یہ امر بہت خوش آئند ہے کہ وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے کابینہ کا اجلاس بہاولپور میں منعقد کیا ،امید ہے کہ وہ ڈیرہ غازی خان ،ملتان ،سرگودھا ،جھنگ ،گوجرانوالہ اور راولپنڈی میں بھی اس طرح کے اجلاس منعقد کریں گے۔بہاولپور کے کابینہ اجلاس میں کیا فیصلے ہوئے؟اس کی تفصیلات ابھی آنی ہیں لیکن دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ میں جو گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں وہ سرائیکی وسیب کیلئے پانی کا مسئلہ ہے ،وسیب میں گندم کی بوائی سیزن شروع ہے مگر پانی کی شدید قلت کے باعث شدید مشکلات پیش آرہی ہیں،وزیراعلیٰ بہاولپور آئے ہیں تو ان کو ستلج کی فریاد پر بھی توجہ دینی چاہئے کہ دریائے ستلج کو فروخت کردیا گیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے 1960ءمیں سندھ طاس معاہدہ پر دستخط کرکے ہمارے تین مشرقی دریا ستلج ، راوی اور بیاس محض امریکہ کی خوشنودی اور اس کے حکم کی تعمیل میں اپنے قومی مفادات کو یکسر بالائے طاق رکھتے ہوئے مکمل طور پر انڈیا کے حوالے کردئیے۔ تاریخ عالم میں آج تک نہ تو اس کی کوئی مثال ملتی ہے اور نہ ہی یہ امر قوموں کے درمیان مشترکہ دریاﺅں سے متعلق مروجہ عالمی قوانین سے مطابقت رکھتا تھا کہ کوئی زیریںملک ایک مشترکہ دریا میں اپنے حقوق سے کسی بالائی ملک (کے حق میں مکمل طور پر دستبردار ہوجائے (دریاﺅں کے پانی کی تقسیم کا مروجہ عالمی قانون یہ ہے کہ دو یا دو سے زیادہ ملکوں سے گزرنے والے دریاﺅں پر ان تمام ممالک کا حق ہوگاا ور کوئی بالائی ملک کسی زیریں ملک کے حق میں دخل اندازی نہ کرسکے گا )۔اس بین الاقوامی قانون کے ہوتے ہوئے جنرل ایوب خان نے ایک نہیں بلکہ تین دریا مکمل طور پر ازلی دشمن بھارت کے حوالے کردئیے۔ لیکن بین الاقوامی قانون کے بھارت ستلج،راوی اور بیاس کا سارا پانی بند نہیں کرسکتا۔یہ تین مشرقی دریا ستلج ، راوی اور بیاس قدرت کی طرف سے جنوبی پنجاب کی دھرتی کے لیے پانی کا قدرتی اور بنیادی وسیلہ تھے جن میں سالانہ اوسطاً 33ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے جس میں سے قیام پاکستان کے وقت بھارت کے حصے میں آنے والے مشرقی پنجاب کی نہروں کو 7ملین ایکڑ فٹ پانی ملتا تھا جبکہ تقریباً26ملین ایکڑ فٹ پانی ان دریاﺅں کے ذریعے پاکستان میں بہتا تھا اور بلو کی ، فیروز پور ، سلیمانکی ، اسلام اور پنجند ہیڈ ورکس سے نکلنے اور جنوبی پنجاب کو سیراب کرنے والی گیارہ بڑی نہریں یہی پانی جنوبی پنجاب کے کھیتوں کو پہنچاتی تھیں۔ ایوب خان نے سندھ طاس معاہدہ کرکے جنوبی پنجاب کو اس کے قدرتی وسیلہ سے مکمل طور پر محروم کردیا اور یوں اس وقت سے اس بدقسمت دھرتی کی زراعت کا تمام تر انحصار ڈیموں اوررابطہ نہروں کے ذریعے مغربی دریاﺅں یعنی دریائے چناب،جہلم اور سندھ پر ہوگیا۔ چنانچہ جنوبی پنجاب کا مقدمہ ملک کے دیگر صوبوں اور علاقوں سے اس وجہ سے الگ اور منفر د ہے کہ ایک آمر نے امریکہ کی غلامی میں اس دھرتی کو اس کے قدرتی وسیلہ سے ہمیشہ کے لئے مکمل طور پر محرو م کردیا۔اس لئے پوری ذمہ داری سے یہ کہاجاسکتا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ پورے ملک کے لئے عموماً جبکہ جنوبی پنجاب کے لئے خصوصاً ناقابل تلافی بربادی کا حکم رکھتا ہے۔جس کے نتیجے میں چولستان کے بعد ایک اور چولستان وجود میں آرہا ہے ،ہر طرح العطش العطش کی صدائیں ہیں۔ستلج کی فروختگی کے بعد متبادل نہریں دینے کا وعدہ کیا گیا جو پورا نہیں ہوا۔ کالا باغ ڈیم کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے اور سرائیکی وسیب کے لوگ جو سات دریاﺅں کے مالک تھے اب پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں زرعی استعمال کو تو چھوڑیئے دریاﺅں کے پانی کی قلت کی وجہ سے زیر زمین پانی بھی وسیب کے لیے زہر بنتا جا رہا ہے۔ ایک رپورت کے مطابق جنوبی پنجاب کے اضلاع کے پانی میں آرسینک بڑا مسئلہ ہے۔ملتان شہر کی تحصیل شجاع آباد کی واٹر سپلائی سکیم کی 40سال پرانی پائپ لائن ناکارہ ہوچکی ہے پچھلی حکومتوں نے یہاں کئی فلٹر پلانٹس کے افتتاح کئے مگر ان میں سے اکثر نہ چل پائے۔میونسپلٹی آفس کافلٹر پلانٹ عرصہ دراز سے بند ہے۔کیا وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سرائیکی وسیب کیلئے پانی کے اہم مسئلے اور کالا باغ ڈیم کے ساتھ سرائیکی صوبہ کے مسئلے کی طرف توجہ دیں گے؟ میری کتاب ” سرائیکی وسیب “ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ تھل کے پانچ اضلاع بھکر، خوشاب ، میانوالی ،لیہ اور مظفر گڑھ کے دو تہائی رقبے ڈویلپمنٹ چارجز کے طور پر ہتھیا کر کس طرح لوگوں کو دیئے گئے۔ اسی طرح راجن پوری کی دھندی سٹیٹ میں جائیں یا پھر ریاست بہاولپور کے چولستان کو لے لیں ، جہاں ا?ج بھی ناجائز الاٹمنٹوں اور زمینوں کی لوٹ مار اور بندر بانٹ کا ایسا طوفان ا?یا ہوا ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ محروم خطے کے تمام لوگوں کا خیال ہے کہ تمام بیراج اور ڈیم رقبے ہتھیانے کیلئے بنائے جاتے ہیں ،لوگوں کو بھی سابقہ تجربات کی روشنی میں یہی خدشات لا حق ہیں۔ آخر میں یہی عرض کروں گا کالا باغ ڈیم اس لئے نہیں بن رہا کہ یہ سرائیکی وسیب کا منصوبہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کالا باغ ڈیم تمام قوموں اور تمام صوبوں کی مرضی سے بننا چاہئے۔ کالا باغ ڈیم کے مسئلے پر وسیب کی معروضات پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ڈیم سے متعلق تمام معاملات میں وسیب کو بحیثیت اکائی شامل کیا جائے۔ ارسا میں وسیب کو نمائندگی دی جائے۔ اس سلسلے میں دریاﺅں کا محور وسیب کو یکسر نظر انداز کرنابے انصافی ہے۔ یہ آمر مشرف کا فیصلہ تھا۔ سندھ طاس معاہدے کے نتیجے میں تمام نا انصافی وسیب سے ہوئی۔ خطے کی پوری تہذیب مر رہی ہے اور جب سیلاب آتا ہے تو سب سے زیادہ تباہی بھی وسیب کی ہوتی ہے اور وسیب کا اب یہی مقدر رہ گیا ہے کہ سیلاب آئے تو ڈوب مرے اور سیلاب نہ آئے تو پیاس سے مرے۔ بھارت سے مذاکرات کے ذریعے سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کرائی جائے اور خطے کی مرتی ہوئی تہذیب کو پانی دیا جائے۔ رقبوں کے پانی کیلئے حصہ برابر مقرر کیا جائے۔ وسیب کو تہذیبی و ثقافتی اعتبار سے بلا تاخیر وفاقی اکائی کا حق دیا جائے۔
(بشکریہ:روزنامہ92نیوز)
فیس بک کمینٹ