خاقانی ہند استاد محمد ابراہیم ذوق کا زباں زد عام شعر ہے
نام چاہتا ہے اگر فیض کے اسباب بنا
پل بنا ، چاہ بنا ، مسجد و تالاب بنا
اب ذرا ان فیض کے اسباب کی ترتیب پر غور کریں ،
سب سے پہلے پل ہے ، پل لوگوں کو، آبادیوں کو، بستیوں اور شہروں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے ، فاصلے کم کرتا ہے ، آمد و رفت کو آسان بناتا ہے ، وقت اور اخراجات بچاتا ہے ۔
پل ظاہر ہے راستوں پر ہوتے ہیں ، ان پر سفر کرنے والے مسافروں اور ان کی سواریوں کو پانی کی بھی تو ضرورت ہوتی ہے لہذا کہا گیا چاہ بنا ، کنوئیں سے پانی نکلے گا تو تھکے ماندے مسافر رکیں گے اور اپنی پیاس بجھائیں گے ، پانی دستیاب ہو گا تو کنواں بنانے والے مخیر وہاں درخت بھی لگائیں گے چھاؤ ں کے لیے، جن کے سائے میں مسافر آرام کریں گے ، جانوروں کو پانی پلانے کے لیے چھوٹے چھوٹے حوض بھی بنائیں گے ، کنوئیں کی دیکھ بھال صفائی ستھرائی کے لیے کوئی ملازم بھی رکھیں گے جو مٹکوں میں پانی بھی بھر کے رکھے گا ، وافر پانی ہو گا تو وہ کچھ سبزیاں پھل اور اناج بھی اگا لے گا ۔
تھکے ماندے مسافروں کو جب ٹھنڈا میٹھا پانی ، گھنے پیڑوں کی چھاؤ ں میسر آئے گی اور اردگرد ہریالی سبزیاں پھل دار درخت اور کھیت نظر آئیں گے تو وہ شکر گزار بھی ہونا چاہے گا لہذا کہا گیا کہ مسجد بنا ، تو مسافر وہاں جا کر اپنے خدا کا شکر ادا کر لے گا ، سر بسجود ہو لے گا۔
اور آخر میں ہے کہ تالاب بنا۔
آپ کنوئیں سے مسلسل پانی نکال رہے ہیں تو پانی کی سطح آہستہ آہستہ ہی سہی گرتی جائے گی لہذا ضرورت ہے کہ زمین کو پانی واپس بھی کیا جائے ، اگر نزدیک کہیں تالاب ہو گا جو ہر بارش کا پانی جمع کرتا رہے گا تو وہ پانی غیر محسوس طریقے سے رستا رہے گا اور کنوئیں کو ریچارج کرتا رہے گا اور اسے میٹھا بھی رکھے گا ۔ پھر تالاب کے کناروں پر پودے بھی اگ آئیں گے ، آبی پرندے بھی آ کر ڈیرہ جما لیں گے ، دوسرے پرندے بھی پانی پینے کو اتریں گے، آبی مخلوق بھی پیدا ہو جائے گی اور یوں ایک خوبصورت ایکو سسٹم بن جائے گا ۔
میں نے گزشتہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ پاکستان کے آبی وسائل تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں ، آزادی کے وقت ہر شخص کے لیے پانچ ہزار مکعب میٹر پانی دستیاب تھا جو اب ایک ہزار سے بھی کم رہ گیا ہے ۔
ہم زراعت کے لیے بھی جائز حد سے زیادہ پانی نکل رہے ہیں ، ہمارے کئی شہروں کا زیر زمین پانی بہت زیادہ نیچے چلا گیا ہے اور کئی شہروں کا تو بالکل ختم ہو گیا ہے جس کی ایک بڑی مثال کوئٹہ ہے۔
ہم ایک تو پانی زیادہ نکال رہے ہیں ، دوسرا یہ کہ ضائع کر رہے ہیں فلڈ اریگیشن اور ناپختہ کھالوں کے ذریعے ، ہم ایک گرم خطے میں رہتے ہیں تو ہماری نہروں راجباہوں اور کھالوں سے بہت زیادہ مقدار میں پانی سورج اڑا کر لے جاتا ہے ۔
افسوس یہ کہ ہمارے جن علاقوں میں زیر زمین پانی دو سے تین سو فیٹ نیچے ہے وہاں بھی ہم سستے سولر سسٹم کی وجہ سے فلڈ اریگیشن کر رہے ہیں ۔
اشد ضرورت ہے کہ اس سلسلے میں قانون سازی کی جائے اور زراعت کو ڈرپ اور سپرنکلر وغیرہ پر منتقل کیا جائے۔
موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں ہمارے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں اور ان کا حجم کم ہوتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں مستقبل قریب میں ہمارے دریاؤں میں پانی کی آمد کم ہو جائے گی ، ایک اور مصیبت جو ہم نے خود مول لی ہے وہ قراقرم اور ہمالیہ کے درختوں کی بے دریغ کٹائی اور جنگلات کا صفایا ہے جس کے نتیجے میں برفباری کم ہوتی جا رہی ہے ، یہ برفیں گلیشیئرز کے حجم کو برقرار رکھتی تھیں ۔
یہی کچھ ہم نے اپنے کم بلند پہاڑی سلسلوں اور سطح مرتفع کے ساتھ کیا ہے جہاں درختوں اور جھاڑیوں کے خاتمے کی وجہ سے فلیش فلڈز زیادہ ہو گئے ہیں اور جو پانی ہمیں زندگی دیتا تھا اب زندگی کا دشمن بن گیا ہے ۔
اب ہماری لیے امید کی کرن بارش ہی بچ جاتی ہے جس کے پانی کو محفوظ کرنا ہم نے شروع ہی نہیں کیا ، خوشحال اور تعلیم یافتہ دنیا میں تو لوگ اپنی چھتوں پر پڑنے والا بارش کا پانی بھی ضائع نہیں ہونے دیتے اور زیر زمین حوض یا کنوئیں میں محفوظ کر لیتے ہیں ۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں کئی ملین چاہ اور تالاب بنائے گئے ہیں جو بارش کا پانی زمین کو دے دیتے ہیں تاکہ وہ اپنا ضائع شدہ پانی دوبارہ حاصل کر لے اور انسان کو پانی دیتی رہے ۔ ایتھوپیا جیسا ملک جس کی وجہ شہرت خشک سالی اور قحط تھی پانی محفوظ کرنے کے سسٹم تعمیر کر کے اجناس اور سبزیاں برآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے ۔
تو صاحبو ہمیں اشد ضرورت ہے چاہ اور تالاب بنانے کی ، اس کے لیے کمیونٹی کو اور غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کو مل کر کام کرنا پڑے گا ۔ ریاست سے کوئی امید نہ رکھیں ، وہ ایڈہاک پر چلتی ہے ، اس کے پاس مسائل کے صرف دو لگے بندھے حل ہیں قرضہ لو اور وسائل بیچو انسانی وسائل سمیت۔
فیس بک کمینٹ