وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدارنے گزشتہ روز ایوان اقبال لاہور میں 100روزہ کارکردگی کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ صوبہ جنوبی پنجاب کا سیکرٹریٹ یکم جولائی سے کام شروع کرے گا ، صوبے کیلئے ایگزیکٹو کونسلیں قائم کر دی گئی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اپنا گھر ہاﺅسنگ سکیم پر کام شروع کر دیا گیا ہے اور صوبے میں صوفی یونیورسٹی کے علاوہ چار نئی ٹیکنیکل یونیورسٹیاں بنانے کیلئے بھی ورک ہو رہا ہے۔100دن کی کارکردگی کے حوالے سے دیکھا جائے تو عوام کو ریلیف کی بجائے تکلیف ملی ہے اور جہاں تک صوبے کی بات کا تعلق ہے تو 100دن میں صوبہ بنانے کی بات کی گئی تھی۔ سول سیکرٹریٹ کا کوئی ذکر نہ تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سب سول سیکرٹریٹ کسی بھی لحاظ سے صوبے کا متبادل نہیں۔ جہاں تک ایگزیکٹو کونسلوں کی بات توصوبہ بنانے کے لئے پارلیمانی صوبہ کمیشن کی ضرورت ہے۔ صوبے کے حوالے سے تحریک انصاف کے وعدے اور عمل میں بعد المشرقین ہونے کے ساتھ ساتھ قول و فعل میں بھی تضاد ہے۔ صوبے کے نام پر جو لالی پاپ آج دئیے جا رہے ہیں وسیب کے لوگ پہلے ہی بھگت چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی ، ن لیگ نے بھی یہی کچھ کیا۔ آج اگر تبدیلی کا دعویٰ ہے تو آج جبکہ میاں شہباز شریف نے بھی صوبے کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور پیپلز پارٹی بھی غیر مشروط طور پر صوبے کی حمایت کا اعلان کر تی آ رہی ہے تو صوبے کے مسئلے کو زیر التواءرکھنا کسی بھی لحاظ سے درست نہیں اس سے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں صوبے کے مسئلے کو اقتدار کی سولی پر نہ لٹکایا جائے۔ وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ اپنا گھر ہاﺅسنگ سکیم پر بھی کام شروع کر دیا گیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ غریبوں کو گھر دینے کاوعدہ ہوا مگر تجاوزات کے نام پر غریبوں کے گھر مسمارہوئے۔ملازمتیں دینے کاوعدہ ہوا مگر ہر آئے روز خصوصاً پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے شعبے سے روزانہ سینکڑوں برطرفیاں ہو رہی ہیں۔جہاں تک وسیب کا تعلق ہے تو ملتان میں فاطمہ جناح ٹاﺅن کے نام سے ایک ہاﺅسنگ سکیم 20سال پہلے بنی۔لوگوں نے پلاٹوں کی قیمتیں حکومت کو ادا کر دیں مگر پلاٹ ابھی تک نہیں ملے، میاں شہباز شریف نے نہ صرف یہ کہ حق داروں کو حق نہ دیا بلکہ جان بوجھ کر اس مسئلے کو لٹکایا ، میاں شہباز شریف نے صحافی کالونی ملتان کے مسئلے کو بھی خراب کیا ، اب جبکہ وزیر اعلیٰ کا تعلق سرائیکی وسیب سے ہے اگر آج بھی ان مسائل کے حل کے لئے کوئی قدم نہیں ا±ٹھایا جاتا تو پھر سابقہ اور موجودہ حکمرانوں میں کیا فرق باقی رہا ؟وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے صوفی یونیورسٹی اور چار ٹیکنیکل یونیورسٹیوں کے قیام کا ذکر کرتے وقت یہ نہیں بتایا کہ یہ یونیورسٹیاں کہاں قائم ہوںگی۔ اصولی طور پر یہ تمام یونیورسٹیاں سرائیکی وسیب کے پسماندہ علاقوں میں قائم ہونی چاہئیں۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے ملتان میں پھولوں کی نمائش کے افتتاح پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جنوبی پنجاب صوبہ کے معاملے کو لٹکانے کیلئے بہاولپور صوبہ کا شوشہ چھوڑا گیا اور صوبے کے ایشو کو خراب کرنے کیلئے دو صوبوں کے مطالبے شروع کرائے گئے ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ بہتر ہوتاکہ مخدوم شاہ محمود قریشی وضاحت کر دیتے کہ صوبے کی راہ میں روڑے کون اٹکا رہاہے اور بہاول پور صوبے کا شوشہ کون چھوڑ رہاہے ؟ کیا مخدوم شاہ محمود قریشی کو اس بات کاعلم نہیں کہ ا±ن کی اپنی کابینہ کے وزیر چودھری طارق بشیر چیمہ آج کل بہاولپور صوبہ کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں۔ مخدوم شاہ محمود قریشی صاحب کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ وسیب کے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہورہا ہے اور تحریک انصاف خود یہ چاہتی ہے کہ صوبے کے مسئلے کو زیر التواءرکھا جائے یہی حربہ (ن) لیگ کے دور میں بھی استعمال ہوا ا±س وقت بھی جب سرائیکی صوبے کا ایشو طاقتور صورت میں سامنے آیا تو (ن) لیگ نے بہاولپور صوبے کا ایشو پیدا کر دیا تھا ہمارا تعلق بہاولپور سے ہے ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے حربے بہاولپور صوبہ بنانے کے لئے نہیں بلکہ سرائیکی صوبے کا مقدمہ خراب کرنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اگر ایسا نہیں تو ٹیم کے کپتان عمران خان کو جواب طلبی میں کتنی دیر لگتی ہے کہ وہ چودھری طارق بشیر چیمہ سے پوچھیں کہ وہ حکومتی پالیسی کے برعکس کیوں چل رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے مولانا سراج الحق نے انتظامی صوبے کی بات کی ہے۔ پنجاب کی شناخت پر پنجاب سندھ کی شناخت پر سندھ پختونوں کی شناخت پر خیر پختونخواہ اور بلوچوں کی شناخت پر بلوچستان اگر جائز ہے تو پھر صوبہ سرائیکستان میں کیا حرج ہے ؟ وسیب کے لوگوں سے مذاق کیوں کیا جا رہاہے ؟عدل اور انصاف کے الگ الگ پیمانے کیوں ہیں؟ 100دن کارکردگی تقریب سے پنجاب کے وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے بھی خطاب کیا۔اور کہاکہ جنوبی پنجاب صوبے کے لئے آئین سازی کی ضرورت ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ آئین سازی کون کرے گا ؟ عوام نے تو اسی مقصد کے لئے ووٹ دے کر آپ کو اسمبلی میں بھیجا ، اچھی بات ہے کہ آپ کو صوبے اور آپ کے بھائی مخدوم خسرو بختیار کو مرکز میں بڑی وزارتیں مل گئیں مگر آپ اپنے اصل مینڈیٹ کو فراموش نہ کریں۔ وسیب کے سرداروں، تمنداروں اور جاگیرداروں کو یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ صوبے بننے کا جہاں سب کو فائدہ ہے وہاں اقتدار کے حوالے سے سب سے زیادہ فائدہ با اثر سیاسی لوگوں کو ہو گا۔ آج اقتدار کے مراکز کی آشیرباد سے اگر وسیب کو کچھ حصہ مل گیا ہے تو اسے دائمی اقتدار نہیں سمجھنا چاہیے یہ سب کچھ عارضی ہے۔ مستقل اور دائمی اقدامات وہ ہوں گے جو کہ عوام کی بہتری کے لئے کئے جائیں گے۔ مخدوم ہاشم جواں بخت کو یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چاہیے کہ وسیب کے لوگوں کو ہمیشہ طعنہ ملتا آ رہا ہے کہ وسیب کی محروی کے ذمہ دار خطے کے جاگیردار ہیں۔
(بشکریہ :روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ