27 دسمبر آئی اورگزر گئی۔ یہ ہماری ایک شعلہ بیاں اور شعلہ بہ جاں سیاسی رہنما کی شہادت کا دن تھا۔ ہم نے ان کے قتل پر آہ و بکا کی اور ان لوگوں کو جی بھرکر برا بھلا کہا جو ان کے قتل کے ذمے دار تھے۔
سندھ میں صوبائی سطح پر چھٹی ہوئی اور ان کی یاد میں بھرپور جلسے جلوس بھی ہوئے لیکن ہم میں سے اکثر نے یہ نہیں سوچا کہ وہ جو ایک دانشور تھیں اور پاکستان کے معاملات پرگہری نگاہ رکھتی تھیں انھوں نے ان مسائل کے بارے میں کیا کہا تھا، جوآج بھی ہمارے پیروں کی زنجیر بنے ہوئے ہیں۔ انھوں نے 23مئی 1996 کو ایبٹ آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن میں وکلاءسے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔
آج ہم ایک بین الاقوامی بستی میں رہ رہے ہیں۔ ایک ایسی بستی جہاں قومیں مفادات اور باہمی مسائل کے حوالے سے ایک دوسرے کے قریب آرہی ہیں۔ سرد جنگ کا خاتمہ ایک ایسا نیا عالمی نظام قائم کرنے کا سنہری موقع فراہم کرتا ہے جو انصاف، مساوات، جمہوریت اور آزادی پر مبنی ہو۔ آج جب کہ بنی نوع انسان کے لیے مواقع کا ایک تاریخی دروازہ کھلا ہے تو ایسے موقع پر وہ عالمگیر سیاسی اقدار ہی وہ معیار ہیں جن پر قوموں کو کار بند رہنا چاہیے اور جس کی اقوام متحدہ کے منشور میں ضمانت بھی دی گئی ہے۔
اس موقع پر مواصلات کے اس انقلاب کی بات کررہی تھیں جو ہمیں ایک دوسرے کے قریب لے آیا ہے، عالمگیر قدریں وقت کے افق پر ابھر رہی ہیں۔ مشرق و مغرب اور شمال وجنوب میں لیڈر، حکومتیں اور جماعتیں اس بات پر متفق ہورہی ہیں کہ :
(1) جمہوریت ہی بہترین نظام سیاست ہے۔
(2) انسانی حقوق کا دفاع ایک عالمگیر حق ہے۔
(3) دہشتگردی کا مقابلہ کرنا ایک عالمگیر چیلنج ہے۔
(4) منشیات کے اسمگلروں کے بین الاقوامی جال کو توڑنا اور منشیات کے مسئلے پر قابو پانا ایک مشترکہ کوشش ہے۔
(5) ا?زاد منڈی کی معیشت اور آزاد بین الاقوامی تجارت معیشتوں کو مستحکم کرسکتی ہے۔
(6) بدعنوانی ایک سماجی برائی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
(7) آبادی پر قابو پائے بغیر ترقی کی راہ پر سفر ممکن نہیں۔
(8) عورتوں اور بچوں پر سرمایہ کاری وقت کی ضرورت ہے۔
(9) مشرق اور مغرب میں انتہا پسندی عالمی ہم آہنگی کے لیے خطرہ ہے۔
تاہم نئے دورکی سب سے بنیادی قدر ہماری اس بات سے وابستگی ہے کہ لوگوں کو ان کے مستقبل کا فیصلہ خود انھیں کرنے کا حق دیا جائے۔
وہ جمہوریت کی بالادستی پر راسخ ایمان رکھتی تھیں، یہی وہ ایمان تھا جس کی خاطر وہ جان سے گزر گئیں۔ آزاد عدلیہ کی جدوجہد میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہیں۔ انھوںنے کوئٹہ میں 7دسمبر 1995 کو وکیلوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی بھی معزز معاشرے میں قانون کے پیشے سے وابستہ ارکان کا احترام کیا جاتا ہے اور ان کو اونچا مقام دیا جاتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ آپ، افراد کے حقوق اور آزادی کے امین اور طاقتورکے مقابلے میں کمزورکے محافظ ہیں۔
انھوں نے کہا تھا کہ جب میں عدلیہ کی آزادی کی بات کرتی ہوں تو اس سلسلے میں، میں یہ بھی کہوں گی کہ آزادی اور دیانت کا اعلیٰ معیار قائم رکھنے کا انحصار بڑی حد تک عدلیہ پر ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جو اس بات کو ثابت کرتی ہیں۔ امام ابوحنیفہ نے کئی خلفاءکی جانب سے چیف جسٹس بننے کی پیشکش ٹھکرا دی کیونکہ وہ محسوس کرتے تھے کہ ان کی دیانت پر حرف آئے گا۔
اسی طرح امام احمد بن حنبل نے ایک خلیفہ کو خوش کرنے کی خاطر اپنے اصولوں اور دیانت پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے سے انکارکردیا۔ پاکستان میں ہمارے پاس جسٹس ایم آر کیانی، جسٹس یعقوب علی خان اور کئی دوسرے اصحاب کی مثالیں ہیں جو ڈکٹیٹر کے ظلم اور لاقانونیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے اس کی قیمت بھی ادا کی لیکن یہ بتادیا کہ جمہوریت، انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور غیر جانبدار، ا?زاد اور دیانت دار عدلیہ قوم کو خیرات یا تحفے کے طور پر نہیں دی جاسکتی۔
عدلیہ کے حوالے سے ہم جن حالات سے گزرے اور آج گزر رہے ہیں،اس بارے میں بینظیر بھٹو نے دو ٹوک باتیں کی تھیں، وہ بجا طور پر یہ سمجھتی تھیں کہ غیر جانبدار، آزاد اور دیانت دار عدلیہ کے لیے پورے سماج کو جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور اس جدوجہد کی بھاری قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ قانون ان کا محبوب موضوع نہیں تھا لیکن وہ ایک ایسے دانشور باپ کی بیٹی تھیں جو قانون کے نکات پرگہری نظر رکھتا تھا۔انھوں نے اپنے باپ کو عدلیہ کے بعض بددیانت بڑوں کے ہاتھوں تختہ دار پرکھینچے جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ جانتی تھیں کہ ان کے باپ کو جو ناواجب سزا دی گئی، وہ قانون کی کتابوں میں ”جوڈیشل مرڈر“ کے عنوان سے درج ہوئی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ نظام عدل اور منصب عدالت پر فائز افراد کی دیانت کے بارے میں بہت کڑے معیار رکھتی تھیں۔
بینظیر ایک روشن خیال اور بیدارمعزز رہنما تھیں۔ انھوںنے پاکستان کے شہری اور دیہی علاقوں میں عورت کی بے توقیری دیکھی تھی۔ایک بیوی اور ماں کی حیثیت سے انھوں نے جیل خانوں میں ان بے آسرا عورتوں کی تذلیل دیکھی تھی جو جیل آکر اپنے رشتے داروں سے ملاقات چاہتی تھیں۔ وہ خود اشرافیہ سے تعلق رکھتی تھیں،اس کے باوجود جیل خانے کے اہل کار ان کے ساتھ جو سلوک روا رکھتے تھے، وہ اسے کیسے بھول سکتی تھیں۔ جس وقت ان کے باپ کا مقدمہ عدالتوں میں چل رہا تھا، اس وقت وہ اور ان کی ماں پاکستان کی مختلف جیلوں میں قید کاٹ رہی تھیں۔اس کی تفصیلات انھوں نے اپنی خود نوشت ”مشرق کی بیٹی“ میں بیان کی ہیں۔
انھیں دو مرتبہ انتخابات میں کامیابی ہوئی اور دو مرتبہ وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئیں لیکن خواہش کے باوجود وہ پاکستانی عورت کے لیے پارلیمنٹ سے ایسے قوانین نہیں منظورکراسکیں جس کی وہ خواہش رکھتی تھیں۔
پہلی مرتبہ وہ جب وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کی گئیں تو میں نے اسلام آباد جاکر ”شی“ میگزین کے اردو ایڈیشن کے لیے ان سے انٹرویوکیا اور عورتوں کے خلاف بنائے جانے والے کالے قوانین کو ختم نہ کرنے کے بارے میں سوال کیا۔ انھوں نے یہ کہہ کر مجھے خاموش ہونے پر مجبورکردیا تھا کہ میرے پاس پارلیمنٹ میں اکثریت کب تھی کہ میں ان سیاہ قوانین کو ختم کرسکتی۔
1995میں اسلام آباد حسینیہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوںنے کہا تھا :
آمریت کا مقدر ہمیشہ ذلت اورگمنامی ہوتا ہے اپنے اصولوں اور نظریات کے لیے قربانی دینے والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، آمریت کو وقتی طور پر یقین ہوجاتا ہے کہ ہمارے مقابلے میں کوئی نہیں جیت سکتا ہمیں کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔ لیکن تاریخ کا رویہ بڑا بے رحم ہوتا ہے۔ تاریخ کا فیصلہ ہمیشہ اٹل ہوتا ہے۔ آج دنیا میں کوئی نہیں جو یزید کا نام لیتا ہو، جو یزید کے موقف کی حمایت کرتا ہو۔ پوری دنیا حسین کو یاد کرتی ہے،کربلا کے اس شہید کی یاد میں آنسو بہاتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں آج تک کسی شہید کو اس عقیدت و جذبے سے اتنے بڑے پیمانے پر اور اتنی باقاعدگی سے یاد نہیں کیا گیا۔
انھوں نے اپنی ایک تقریر میں لوگوں کو یاد دلایا تھا کہ میں تاریخ کی طالب علم رہی ہوں اور اس کے مختلف ادوارکا مطالعہ کیا ہے۔ مختلف قوموں کی تاریخ پڑھی ہے، لیکن امام حسین جیسا مثالی کردار کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ یزید کون ہے۔ یزید غاصب کا نام ہے۔ یزید حقدارکا حق چھیننے والا ہے، یزید وہ ہے جو اقتدارکی ہوس میں معصوموں کی جانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلنے کے لیے تیار ہے۔ اس وقت بھی آج کے یزید کراچی والوں کے خون سے کھیل رہے ہیں۔
تاریخ اسلام کا آغاز جناب خدیجہ کی گواہی، متاعِ دنیا سے جناب فاطمہ کی بے نیازی اور تلوار کے سائے میں جنابِ زینب کی شعلہ بیانی سے ہوا تھا۔ جنابِ زینب کی وراثت سیکڑوں سال سے ہماری حق گو اور بے باک عورتوں میں منتقل ہوتی رہی ہے۔ بینظیر ہماری تاریخ کی، وہ متاعِ بے بہا ہیں جو عرصہ دراز تک یاد رکھی جائیں گی۔ 27دسمبر 2018 کو ان کے بیٹے بلاول نے گڑھی خدا بخش میں جو تقریرکی، وہ اس کی ماں کی وراثت تھی۔ وہی جوش، وہی ولولہ اور پھر حسن مجتبیٰ کی نظم کے ٹکڑے :
وہ لڑکی لال قلندر تھی
قریہ قریہ ماتم ہے اور بستی بستی آنسو ہیں
صحرا صحرا آنکھیں ہیں اور مقتل مقتل نعرہ ہے
وہ قوم کی بیٹی تھی
جو قتل ہوئی وہ خوشبو ہے
وہ عورت تھی یا جادو تھی
وہ مردہ ہوکر زندہ ہے
تم زندہ ہوکر مردہ ہو
وہ دکھی دیس کی کوئل تھی
وہ لڑکی لال قلندر تھی !
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ