بہار رُت میں جب درختوں پر نئی کونپلیں نکلتی ہیں ،پھول رنگ اور خوشبوئیں بکھیرتے ہیں توموسم دلکش اور سُہانا ہوتا ہے اور جب موسم تبدیل ہو رہا ہوتا ہے سردی چلی جاتی ہے دھوپ میٹھی ہو جاتی ہے تو جذبات بھی مچل جاتے ہیں ۔اس موقع پر صرف انسان ہی نہیں وسیب کی ہر شئے محو رقص نظر آتی ہے ۔ اس سہانی رُت میںمورخہ 6مارچ کو وسیب کے واسی ہر سال سرائیکی اجرک ڈے کو قومی تہوار کے طور پر مناتے ہیں اور پوری دنیا کو محبت اور امن کا پیغام بھیجتے ہیں ۔اجرک کا لفظ عربی لفظ ”ازرق“ سے نکلا ہے ۔جس کے معنی ہیں نیلا رنگ ۔سندھیوں نے بھی سندھی اجرک کی تاریخ اس طرح بیان کی ہے کہ جب عرب افواج علاقے میں داخل ہوئی تو مقامی باشندوں نے نیلی چادریں اوڑھی ہوئی تھیں اور وہ ان چادروں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ان کی زبان سے بے ساختہ ازرق ، ازرق کے الفاظ ادا ہوئے ۔پھر ”’ز“ کا حرف ”ج“ میں تبدیل ہوا اور یہ اجرک کہلائی جانے لگی ۔ سرائیکی اجرک اس لئے بھی پھیلی ہے کہ زمین و آسمان کا بنیادی رنگ نیلا ہے اور یہ رنگ صوفیاءکا رنگ ہے اور آنکھوں کو ٹھنڈک دیتا ہے۔
21 فروری ماءبولی کا عالمی دن ہے۔ وہ کون انسان ہے جسے اپنی ماءبولی سے محبت نہ ہو ‘ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں یہ دن نہایت ہی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اور فروری کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو تقریبات کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ 17، 18 فروری 2018ءکو حسب سابق حکومت پاکستان کے ادارے لوک ورثہ اسلام آباد کی طرف سے ماءبولی کا قومی میلہ منعقد کیا گیا۔ یہ میلہ پاکستانی زبانوں کے حوالے سے نہایت ہی اہمیت کا حامل تھا ۔ سندھی، پنجابی، پشتو، بلوچی، سرائیکی ، ہندکو، پوٹھوہاری، براہوی، مارواڑی، بلتی، پہاڑی، خوار، گوجری، شینا، اردو ، سب رنگ موجود تھے۔ پاکستانی زبانوں اور ثقافتوں کا یہ گلدستہ بہت خوبصورت اور بھلا نظر آیا کہ سب کے اپنے اپنے رنگ تھے ‘ اپنی اپنی خوشبوئیںتھیں ۔ میلے میں منعقد کی گئی ورکشاپس ، سیمینارز ، کانفرنسوں اور کلچرل شوز کے ذریعے ایک دوسرے کی زبانیں سمجھنے اور ایک دوسرے کے قریب آنے کے مواقع ملے۔ ہم نے سرائیکی کی نمائندگی کی، سرائیکی کتابوں کا سٹال ‘ سرائیکی اجرکیں اور سرائیکی تصاویر پر مشتمل پینا فلیکس سب سے نمایاں نظر آئے۔ اس سے زیادہ خوشی کی بات یہ تھی کہ سندھی اجرک کے سٹال پر سرائیکی اجرک بھی فروخت ہو رہی تھی اور یہ سرائیکی اجرکیں حیدر آباد سے بن کر آئی تھیں۔ میں نے رب کا شکر ادا کیا اور سرائیکی دوستوں سعید اختر سیال، اکرم میرانی اور پروفیسر شمیم عارف قریشی کو بتایا کہ یہ وہی صاحب ہیں کہ جب میں سرائیکی اجرک بنوانے حیدر آباد گیا تو انہوں نے سرائیکی اجرک بنانے سے نا صرف انکار کیا بلکہ سرائیکی اجرک کا سیمپل پھینک کر کہا کہ یہ نہیں چلے گی کہ یہ سندھی اجرک کے مقابلے کیلئے ہے۔ میں نے اُن سے کہا تھا کہ یہ مقابل نہیں متبادل ہے اور میں بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کہتے ہیں یہ چلے گی نہیں ، میں کہتا ہوں کہ یہ رکے گی نہیں کہ یہ عظیم سرائیکی قوم کی پہچان ہے۔ لیکن اس صاحب کا غصہ کم نہ ہوا میں واپس آگیا لیکن آج ہمارے سندھی بھائی سرائیکی اجرک خود فروخت کر رہے ہیں، یہ سرائیکی قوم کی عظیم کامیابی ہے۔ایک واقعہ یہ ہوا کہ سندھی اجرک کے سٹال پر ایک انگریزجوڑا آیا، دکاندار نے ان کو سندھی اجرک کے ڈیزائن دکھائے ، سعید اختر سیال ، غلام فرید صاحب اور میں نے سرائیکی اجرکیں پہنی ہوئی تھیں تو انگریز جوڑے نے دکاندار کو سندھ اجرک واپس کرتے ہوئے کہا "Its very beautifull”۔پھر انہوں نے سندھی کی بجائے سرائیکی اجرک لی۔ایک لحاظ سے یہ ایک فیصلہ تھا کہ سرائیکی اجرک بہت خوبصورت ہے۔
سرائیکی میں کہا جاتا ہے کہ ”لکھیا لوہا، اَلایا گوہا“ یہ سرائیکی کہاوت پرنٹ میڈیا کی اہمیت کو اجاگر کر رہی ہے ۔سرائیکی وسیب کے اُردو اخبارات ، رسائل اور سرائیکی اخبار جھوک کے ساتھ ساتھ انگریزی اخبارات میں بھی سرائیکی اجرک کے بارے میں مضامین شائع ہو رہے ہیں ۔ اخبارات ہر سال سرائیکی اجرک ڈے پر خصوصی سپلیمنٹ بھی شائع کرتے ہیں ۔ اسی طرح پی ٹی وی ، ریڈیو اور پرائیویٹ چینلز پر بھی سرائیکی اجرک کے پروگرام نشر کئے جاتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر تو حد ہو چکی ہے ۔سرائیکی وسیب کا جو بھی شخص سوشل میڈیا پر موجود ہے وہ سرائیکی نیلی اجرک کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے اسے زیادہ سے زیادہ پروموٹ کر رہا ہے ۔ سرائیکی وسیب کے شعراءکرام نے سرائیکی اجرک کے بارے میں نظمیں اور گیت لکھے ہیں جن کو سرائیکی وسیب کے گلوکاروں نے خوبصورت دھنوں پر گایا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر طرف سرائیکی اجرک کا چرچا ہے اور سرائیکی اجرک ڈے کو قومی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ سرائیکی اجرک کے اجرا کا اعزاز بندہ ناچیز (ظہور دھریجہ) کوحاصل ہوا لیکن اسے فروغ دینے میں سرائیکی وسیب کے ادیب ، شاعر ، دانشور اور فنکار کسی سے پیچھے نہیں ۔سرائیکی نوجوان خصوصاً کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طالبعلم تو سرائیکی اجرک کے دیوانے ہیں ۔اسلام آباد ، لاہور ، کراچی ، فیصل آباد کے ساتھ ساتھ سرائیکی وسیب کی تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں میں کوئی ایسی تقریب نہیں جو سرائیکی اجرک کے بغیر ہو۔ ملتان کی محمد نواز شریف زرعی یونیورسٹی کے ہر پروگرام میں سرائیکی اجرک استعمال کی جاتی ہے ۔دوسرے اداروں کے ساتھ ساتھ ملتان کا صنعتی ادارہ شمع بناسپتی سرائیکی اجرک کے اجرا میں اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔ادارے کے چیف ایگزیکٹو شیخ احسن رشید نے مختلف تقریبات کے موقع پر نہ صرف سرائیکی اجرک خود پہنی بلکہ دوسروں کو بھی پہنائی ۔سرائیکی جماعتوں میں پاکستان سرائیکی پارٹی کے سربراہ ملک اللہ نواز وینس کی سرائیکی اجرک کے فروغ میں اہم خدمات ہیں ۔ وہ کہروڑ پکا دوسر ے علاقوں سے تھوک کے حساب سے اجرک خرید کرتے ہیں ۔پھر مختلف تقریبات میں لوگوں کو سرائیکی اجرکیں پہناتے ہیں ۔اسی طرح سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر رانا محمد فراز نون کی بھی سرائیکی اجرک کے فروغ میں بہت خدمات ہیں ۔ وہ بھی مختلف جگہوں سے تھوک کے حساب سے اجرکیں خرید کرکے محفلوں میں چار چاند لگا دیتے ہیں ۔اسری طرح بہت سی سماجی تنظیموں نے بھی سرائیکی اجرک کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سرائیکستان قومی کونسل کے چیئرمین پروفیسر شوکت مغل کا نام اس لئے نہیں آیا کہ سرائیکستان قومی کونسل سرائیکی اجرک کی بانی ہے ۔ بہرحال کرافٹ بازار کے ملک عبدالرحمن نقاش کی خدمات بھی تاریخ کا حصہ ہے ۔ انہوں نے خصوصی طور پر سرائیکی اجرک کو ملتانی ڈیزائن میں ڈھالا اور اسے بہت دلپسند اور خوبصورت بنا دیا۔سرائیکی اجرک روز بروز مقبول ہو رہی ہے اور وہ وقت دور نہیں جب وسیب کے لوگ اپنی شناخت کے ساتھ ساتھ اپنا صوبہ بھی لیں گے ۔
فیس بک کمینٹ