لاہور سے دو دلچسپ خبریں موصول ہوئی ہیں۔ گو کہ بیانات کو خبر کہنا خبریت کے بنیادی تقاضوں کے منافی ہے تاآنکہ کسی تقریر میں کوئی لیڈر کوئی رہنما اصول بیان کرتے ہوئے کسی قوم کی رہنمائی کا اعلان کرتا دکھائی نہ دے۔ ایسا بیان آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز کراچی میں نیوی کی پاسنگ آو¿ٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے ضرور جاری کیا ہے۔ جس میں ملک کو ایک غیر علانیہ جنگ کے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ اس جنگ میں ’ہمارے اپنے ہی لوگ دشمن کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پھیلایا جانے والا زہر ہمارے نوجوانوں کو گمراہ کررہا ہے‘۔ جنرل صاحب کی تقریر پاکستان کی خارجہ اور سیکورٹی پالیسی کے حوالے سے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں اصرار کے ساتھ امن سے رہنے اور جنگ سے گریز کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ تاہم اس تقریر کے بنیادی نکات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان تقریر نما خبروں کو پڑھ اور سمجھ لیا جائے جو بالترتیب اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہیٰ اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے لاہور میں جاری کئے ہیں۔
ان دونوں بیانات میں چوہدری پرویز الہی کا بیان اس لحاظ سے بازی لے گیا کہ انہوں نے موجودہ آرمی چیف کے بارے میں یہ خوشگوار پیش گوئی کی ہے کہ ’جنرل قمر جاوید باجوہ کی پاکستان کی سلامتی اور اتحاد کے لئے کی جانے والی کوششیں ملک کی تاریخ کا اہم باب بن چکی ہیں اور ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی‘۔ انہوں نے جنرل صاحب کی توصیف کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ ان کی خاموش سفارت کاری نے ملک کو سفارتی طور پر تنہائی سے نکال لیا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ایران کے دورے کرکے دو طرفہ تعلقات کو بحال کیا ہے۔ چین کا دورہ کرکے سی پیک کے بارے میں غلط فہمیاں دور کی ہیں اور دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی پیدا کی ہے‘۔
چوہدری پرویز الہیٰ چونکہ ’حقیقت پسند ‘ سیاست دان ہیں، اس لئے وہ کبھی اس حقیقت کو نہیں بھولتے کہ قصیدہ پڑھتے ہوئے یہ یقین کرلیا جائے کہ موصوف فوج کے سربراہ کے عہدے پر فائز ہو۔ اس عہدے سے علیحدہ ہوجانے والے چوہدری صاحب کے ممدوحین کی فہرست سے خارج ہوجاتے ہیں۔ جیسے کہ سابق صدر اور فوجی سربراہ جنرل (ر) پرویز مشرف جنہیں ایک زمانے میں چوہدری پرویز الہیٰ بار بار صدر منتخب کروانے کا اعلان کر رہے تھے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اگر چاہیں تو یہ اعزاز اب انہیں حاصل ہو سکتا ہے کیوں کہ وہ ابھی تک ملکی فوج کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں۔
وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اگرچہ چوہدری ہونے کے باوجود پرویز الہیٰ جیسی ذہانت اور دور بینی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ کے بارے میں تاریخ کا کوئی نیا باب تو تحریر نہیں کیا لیکن نواز شریف اور آصف زرداری کو ’ٹھگ‘ قرار دے کر اور یہ بتا کر کہ 24 دسمبر کو احتساب عدالت نواز شریف کو کیوں اور کیسے سزا دینے والی ہے، یہ ضرور واضح کر دیا ہے کہ ملکی نظام کون سے اور کیسے ہاتھوں میں محفوظ ہو چکا ہے۔ پرویز الہیٰ اسی لئے ان ہاتھوں کے کرشمے بیان کرتے ہوئے کوئی حجاب محسوس نہیں کرتے۔
حکومت کے نمائیندے نے دیوالیہ ہوتے ہوئے ملک کی حکومت کی بے بسی کو بیان کرتے ہوئے بھی اپنی شان قصیدہ گوئی سے ایسا منظر تخلیق کیا ہے کہ جس طرح نواز شریف اور آصف زرداری پاکستانی خزانے میں ’نقب‘ لگا کر بیرون ملک دولت کے پہاڑ جمع کرچکے ہیں، اسی طرح محب وطن وزیر اعظم عمران خان پاکستانی اسٹیٹ بنک کا خزانہ بھرنے کے لئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے خزانوں سے مال ’اڑا لانے‘ میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اب قوم کو خوش ہونا چاہئے کہ اگر اس کا سپہ سالار ’خاموش سفارت کار‘ ہے تو اس کا وزیر اعظم دوست ملکوں کے خزانے خالی کروانے کا ماہر ہے۔ اسی لئے فواد چوہدری یہ بتا رہے ہیں کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے بعد کئی دوسرے ممالک بھی پاکستان کا خزانہ بھرنے کے لئے ایسے ہی اعلانات کرنے والے ہیں۔
گویا عمران خان جس طرح شوکت خانم اسپتال کی تعمیر کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جیبیں خالی کرواتے تھے اب وہ اسی مہارت اور تجربہ کو کام میں لاتے ہوئے دوست ملکوں کو خزانوں کے منہ کھولنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ واضح ہو کہ جس ملک کو ایسا ماہر اور کماو¿ وزیر اعظم میسر ہو تو اس کے لوگوں کو محنت کرنے، کارخانے چلانے، کھیتوں میں ہل جوتنے اور قومی پیداوار بڑھانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس ملک کی حکومت کے لئے تو بوڑھوں اور معذوروں کے لئے پناہ گاہیں بنانے کے بعد قوم کے ہر فرد کے لئے وظیفہ اور دیگر سہولتوں کا اہتمام کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہوگا۔ کارنامے عمران خان کے اور بیان فواد چوہدری کا ہو تو قوم کو خوشی سے مدہوش ہونا ہی چاہئے۔
تاہم یہ یقین رکھنا چاہئے کہ کراچی میں پاک بحریہ کے افسروں کی پاسنگ آو¿ٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے جب سائبر وار اور اس زہریلے بیانیہ کا ذکر کیا ہے جو بقول ان کے دشمن کی غیرعلانیہ جنگ ہے اور جس میں خود اپنے ہی لوگ آلہ کار بن کر نوجوانوں کا ذہن اپنے ہی ملک کے خلاف زہر سے بھر رہے ہیں، تو ان کے دماغ میں چوہدری پرویز الہیٰ اور فواد چوہدری نہیں ہوں گے۔ کیوں کہ ان دونوں کے بیانات تو جنرل صاحب کی پالیسی تقریر کے ایک روز بعد سامنے آئے ہیں، اگرچہ وہ اس سے پہلے بھی اپنے ان زریں خیالات سے قوم کو مستفید کرتے رہتے ہیں۔ البتہ جنرل صاحب جب ملک کی نوجوان نسل کے دل و دماغ کو ’پرو پیگنڈے‘ سے لاحق خطرہ کا ذکر کررہے ہیں تو انہیں اس بات پر غور ضرور کرنا چاہئے کہ ان کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملانے والے سیاست دان کیا اسی قسم کے کسی پروپیگنڈا مشن کا حصہ ہیں یا وہ محض اپنی نوکریاں پکی کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقریر میں بعض بنیادی اصولوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اوّل، پاکستان امن چاہتا ہے اس لئے اب جنگ کی بجائے غربت و افلاس کے خلاف جدوجہد کرنے پر توجہ دی جائے۔ دوئم، موجودہ حکومت بہت مخلص ہے۔ وہ ہمسایہ ملکوں کے ساتھ امن کے لئے پورے اخلاص سے کوشش کررہی ہے، اسے پاکستان کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔ سوئم، سائبر یا ہائبرڈ وار کے ذریعے پاکستان کے خلاف غیر اعلان شدہ جنگ سے نمٹنے کے لئے فوج کو اعلیٰ بیانیہ تیار کرنے اور ہوشیار و چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
بھارت کے ساتھ جنگ کے حالات نئے نہیں ہیں۔ انہیں پیدا کرنے میں بھارتی حکومت کی پاکستان دشمنی اور اس ملک میں پاک دشمن پروپیگنڈا کے ذریعے تیار کئے جانے والے انتہا پسند ذہن کا کردار بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن سوچنا چاہئے کہ کیا پاکستان میں ایسا ہی ذہن تیار کرنے کے لئے کام نہیں ہو¿ا اور کیا اس ملک کی دو سے تین نسلیں تاریخ اور سماج کے بارے میں گمراہ کن اسباق ازبر کرتے ہوئے پروان نہیں چڑھیں۔ یہ جاننا بھی اس ملک کی قیادت کا کام ہے کہ ان نسلوں نے ملک میں تفرقہ، فرقہ واریت اور جہادی ذہنیت کو فروغ دینے میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ اگر ہم خود اپنے ملک میں اپنے ہی لوگوں کو تاریخ سے کاٹ کر ایک گمراہ کن خواب کا اسیر بنانے میں قباحت محسوس نہیں کرتے تو دوسروں کی طرف انگلی اٹھانے سے کیا مقصد حاصل ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے عوام امن کی خواہش رکھتے ہیں لیکن کیا یہی بات اس ملک کے اداروں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ ہم جس ملک کو دشمن قرار دیتے ہوئے پروپیگنڈا کے زہر سے اپنی نوجوان نسل کے اذہان کو پراگندا کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں، اسے بھی تو یہ سوال کرنے کا حق حاصل رہے گا کہ پاکستان سے ابھرنے والے انتہا پسندی کے زہر نے کیوں کر بھارت کی سرزمین کو ایک سے زیادہ بار لال کیا ہے۔ لیکن ہمارا نظام اور حکام ہر بار مجرموں تک پہنچنے اور عالمی طور سے نامزد گناہ گاروں سے قطع تعلق کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔
جنرل قمر جاوید باجوہ، فواد چوہدری اور پرویز الہیٰ نے اپنے اپنے طور پر ایک ایک سچ بیان کیا ہے۔ اسے عالمگیریت تو اسی وقت عطا ہو سکے گی اگر یہ سچ دوسروں کے پیمانے پر بھی پورا اتر سکے۔ فواد چوہدری کا سچ یہ ہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت سوموار کو نواز شریف کو سزا سنا دے گی کیوں کہ یہ مقدمہ سادہ اور آسان ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اس حکومت کے اخلاص کی گواہی دیتے ہوئے فواد چوہدری کے سچ کو ضمانت فراہم کرتے ہیں جبکہ پرویز الہیٰ تاریخ کا ایک باب 23 دسمبر 2018 کو ہی پڑھ کر سناتے ہیں جس میں یہ ضمانت فراہم کرنے پر جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام سنہرے حروف میں لکھا ملتا ہے۔
جاننا چاہئے کہ اگر یہ ایک خاص طرح کا بیانیہ عام کرنے اور نوجوانوں کے ذہنوں کو مغلوب کرنے کی جنگ ہے تو کون کون اس جنگ میں کس کس مورچے پر مامور ہے۔
(بشکریہ :ہم سب)
فیس بک کمینٹ