مسلم لیگ ن کے سربراہ اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ کالا باغ ڈیم نہیں بننا چاہئے، یہ متنازعہ مسئلہ ہے ‘ اسے نہ چھیڑا جائے کہ تین اسمبلیوں نے اس کے خلاف قرارداد پاس کر رکھی ہے ۔ دوسری طرف سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف نے کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں قرارداد جمع کرائی ہے ۔ حیرت ہے کہ دونوں جماعتیں کالا باغ ڈیم کی حامی رہی ہیں ۔کالا باغ ڈیم کے حق میں عمران خان کی تقریریں موجود ہیں جبکہ ن لیگ نے پنجاب اسمبلی سے کالا باغ ڈیم کے حق میں قرارداد پاس کرائی ۔ اس مسئلے پر دونوں جماعتوں کی کہہ مکرنی سے پہلے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تمام صوبے کالا باغ ڈیم کے مسئلے پر اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں مگر کالا باغ ڈیم کے اس فریق سے کوئی نہیں پوچھ رہا جہاں ڈیم بننا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کالا باغ ڈیم کا اصل وارث سرائیکی خطہ ہے ۔ کالا باغ ڈیم کے بارے میں اگر رائے طلب کرنی ہو تو آپ میانوالی ‘ بھکر ‘ خوشاب ‘ دیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کا وزٹ کیجئے کہ ڈیم نہ بننے سے یہ علاقے سب سے زیادہ متاثر ہیں ۔ میانوالی ‘ بھکر ‘ خوشاب تو پیاس سے صحرا کا روپ دھار چکے ہیں اور ڈی آئی خان و ٹانک کو پانی کا حصہ ملنے کی صرف ایک ہی شکل ہے کہ کالا باغ ڈیم تعمیر ہو ۔ اب یہ بھی دیکھئے کہ ڈی آئی خان ‘ ٹانک خیبرپختونخواہ میں ہیں ، خیبرپختونخواہ والوں کو ہر جگہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور اپنے حصے کے پانی کا مطالبہ کرنا چاہئے مگر وہ نہیں کر رہے۔ ایک غلط فہمی دریائے سندھ کے نام سے ہے ۔ صوبہ سندھ والے محض نام کی وجہ سے دریائے سندھ کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں جو کہ درست نہیں۔ سندھ کا لغوی معنی دریا ہے اور دریائے سندھ کے آغاز سے اختتام تک اس کے کئی نام مثلاً جہاں سے شروع ہوتا ہے ، وہاں اس کا نام اباسین ہے ۔ ’’ ابا سئیں ‘‘ سرائیکی لفظ ہے جس کا مطلب ’’ دریاؤں کا باپ ‘‘ ، آگے یہ بہت بڑی جھیل کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ اس کا نام ’’ مہو ڈھنڈ ‘‘ ہے ۔ یہ بھی سرائیکی لفظ ہے ، سرائیکی میں ’’ ڈھنڈ ‘‘ ڈیم کو کہتے ہیں ۔ مہو یا ’’ موہانڑیں ‘‘ مچھلیاں پکڑنے والے کو کہتے ہیں ۔ وسط میں اس دریا کا نام ’’ نیلاب ‘‘ ہے ۔ آگے آکر یہ دریائے اٹک ہے ۔ سرائیکی خطے میں اس کا نام سندھ ہے ۔ سب سے اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ صوبہ سندھ میں دریائے سندھ نہیں بلکہ ’’ مہران ‘‘ ہے ۔اگر نام سے ملکیت کا دعویٰ مضبوط ہوتا ہے تو پھر اس کے بلا شرکت غیرے سرائیکی مالک ہیں کیونکہ دریائے سندھ کا نام صرف سرائیکی علاقے میں سندھ ہے اور ویسے بھی سرائیکی دھرتی کو تاریخی کتابوں میں سپت سندھو یعنی سات دریاؤں کی سر زمین کے نام سے یاد کیا گیا تو میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اصل فریق سرائیکی ہے ۔ دریائے سندھ ،ضلع میانوالی سے سرائیکی وسیب میں داخل ہوتا ہے پھر دیرہ اسماعیل خان ،دیرہ غازی خان ،بکھر لیہ مظفر گڑھ بہاولپور راجن پور اور رحیم یار خان کے اضلاع سے ہوتا ہوا سندھ کے ضلع سکھر میں داخل ہوتا ہے اور سندھ ہی کے ضلع ٹھٹھہ سے گزر کر سمندر میں جا گرتا ہے ۔سب سے پہلی بات جو سمجھنے کی ہے کہ وہ یہ ہے کہ ضلع میانوالی سے رحیم یار خان تک دریائے سندھ سرائیکی وسیب کے اضلاع سے گزرتا ہے۔کالا باغ میانوالی دیرہ اسماعیل خان لیہ دیرہ غازی خان راجن پور اور کشمور تک 400کلومیٹر سرائیکی علاقے کے سینے پر چلتا ہے کشمور سے آگے سکھر بیراج اور کوٹری بیراج کے رقبے سیراب کرتا ہوا بدین وٹھٹھہ سے ہوتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے ۔ کسی بھی ڈیم کی تعمیر سے لوگوں کے خدشات کو دور کرنا ضروری ہے کہ یہ بھی ہوا ہے کہ پانی دینے کا جھانسہ دیکر خطے کے اصل وارثوں سے ان کے رقبے ہی چھین لیے گئے ۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں ایک دوسرے پہلو پر بھی غور کرنا ہو گا وہ پہلو ہے ’’نو آباد کاری ‘‘جس کے نام سے بھی ’’مقامی لوگ خوفزدہ ہیں ،نو آباد کاری کے پس منظر پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ توسیع پسندی کی تاریخ بہت قدیم ہے پہلے وقتوں میں خطوں و علاقوں پر قبضے کے لئے فوج اور ہتھیا اہم عنصر تھے ،پندرہویں اور سولہویں صدی میں افریقہ ،ایشیا ء اور لاطینی امریکہ کے کے توسیع پسندوں نے علاقوں اور خطوں پر قبضے کیلئے نو آباد کاری کی اصطلاح ایجاد کی اور اسے بطور ہتھیار استعمال کیا دنیا کو بتایا گیا کہ غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے ایگری کلچر ریفارمز کی جا رہی ہیں مگر دنیا نے دیکھا کہ نو آبا د کاری کے نام پر مقامی لوگ نہ صرف اقلیت میں بدل دیے گئے بلکہ ان کی قومی شناخت ہی صفحہ ہستی سے مٹادی گئی ،یہی طور طریقے اور حربے برصغیر میں انگریز دور سے شروع ہوئے سرائیکی خطے جھنگ کی قدیم تحصیل لائل پور کو بطورماڈل دیکھا جا سکتا ہے ،وہاں انگریز وں کی طرف سے نو آباد کاری کر کے مقامی لوگوں کو محروم کر دیا گیا ،تھوک کے حساب سے رقبے باہر سے آنیولوں کو دیے گئے ۔ سرائیکی وسیب کے لوگ میاں شہباز شریف کی قومی اسمبلی میں تقریر اور تحریک انصاف کی طرف سے کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں سندھ اسمبلی میں جمع کرائی گئی قرارداد پر حیران و ششدر ہیں ۔ قومی جماعتوں کو اپنے موقف پر سختی سے قائم رہنا چاہئے کہ کالا باغ ڈیم قومی ایشو ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں پہلے ہی مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ختم ہوا ہے ‘ یہ مسئلہ مشترکہ مفادات کونسل میں بھی پیش کیا جا سکتا تھا ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی کالا باغ ڈیم کے بارے میں واضح کہا کہ یہ ڈیم بھی ہر صورت بنے گا۔ سپریم کورٹ آئین کی دفعہ 184 کے تحت اس بارے میں رولنگ دینے کا اختیار رکھتی ہے اور آئین کے آرٹیکل 184(1) کے تحت دائر کی گئی درخواستوں کو پہلے سے سماعت کر رہی ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ کالا باغ ڈیم سرائیکی وسیب میں بننا ہے ‘ مگر اس کا سندھ کو بھی اتنا ہی فائدہ ہے جتنا کہ سرائیکی وسیب کو ۔پانی کے مسئلے پر سرائیکی وسیب کا پہلے بھی بہت زیادہ استحصال ہو چکا ہے۔ سرائیکی وسیب جسے پانی کے مسئلے پر فریق تسلیم نہیں کیا جارہا ،ڈیموں کی تعمیر کیلئے اس کی قر بانیاں سب سے ذیادہ ہیں ،سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو تین دریا فروخت کیے گئے ،یہ تینوں دریا سرائیکی خطے کے تھے ،دریائے راوی لاہور سے صرف گزرتا تھا باقی اس اصل ’’وطن ‘‘ سرائیکی خطہ تھا ،دریاؤں کی حاصل شدہ رقم سے منگلہ اور تربیلہ ڈیم بنائے گئے اس سے 80ہزار ایکڑ سے زائد کا رقبہ متاثر ہوا ،متاثر ہونے والے رقبے کے کلیم سرائیکی دھرتی چولستان میں دیئے گئے او ر اب بھی چولستان میں تربیلہ ڈیم کے متاثریں اور منگلہ ڈیم کے متاثرین کے چکوک موجود ہیں ۔ڈیمز کے نتیجے میں دوسری نہروں کے ساتھ بلوچستان کے لئے ایک بڑی نہر ’’پٹ فیڈر‘‘بنائی گئی۔ آج بھی پٹ فیڈر متاثرین کے چکوک موجود ہیں ،ڈیموں کی تعمیر کے بعد چولستان اور تھل کے لیے نہریں نکالی گئیں یہاں لوگ خوش تھے کہ زمینوں کو پانی ملے گا لیکن پانی تو کیا ملنا تھا نہروں کی آمد کے باعث وہ زمینیں ’’کھسوا‘‘ بیٹھے۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ