کسی بھی علاقے کے مقامی کھیل اس خطے کے سماجی اور ثقافتی میلان کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ کھیلوں کی نوعیت سے ہم اُس علاقے کے عمومی رجحانات اور آپس کی جُڑت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گلوبلائزیشن کی وجہ سے مقامیت اور اُس سے جُڑے سماجی، سیاسی، معاشی اور نفسیاتی بحرانوں نے انسان کو ایک ایسے المیے سے دوچار کیا جس کی وجہ سے وہ اجتماعی شعور جس کی جڑیں مقامی مٹی میں تھیں بڑی تیزی سے روبہ زوال ہوتی گئیں اور انسان اپنے ارد گرد سے لا تعلق ہو کر ایسے منظر نامے کا حصہ بنتا چلا گیا جس کا پس منظر استعمار اور سرمائے کی مرضی اور سوچ سے جُڑا تھا۔
اس پیچیدگی نے مقامی سماج کی مختلف جہتوں اور رجحانات کو اس بُری طرح سے متاثر کیا کہ بیشتر لوگ اپنی ہی مٹی اور ماحول سے کٹتے چلے گئے۔جس کی وجہ سے مقامی لوک دانش، ماحول سے آشنائی اور سماجی ڈھانچے بُری طرح متاثر ہوئے۔ عالمگیریت کی اس وبا نے لوگوں کو بہت سی مُفت کی خوشیوں سے محروم کر کے اُن کو ایک ایسے مخمصے میں ڈال دیا جہاں اپنی اپنی شناخت کا بحران واضح انداز میں ابھر کر سامنے آیا۔
اس سارے قصے میں مقامی کھیل بھی اپنی اپنی موت مر گئے اور اُس کی جگہ ملٹی نیشنلز کے سپانسرڈ کھیلوں نے لے لی۔ گُلی ڈندے کی جگہ کرکٹ نے لےلی، ڈاں کی جگہ ہاکی نے سنبھال لی اور پٹھو کی جگہ بیس بال آگیا۔ ایسے بہت سے مقامی کھیل جو مقامی خام اشیاء کو استعمال کر کے آسانی سے کھیلے جا سکتے تھے اُن میں فیکٹریوں سے بنا ہوا میٹریل استعمال ہونے لگا جس کی وجہ سے وہ غریب لوگوں کی پہنچ سے دور ہو گئے اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں طبقاتی پہلو بھی در آیا۔ معاشی طور پر بہتر طبقہ اور لوگ ان کھیلوں میں استعمال ہونے والے میٹیریل کو خرید کر اپنی بالا دستی ثابت کرنے لگےاور جو طبقہ ان کھیلوں سے جُڑے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا تھا وہ یا تو اُن سے دب کے رہنے لگا یا انہوں نے کھیلنا ہی چھوڑ دیا۔
اس رُجحان نے پھر امیر اور غریب کے سٹیٹس کو اُبھارا دیا اور آہستہ آہستہ کھیل غریبوں کی پہنچ سے نکل کر امیروں کا چونچلا بن گئے۔ گالف ، ٹینس ، چیس، ریسلنگ ، سکواش، جیپ ریلی، سائیکلنگ اور اسی طرح کے بہت سے کھیل سٹیٹس سمبل بن گئے۔ میں اکثر اپنے بزرگوں سے پوچھتا ہوں کہ ہمارے علاقے میں مقامی طور پر اب کھیلوں کے حوالے سے اتنا قحط کیوں پڑ گیا ہے تو وہ کوئی جواب دینے کی بجائے اپنے اپنے وقت کے کھیل گنوانا شروع کر دیتے ہیں اور اُن کھیلوں کے نام لیتے ہوئے اُن کی آنکھوں اور لہجے میں جو تراوت ہوتی ہے وہ بیان نہیں کی جا سکتی۔ افسوس کہ آج کے زمانے میں یہ کھیل متروک ہو گئے اور ممکن ہے کچھ عرصہ بعد ان کا تذکرہ بھی باقی نہ رہے
فیس بک کمینٹ