازو جمل جمیل وطن دے ‘ راہی راہندے راہ سجٖنْ دے ‘ ہوون شالا نال امن دے ‘ گوشے ساڈٖے ہاں دے ہِن ۔ ‘‘ خواجہ فرید نے اپنے چولستان میں قیام کے دوران وہاں کے عام آدمی سے اس قدر محبت کی کہ وہ امر ہو گئے ۔ آج فریدیات کے طالب علم خواجہ فرید کے اس شعر ’’ پُھلو ڈہے تے منت لیسوں ‘ تھورا چڑھیسوں لالو لاڑ تے ‘‘ کی تشریح کرتے ہیں تو وجد میں آ جاتے ہیں کہ پُھلو ڈٖاہا یا لالو لاڑ کوئی سردار ، تمندار ، نواب یا مخدوم نہ تھے بلکہ عام روہیلے تھے اور خواجہ فرید کی محبت سے امر ہو گئے ۔
خواجہ فریدؒ بادشاہ تو نہیں تھے مگر بادشاہوں کے بادشاہ ضرور تھے ۔ کئی ملکوں کے بادشاہ ان کے مرید تھے لیکن اس حقیقت سے بھی انکارنہیں کہ آج کچھ لوگ خواجہ فریدؒ کو جتنا مرضی ماورائی مخلوق بنانے یا دھرتی سے جدا کرنے کی کوشش کریں اور ساتھ یہ بھی کہہ دیں کہ خواجہ فریدؒ کا کلام تصوف کے ماسوا کچھ ہے ہی نہیں ، لیکن پھر بھی خواجہ فریدؒ اس دھرتی کا شاعر ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ خواجہ فریدؒ نے تصوف کی شاعری بھی کی ہے لیکن اس سے زیادہ اپنی مٹی اور اپنی دھرتی کی شاعری کی ہے ۔ وہ دھرتی کے شاعر تھے ، ان کے پیری مریدی کے حوالے سے انکار نہیں مگر آج کے پیری مریدی کے مقابلے میں وہ بہت بڑے انسان تھے۔سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی پوری نظم جس کی ایک ایک سطر اور ایک ایک لفظ میں خواجہ فریدؒ سے والہانہ عقیدت کا اظہار ہے اور جس کا اختتام بھی اس شعر پر ہوتا ہے کہ: سرمہ چشم شد بخاری را خاکپائے غلام خواجہ فریدؒ تو میں عرض یہ کر رہا تھا کہ خواجہ فریدؒ دھرتی کا شاعر ہے ، خواجہ فریدؒ نے اس وقت اپنی زبان میں شاعری کی جب تخت و تاج کی زبان فارسی ، اُردو اور انگریزی تھی اور سرائیکی کو کوئی پوچھتا نہ تھا ۔ خواجہ فریدؒ نے سرائیکی صنف میں کافیاں اس وقت لکھیں جب غزل اور نظم عروج پر تھی ۔ خواجہ فریدؒ نے کمال ہنر مندی سے حمد ، نعت ، غزل ، نظم اور قصیدے کو بھی کافی کے روپ میں ڈھال کر پیش کر دیا۔خواجہ فریدؒ نے اپنی شاعری میں بدیسی قصے لیلیٰ ، فرہاد کا ذکر برسبیل تذکرہ ایک آدھ مرتبہ کیا ، جبکہ اپنے دیس کے عشقیہ کردار سسی پنوں اور ہیر رانجھے کا باربار کیا ۔ یہ تمام باتیں اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں کہ خواجہ فریدؒکو اپنے وطن ، اپنے وسیب اور اپنی مٹی سے بے پناہ محبت تھی ۔ خواجہ فریدؒ نے اپنی شاعری میں اپنی دھرتی کی تلمیحات، دھرتی کی تشبیہات اور دھرتی کے استعارے کو استعمال کیا ہے ۔ ان کے نزدیک اپنی دھرتی ہی سب کچھ ہے: وادیٔ ایمن تھل دے چارے جتھاں بروچل کرہوں قطارے ککڑے ٹبڑے ہِن کوہ طور ایک اور جگہ فرماتے ہیں: ہر ہر قطرہ آب ہے کوثر گرد و غبار ہے مشک تے عنبر کِرڑ کنڈا شمشاد صنوبر خار دی شکل بہار دی ہے کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ خواجہ فریدؒ کی دُعاؤں سے روہی جو نئے سرے سے آباد و شاد ہو رہی ہے ، دھرتی کے اصل وارثوں کے ہاتھوں سے کیوں نکلی جا رہی ہے جن کی 70پشتیں روہی کے صحراؤں میں دفن ہیں‘ روہی ان کے ہاتھ سے کیوں نکل رہی ہے ؟ آج اگر صدیوں بعد تھوڑا پانی کے وسائل ہوئے ہیں تو کیا وہ ان زمینوں کے حقدار نہیں ؟ اور کیا ہم نے غور کیا ’’صحرائی حیات‘‘ کی بقا کیلئے لکھ لکھ چھیڑو کی جگہ ’’شکاری چھیڑؤں‘‘ نے کیوں لے لی ہے؟ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ روہی کا سنگھار کالا ہرن ، چنکارہ ، بارہ سنگھا اور کالے خرگوش کو کون کھا گیا ہے ؟ روہی میں تلور ، مرغابی ، باز اور کونج نے آنا کیوں کم کر دیا؟ اور روہی کا تیتر ، کشمیرا ، چرگ ، بھوکڑ ، چکری اور دوسرے پرندے کہاں گئے؟ شاید ان تمام باتوں کو سمجھانے کیلئے اور روہی بچانے کیلئے روہی کو ایک مرتبہ پھر ایک اور خواجہ فریدؒ کی ضرورت ہے اور سرائیکی دھرتی کو ایک اور خواجہ فریدؒ دریافت ، تلاش اور تخلیق کرنے کی ضرورت ہے ۔ خود خواجہ فریدؒ کی زبانی معمولی رعایت کے ساتھ ہم خواجہ فرید سئیں کی خدمت التجا کرتے ہیں کہ: اپنْی روہی آپ وسا توں پٹ شکاری ٹکانْے
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ