دو قسطوں میں میرا کالم ’’روہی اور خواجہ فرید‘‘روزنامہ 92نیوز میں شائع ہوا تو بہت سے کرم فرمائوں نے حوصلہ افزائی کی اور چولستان کے حوالے سے تجاویز بھی دیں ۔چوہدری محمد افضل کا تعلق امروکہ چولستان سے ہے اور ملتان میں بھی ان کا گھر ہے ان کا کہنا ہے کہ کالم پڑھ کر بہت لطف آیا ،میری درخواست ہے کہ موجودہ حکومت چولستان کے مسئلے حل کرے اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کیلئے اقدامات کرے،ان کایہ بھی کہنا ہے کہ سابقہ حکومت نے بڑے شہروں کو فوکس کیا اور پسماندہ علاقوں کو نظر انداز کیا جس کے منفی نتائج برآمد ہوئے ۔رحیم طلب سرائیکی وسیب کا جانا پہچانا نام ہے ،ادب کی دنیا میں ان کا اپنا ایک مقام ہے ،اہم حکومتی عہدے پر لودھراں میں ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ آپ کا کالم پڑھ کر گویا چولستان کی سیر ہوگئی مگر تشنگ باقی ہے ،میری خواہش ہے کہ اس سلسلے کو جاری رکھا جائے کہ لوگ چولستان کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں اور چولستان کے بارے میں پڑھنا چاہتے ہیں،سرائیکستان صوبہ محاذ کے چیئرمین اور خوانوادہ فرید کے چشم و چراغ خواجہ غلام فرید کوریجہ نے کہا کہ روہی چولستان ہماری محبتوں کا مرکز ہے میرے حضور خواجہ فریدؒ نے اپنی زندگی کے 17سال چولستان میں بسر کیے اور چولستان کو امر کردیا ،چولستان کے ایک ایک ذرے سے پیار کیا حتیٰ کہ چولستان کے جانوروں اور پرندوں سے بھی محبت کی ،ان کا مطالبہ ہے کہ اس سلسلے کو آگے بڑھا یا جائے تاکہ لوگ چولستان کے بارے میں جان سکیں۔ روزنامہ 92نیوز میں چھپنے والے کالم کے بارے میں مجھے رحیمے ارخان سے غلام جیلانی خان ایڈووکیٹ، خان پور سے سرائیکی شاعر سعید ثروت ،عبدالستار زائر ،ملتان سے ملک یعقوب وینس نے بھی فون کیا ان تمام دوستوں کا شکر گزار ہوں اور ان کے حکم کی تعمیل کیلئے ’’خواجہ فرید اور روہی‘‘ کے بارے میں سلسلے کو آگے بڑھا رہا ہوں۔ خواجہ فریدؒ کی شادی روہی کی لاڑ برادری کی خاتون سے ہوئی ۔ روہی میں یہ معزز خاندان آج بھی موجود ہے ۔ خواجہ فریدؒ نے اپنی شاعری میں لاڑ برادری اور لاڑ برادری کے افراد کا ذکر بہت محبت سے کیا ہے ۔ جب آپ نے روہی میں ٹوبھہ بنوانے کا قصد کیا تو فرمایا: ٹوبھا بنْویساں دل دے سانگے منت چڑھیسوں لعلو لاڑ تے روہی کے ٹوبھوں میں جب پانی ہے ، روہی کا باشندہ روہی نہیں چھوڑتا البتہ پانی ختم ہو جائے تو پھر پیاس کی موت اسے روہی سے نکل باہر کرتی ہے ۔ اسی طرح روہی کے لوگوں کی ہجرت اور آنا جانا لگا رہتا ہے ۔ اس موقع کیلئے خواجہ فریدؒ نے کہا: روہی واس سبھے لڈٖ آئوسِن اپنْیاں جھوکاں ساڑ تے پھلو ڈٖہے تے منت لیسوں تھورا چڑھیسوں دینے لاڑ تے ایک اور کافی میں خواجہ غلام فریدؒ خواہش کرتے ہیں کہ روہی میں اپنے کنبے کیساتھ کچھ دن گزاروں ۔ کنبے یا خاندان کیلئے انہوں نے لفظ ’’سگھری‘‘ استعمال کیا ہے ۔ خواجہ سئیں کا کمال یہ ہے کہ آپ خالص سرائیکی الفاظ کیساتھ ساتھ سندھی ، مارواڑی اور فارسی و عربی الفاظ کو اتنی خوبصورتی کیساتھ استعمال کر لیتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ لفظ کسی دوسری زبان میں آیا ہے: ساونْ آن سوہیساں روہی سندھڑوں سگھری لڈٖ تے جب کسی انسان کو کسی علاقے یا خطے سے محبت ہو جاتی ہے تو اس علاقے کی ہر چیز اسے پیاری اور محبوب لگتی ہے ۔ روہی خواجہ فریدؒ کی محبوب جگہ ہے اور وہ اس سے پیار کرتے ہیں نہ صرف روہی سے بلکہ روہی کے جمادات و نباتات اور چرند پرند سے بھی پیار کرتے ہیں ۔ اونٹ زمانہ قدیم سے بر برادری اور انسانوں کی سواری کے بھی کام آ رہا ہے خصوصاً صحرائی علاقے میں جہاں گھوڑا یا دوسرے مسافر برادر جانور نہیں جا سکتے وہاں ایک اونٹ ہی ہے جو منزل مقصود تک لیجانے کا واحد سہارا ہے ۔روہی میں اونٹ کو صحرائی جہاز بھی کہا جاتا ہے ۔ اونٹ کی اہمیت یا افادیت بارے پوری دنیا کے لٹریچر میں بہت کچھ کہا گیا ہے ۔ صحرائے عرب پر مشتمل عربی زبان کے لٹریچر میں بھی اونٹ کی بہت تعریف کی گئی ہے مگر اونٹ سے جس محبت کا اظہار خواجہ فریدؒ نے سرائیکی زبان میں کیا ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی: نازو و جمل جمیل وطن دے راہندے راہ سجنْ دے شالا ہوون نال امن دے گوشے ساتھی درد منداں دے ہن (جاری)
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ