ڈاکٹر پرویز امیر علی ہود بھائی کا جملہ تھا ”وہ جو اس بچارے نوجوان کو ننگا کر کے لاٹھیوں سے مار کے، پتھروں سے مار کے، ختم کر دیا ہے، لعنت ہو ایسی قوم پہ جو اپنے بچوں کو اس طرح سے مارتی ہے“۔ ان کے اس جملے پر وہ سب لوگ تلملائے ہیں جو اس ملک کے معصوم بچوں کو دھماکوں میں مارنے، اپنا من پسند انقلاب لانے کے لئے نوجوانوں کو قربان کرنے اور اصلاح کے نام پر فساد برپا کرنے میں یا تو پیش پیش تھے یا ان دہشت گردوں کے حامی مددگار اور سہولت کار تھے۔ ان کی اکثریت اب بھی طالبان شدت پسندی کی سپورٹر ہے اور اگر مگر چونکہ چانچہ کی مدد سے دہشتگردی کو فکری اخلاقی اور اسٹریٹجک مدد دے رہی ہے۔ اب جہاں تک بات ہے کہ وہ فزکس کے استاد ہو کر فزکس سے باہر کیوں بولتے ہیں تو یہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے جس کا مقصد اپنے خلاف تنقید نہ سننے کا حوصلہ ہے۔ آخر ایک سائنس کا استاد کیوں نہ بولے کہ ملک میں سائنس کے نام پر اصل میں کیا پڑھایا جا رہا ہے؟ کیا واقعی سائنس پڑھائی جا رہی ہے یا سائنس کی تعلیم کے نام پر غیر سائنسی تعلیم دی جا رہی ہے؟ جس آدمی نے ساری زندگی تعلیم و تدریس میں لگائی ہو آخر وہ اس ملک کے تعلیمی نظام پر بات کیوں نہ کرے جہاں تحقیق نہیں تقلید اور تلاش و جستجو کے بجائے ضد اور ہٹ دھرمی سکھائی جائے اور ریاست اپنا نظریاتی بیانیہ طلباء کے ذہنوں میں ایسے ٹھونسے کہ ہر اختلاف غداری اور گستاخی محسوس ہو؟ ایک مسلمان کیوں نہ بولے کہ ملائیت اور اسلام میں فرق ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ملا کی اجارہ داری دراصل ہیئت مقتدرہ کے لئے فصیل کا کام دے رہی ہے جس کے حصار میں وہ محفوظ ہیں؟ ہم سب اس ملک کے شہری ہیں۔ یہ ہمارے دائرۂ کار میں ہے کہ ہم سیاست پر بات کریں اور انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھائیں۔ ہود بھائی بھی یہ کام بخوبی کر رہے ہیں اور ہمیں بھی کرنا چاہیے۔ میں تو سمجھتا ہوں حالیہ برسوں سے اس ملک میں دہشت گردی کے سبب جو قیامت برپا ہے، اس کے باوجود بھی اگر کوئی دہشت گردی کے خلاف اور امن کے حق میں بات نہیں کرتا، اس کے اسباب و علاج پر غور نہیں کرتا وہ تو مقام انسانیت پر فائز ہی نہیں۔ اس ملک کا ہر شہری اس وقت تک محفوظ نہیں ہو سکتا جب تک عدم تشدد کی پالیسی پر تمام نجی و سرکاری ادارے اور تمام شہری و سرکاری اہلکار متفق نہ ہو جائیں۔ تشدد پسندوں سے بیزاری ہر سطح پر لازم ہے وگرنہ امن محال ہے اور زندگیاں یوں ہی اذیت سے دوچار رہیں گی۔ ہم سب اس سوسائٹی کی اکائی ہیں، یوں سوسائٹی کے تمام امور میں بات کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اب آپ کی مرضی کہ اسے خاطر توجہ میں لائیں یا نہ لائیں مگر آپ ہمیں اپنے خود ساختہ تصورات کی بنیاد پر بات کرنے سے نہیں روک سکتے۔ کسی بھی فرد سے حق اظہار رائے نہیں چھینا جا سکتا نہ ہود بھائی سے اور نہ ان لوگوں سے جو کل تک تو طالبان کے حق میں افسانے لکھتے تھے اور اب ہمیں حب الوطنی کے معانی سکھاتے ہیں۔ حب الوطنی اور ریاست کو بطور بت پوجنے میں فرق ہے حضور۔
(بشکریہ:ہم سب)
فیس بک کمینٹ