محرومی کا ذمہ دار وسیب کے جاگیردارمخدوموں کو قراردینے والے ابن کلیم احسن نظامی کی بات کرنے سے پہلے بات کرنا چاہتا ہوں کہ پنجاب اسمبلی نے ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں دوگنا سے بھی زیادہ اضافہ پانچ منٹ میں منظور کر لیا جبکہ غریب ملازم جو مہنگائی کی چکی میں پس چکے ہیں ان کی تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ نئے شیڈول کے مطابق وزیراعلیٰ اب 59 ہزار کی بجائے 3 لاکھ 75 ہزار تنخواہ لیں گے ۔ وزیر 45 کی بجائے 1 لاکھ 85 ہزار ، ڈپٹی سپیکر 38 کی بجائے 1 لاکھ 65 ہزار، رکن اسمبلی 83 ہزار کی بجائے 2 لاکھ ، پارلیمانی سیکرٹری 56 ہزار کی بجائے 1 لاکھ 47 ہزار، سپیشل اسسٹنٹ59 ہزار کی بجائے 1 لاکھ 85ہزارجبکہ مشیر 54 ہزار کی بجائے ایک لاکھ 85 ہزار تنخواہ لیں گے۔ اس موقع پر یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ روز وزیراعلیٰ ملتان میں تھے ، انہوں نے مختلف اجلاسوں کی صدارت کی مگر تحریک انصاف نے الیکشن سے پہلے سو دنوں میں صوبہ بنانے کا جو وعدہ کیا ہوا ہے ، اس بارے ذرہ برابر بھی غور نہیں ہوا ۔ اس کے ساتھ صوبہ تو کیا وفاقی وزیر چوہدری طارق بشیر چیمہ کی ایماء پر ان کے علاقے ہیڈ راجکاں چولستان میں مقامی آبادی پر چڑھائی کر دی گئی ۔ ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی اور چوہدری طارق بشیر چیمہ کے بندوں نے مستورات پر اتنا تشدد کیا کہ ان کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور وہ لہو لہان حالت میں ہسپتال پہنچیں ۔ ملتان میں ہونے کے باوجود وزیراعلیٰ نے اس کا کوئی ایکشن نہیں لیا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جب وزیراعلیٰ ملتان میں موجود تھے تو وفاقی وزیر کے خلاف سرائیکستان صوبہ محاذ کی طرف سے ملتان پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ ہو رہا تھا اور صرف ملتان ہی کیا وسیب کے مختلف شہروں میں مظاہرے ہو رہے تھے ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ محض ایک دن پہلے خواتین کا عالمی دن بھی منایا گیا اور دوسرے ہی دن خواتین کو ان کے گھروں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور گھروں کو آگ لگا دی گئی ۔ ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ۔ کیا اس کا نام تبدیلی ہے ؟ احتجاجی مظاہروں کے دوران مقررین نے یہ بھی کہا کہ اقلیتوں کے خلاف ایک وزیر کے نازیبا الفاظ پر ان سے استعفیٰ لے لیا گیا تو کیا وسیب کے لوگوں کو انصاف کی ضرورت نہیں ۔ اب میں ذکر کروں گا اپنے ایک مرحوم دوست کا، ملتان کے معروف خطاط اور خطِ رعنا کے موجد ابن کلیم احسن نظامی کی گزشتہ روز (12 مارچ کو) دوسری برسی منائی گئی۔ مرحوم بہت بڑے خطاط ہونے کے ساتھ ساتھ ادیب ، شاعر ، دانشور اور ہفت روزہ کلیم کے ایڈیٹر بھی تھے ۔ موصوف کو اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے بہت محبت تھی ۔ وہ وسیب کی شناخت اور اس کے حقوق کیلئے جدوجہد میں ہمیشہ ہمارے ساتھ شریک رہے ۔ ان کا شعر ’’ اساں قیدی تخت لاہور دے نی ، ساکوں اپنْیں گھانْیں وات ڈٖتے ‘‘ بہت مشہور ہوا ۔ مرحوم ابنِ کلیم احسن نظامی کی شخصیت کے بہت حوالے ہیں ۔ انہوں نے اپنی زندگی میں بہت کار ہائے نمایاں سر انجام دیئے۔ وفات سے چند دن پہلے کی بات ہے وہ اپنے بیٹے کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے اور انہوں نے اپنا فن پارہ جو کہ سرائیکی اجرک کی شناخت نیلے اور فیروزی رنگوں سے مزین ہے اور جس میں خواجہ فرید سئیں کا پیغام ’’ ہُنْ تھی فریدا شاد ول ‘‘ کا فریم عطا فرمایا ۔ اس کے ساتھ ایک سرائیکی کتاب کا مسودہ دیتے ہوئے یہ خواہش بھی کی کہ دلشاد کلانچوی صاحب کا سرائیکی ترجمے والا قرآن مجید جو میری خطاطی پر مشتمل ہے ، اس کی اشاعت مکرر آپ کریں تاکہ کلانچوی صاحب کے ساتھ مجھے اور آپ کو اس کا برابر ثواب ملے ۔ مرحوم ابنِ کلیم احسن نظامی کو اسلامی ثقافتی ورثہ ترقی کی طرف سے نادر القلم کا خطاب ، ایران بھارت اور لیگ آف عرب کی طرف سے اعزازی سندات و ٹرافیاں موصول ہوئیں ۔ انہوں نے شاہ خالد گولڈ میڈلسٹ، صدارتی ایوارڈ : جنرل ضیا الحق ، رفیق تارڑ، ہجرہ ایوارڈ وزیراعظم میاں نواز شریف، پاکستان کیلی گراف آرٹسٹس گلڈ سے گولڈ میڈل، 1984ء میں قومی مقابلہ خطاطی میں انعام ، 1987ء میں پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کی طرف سے مقابلۂ خطاطی میں خطِ رعنا پر اول انعام ، 1987 ء میں پہلے آرٹ بینال آف پاکستان میں خصوصی اور مقابلے کا انعام ، پانچویں قومی نمائشِ خطاطی ادارہ ثقافتِ پاکستان اسلام آباد، غالب اکیڈمی نیو دہلی ،قومی عجائب گھر کراچی ،رائی زنی فرہنگی ایران ،گوئٹے انسٹیٹیوٹ کراچی ، لیگ آف عرب کلچرل سنٹر نیو دہلی، گورنمنٹ آف پنجاب ، پنجاب آرٹس کونسل لاہور، نیشنل کونسل آف دی آرٹس بلوچستان ، راولپنڈی آرٹس کونسل ، حلقہ اہل قلم جہلم ، ملتان آرٹس کونسل ملتان ، میونسپل کارپوریشن ملتان، شاکر علی میوزیم لاہور سے مختلف اسناد و اعزازات حاصل ہوئے ۔ کم و بیش 100 خطِ رعنا اور دیگر خطوں کے فن پاروں کی نمائشیں ، پاکستان کے بیشتر شہروں میں اکیلی اور مشترکہ نمائشِ خطاطی ، غالب اکیڈمی نیو دہلی میں تین مرتبہ صرف ابنِ کلیم کے فن پاروں کی نمائش ہوئی ۔ استنبول ، دمشک ، تہران ، سٹاک ہولم ( سویڈن ) ، کوپن ہیگن ( ڈنمارک ) ، سعودی عرب اور دیگر دنیا کے بہت سے ممالک میں خطاطی کی نمائش ہوئی ۔ ابنِ کلیم کا اصل نام حافظ محمد اقبال اور والد صاحب کا نام محمد حسن خان لنگاہ تھا۔آپ کو خطاطی کا فن ورثے میں ملا ، آپ کے والد بھی بہت بڑے خطاط تھے اور کلیم رقم کے نام سے ان کا بہت شہرہ تھا ۔ والد صاحب کی نسبت سے آپ ابنِ کلیم احسن نظامی کے نام سے معروف ہوئے ۔ عربی میں انہوں نے ماسٹر کیا ۔ انہوں نے خطاطی کے فروغ کیلئے بہت خدمات سر انجام دیں اور پاکستان کے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ انڈیا ، ڈنمارک اور دوسرے ممالک میں ان کی خطاطی کی نمائشیں ہوئیں ۔ انہوں نے خطاطی کے فروغ کیلئے دبستانِ فروغ خطاطی کے نام سے ایک تنظیم بھی رجسٹرڈ کرائی ہوئی تھی ۔ آپ خطِ رعنا کے موجد تھے ، یہ خط انہوں نے عربی و فارسی کی آمیزش سے تیار کیاتھا ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ سات سو سال بعد ایک نیا خط وجود میں آیا ہے۔ وہ مختلف انجمنوں جیسا کہ ادارہ فروغ سرائیکی ، جماعت چشتیہ کلیمیہ ، کیلیگرافر ایسوسی ایشن ، گلِ رعنا ادب سوسائٹی ، سوسائٹی آف کیلی گرافی انسٹرکٹرز سے بھی وابستہ تھے ۔ انہوں نے فنِ خطاطی پر سات کتابیں رقم کیں ، سات کتابیں ان کی سرائیکی میں اور اسی طرح نصف درجن کے قریب کتابیں دوسرے موضوعات پر شائع ہوئیں ۔ سئیں ابنِ کلیم احسن نظامی بہت بڑے خطاط ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے انسان بھی تھے ۔ ایسے لوگ روز روز نہیں بلکہ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں ۔ ان کی خدمات کو وسیب کے لوگ کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔ وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے اپنے فن اور اپنی خوبصورت یادوں کے ساتھ ۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ