اڈیالہ جیل میں عمران خان کے ساتھ ملاقاتوں کے حوالے سے تنازعہ جاری ہے۔ آج جیل حکام نے پارٹی سیکرٹری سلمان اکرم راجہ اور ان کے ہمراہ شعیب شاہین اور نیازاللہ نیازی کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت دینے سے انکار کردیا جبکہ چند دیگر لوگوں کو جن میں اعظم خان سواتی، نادیہ خٹک، تابش فاروق، مبشر اعوان اور انصارکیانی شامل تھے ، ملاقات کا موقع دیا گیا۔ سلمان اکرم راجہ نے اس پالیسی کو عدالتی حکم کے خلاف قرار دیا۔
سلمان اکرم راجہ دیگر ساتھیوں کے ہمراہ اڈیالہ میں اپنی پارٹی کے بانی سے ملاقات کے لیے پہنچے تھے۔ لیکن انہیں بتایا گیا کہ وہ انہیں نہیں مل سکتے۔ اس موقع پر سلمان اکرم راجہ کی جیل حکام سے بحث بھی ہوئی اور انہوں نے واضح کیا کہ یہ طریقہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے دئے گئے حکم کے خلاف ہے۔ ہائی کورٹ نے 24 مارچ کے حکم میں کہا تھا کہ عمران خان کے ساتھ ان کے وکلا اور سیاسی ساتھیوں کی ملاقاتیں ہفتے میں دو بار کرائی جائیں۔ البتہ سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے باتیں کرنے کا طریقہ ترک کردیاجائے گا۔ اس یقین دہانی کو عدالتی حکم کا حصہ بنا لیا گیا تھا۔ اس وقت تک اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ ہفتے میں صرف ایک ملاقات کی اجازت دے رہے تھے۔ البتہ ہائی کورٹ کو بتایا گیا تھا کہ اگرچہ کسی قیدی کو دو ملاقاتوں کا حق حاصل ہے لیکن سکیورٹی وجوہات کی بنا پر عمران خان سے دونوں ملاقاتیں ایک ہی دن کرا دی جاتی ہیں۔ البتہ عدالت نے یہ ملاقاتیں دو دنوں یعنی منگل و جمعرات کو کرانے کا حکم دے کر تحریک انصاف اور عمران خان کے وکلا کی بات مان لی تھی۔ اسی رعایت پر سلمان اکرم راجہ نے ملاقات کے بعد جیل کے باہر میڈیا سے بات نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
یوں لگتا تھا کہ اس واضح عدالتی حکم کے بعد معاملہ طے ہوگیا ہے اور جیل حکام سلمان اکرم راجہ کی فراہم کی ہوئی فہرست کے مطابق ملاقات کا اہتمام کیاکریں گے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ ملاقات کرانے یا نہ کرانے کی بجائے مسلسل عمران خان کی ذہنی اذیت میں اضافہ کرنا ہے۔ جیل حکام اپنے ہتھکنڈوں سے حکومت کے مقاصد پورا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ حالانکہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو سیاسی ضرورتوں کی بجائے انتظامی معاملات پر نگاہ رکھتے ہوئے ہر قیدی کے ساتھ مساوی ہمدردی کا سلوک روا رکھنا چاہئے۔ اس دوران میں یہ خبریں بھی سامنے آتی رہتی ہیں کہ عمران خان کو اڈیالہ ہی میں قید ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی سے بھی ملاقات میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ عید الفطر کے موقع پر میڈیا میں یہ خبر بھی دیکھی گئی ہے کہ تیسری بار عمران خان کو جیل میں نماز عید ادا کرنے سے روکا گیا۔
جیل حکام اپنے فیصلوں کو سکیورٹی وجوہات کی آڑ میں جائز قرار دیتے ہیں۔ آج سلمان اکرم راجہ اور دیگر وکلا کو ملاقات سے روکنے کے لیے بھی یہی عذر تراشا گیا ہے کہ سکیوٹی وجوہات کی بنا پر ان لوگوں کو ملنے نہیں دیا گیا۔ ایسے میں دو سوالات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ اگر کوئی حکومت یا انتظامیہ جیل میں بھی قیدیوں اور ان سے ملاقات کرنے والوں کی حفاظت و سلامتی کا بند وبست نہیں کرسکتی تو پھر کون سے مقام پر شہری خود کو محفوظ سمجھ سکتے ہیں۔ اسی حوالے سے دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ ایک ہی فہرست میں شامل چند لوگوں کو ملاقات کا موقع دیا جاتا ہے لیکن چند دوسرے لوگوں کو ملاقات سے روک دیا جاتا ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ جس نام نہاد ’سکیورٹی‘ کا حوالہ دیا گیا ہے ، اسے سلمان اکرم راجہ اور دیگر دو وکلا کی وجہ سے اندیشہ لاحق تھا؟ یہ انتہائی بوگس اور ناقابل قبول بہانہ ہے۔ ایسی عذر تراشیوں سے جیل حکام کی غیر جانبداری اور حکومت وقت کی بدحواسی کا اظہار تو ہوتا ہے لیکن جیل میں عمران خان کی حفاظت کے علاوہ سہولتوں کے حوالے سے کوئی حتمی پہلو سامنے نہیں آتا۔
یہ تسلیم کرنامشکل ہے کہ پنجاب یا مرکزی حکومت کی مرضی و منشا کے بغیر جیل حکام عمران خان کو فراہم کی جانے والی سہولتوں اور ان سے ملاقاتوں کے معاملہ کو ایسا سنگین بنا سکتے ہیں۔ عمران خان ایک قومی لیڈر ہیں۔ ان کی پارٹی کو مرکز کے علاوہ ملک بھر کی تمام اسمبلیوں میں قابل قدر نمائیندگی حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ملکی سیاست میں عمران خان کی ذاتی مقبولیت ایک اہم فیکٹر کے طور پر موجود ہے۔ انہیں عام طور سے ملک کا مقبول ترین لیڈر سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے اگر یہ قیاس کرنا درست ہوسکتا ہے کہ حکومت ان کی مقبولیت کے خوف کی وجہ سے انہیں ہراساں کرنے کے لیے کسی نہ کسی عذر پر ملاقاتوں یا سہولتوں میں رکاوٹیں ڈال کر اپنی بد حواسی کا اظہار کرتی ہے۔ البتہ حکومتی اہلکاروں پر یہ واضح ہونا چاہئے کہ ایسے ہتھکنڈوں سے عمران خان کی مقبولیت تو کم نہیں ہوگی لیکن حکومت دیگراہم کام کرنے کی بجائے ایسے گھٹیا ہتھکنڈوں کی نگرانی میں اپنی صلاحیتیں صرف کرتی رہے گی۔ اس سے سیاسی ماحول میں پائی جانے والی بدگمانی اور اندیشوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
کسی بھی قیدی کو قواعد و ضوابط کے مطابق ملاقاتوں کا موقع ملنا چاہئے۔ لیکن عمران خان ایک عام قیدی بھی نہیں ہیں۔ وہ کرکٹ کے حوالے سے قوم کے ہیرو ہیں اور ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ ان کی پارٹی اب بھی ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے جبکہ خیبر پختون خوا میں اس پارٹی کی حکومت بھی ہے۔ ان کی اس پوزیشن کی وجہ سے وہ بلاشبہ غیر معمولی رعایت و سہولتوں کے حق دار ہیں۔ خاص طور سے جب ان کی اہلیہ کو بھی اسی جیل میں بند کیا گیا ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ان دونوں کو مسلسل رابطہ میں رہنے ، ملاقات کرنے اور کچھ وقت ساتھ گزارنے کا موقع دیا جائے۔ جب یہ سہولت فراہم کرنے سے گریز کیا جاتا ہے تو اس کا صرف ایک ہی مقصد ہوسکتا ہے کہ عمران خان کو ذہنی اذیت پہنچا کر کمزور کیا جائے۔ تاہم لگ بھگ تین سال سے قید اور سینکڑوں مقدمات کا سامنا کرنے کے باوجود عمران خان نے کسی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا ہے ۔ وہ اگرچہ 72 سال کے ہوچکے ہیں لیکن طویل حراست کے باوجود انہوں نے طبی بنیاد پر حکومت یا عدالت سے کوئی سہولت لینے کی کوشش نہیں کی۔ اس سے ان کے عزم و استقلال کا پتہ چلتا ہے۔
ان حالات میں یہ حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ ایک سیاسی لیڈر کے نام نہاد جرائم اور سیاسی نقطہ نظر و اختلاف میں حد فاصل قائم رکھیں۔ عمران خان کی سیاست سے اختلاف کیا جائے اور سیاسی طور سے اس کا مقابلہ کیا جائے۔ لیکن اس وقت حکومتی اختیارات کی بنیاد پر ایک سیاسی لیڈر کو ہراساں کرنا ناجائز طریقہ ہے۔ عمران خان اقتدار سے محروم ہونے کے بعد حکومت وقت کے ہاتھوں پریشانی کا شکار ہونے والے پہلے سیاسی لیڈر نہیں ہیں۔خود ان کے دور حکومت میں مسلم لیگ (ن) و پیپلز پارٹی کے متعدد لیڈروں کو مختلف الزامات میں قید رکھا گیا تھا ۔ بدقسمتی سے وزیر اعظم کے طور پر عمران خان نے اپنے تند و تیز بیانات میں زیر حراست سیاسی لیڈروں کی کردار کشی میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی اور جیل میں ان سے ایسی سہولتیں واپس لینے کا اعلان کرتے رہے تھے جو پاکستان میں سیاسی لیڈروں کو ہمیشہ حاصل رہی تھیں۔ وہ نواز شریف، شہباز شریف ، آصف زرداری کو سیاسی رقیب سمجھنے کی بجائے ’چور لٹیرے ‘ قرار دے کر ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک روا رکھنے کے حامی تھے۔ اس حوالے سے کبھی انہوں نے چین کی مثال دی اور کبھی سعودی عرب میں حکومت کی طرف سے چند ارب پتی افراد کو پکڑ کر ان سے وسائل وصول کرنے کا حوالہ دیا۔
وقت کا پہیہ گھومنے پر جو لیڈر بدعنوانی اور خردبرد کے الزمات میں قید تھے یا انہیں سزائیں دی جارہی تھیں، انہیں عدالتوں نے بے گناہ قرار دے کر رہا کردیا۔ اور جو شخص ملک میں کرپشن ختم کرنے کے لیے سیاسی لیڈروں کو عبرت کا نمونہ بنانا چاہتا تھا ، وہ خود ایسے ہی الزا مات و مقدمات میں اب جیل میں بند ہے اور اسے مختلف نوعیت کی سزائیں دی گئی ہیں۔ سب سیاسی لیڈروں کو اس سے سبق سیکھنا چاہئے۔ یہ بحث مطلوب نہیں ہے کہ عمران خان کس حد تک ان گناہوں میں شامل رہے ہیں جن کے الزامات ان پر عائد کیے جارہے ہیں لیکن اس حقیقت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا کہ وہ سیاسی لیڈر ہیں اور ملک کی اکثریت انہیں سیاسی قیدی ہی سمجھتی ہے۔ موجودہ حکومتی عہدیدار یہ کہہ کر اپنے ناجائز ہتھکنڈوں کو جائز قرار نہیں دے سکتے کہ عمران خان نے ان کے ساتھ برا سلوک روا رکھا تھا لہذا موقع ملنے پر اب ان کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا جائے۔ اس طریقے سے تو اقتدار کی جنگ میں انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوسکے گا۔
حکومت کی یہ بات مانی جاسکتی ہے کہ عمران خان کو عدالتوں نے سزائیں دی ہیں اور انہیں وہیں سے ریلیف مل سکتا ہے۔ لیکن اڈیالہ جیل کا انتظام و انصرام پنجاب حکومت کے پاس ہے اور عمران خان کے ساتھ روا رکھے جانے والے اچھے یا برے سلوک کی ذمہ داری براہ راست مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر عائد ہوگی۔ سیاست میں طویل عرصہ گزارنے کے بعد اس پارٹی کو اتنا شعور تو ہونا چاہئے کہ سیاسی لیڈر کو جیل میں ہراساں کرکے کوئی بڑا مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ بہتر ہوگا کہ عمران خان کے ساتھ متوازن، قانون کے مطابق اور انسانی حقوق کی روشنی میں فراخدلانہ رویہ اختیار کیا جائے۔ حکومت کو اسے یوں سمجھنا چاہئے کہ عمران خان قیدی کی حیثیت سے اس وقت اس کے ’مہمان ‘ ہیں۔ موجودہ لیڈروں کا فرض ہے کہ وہ انہیں جیل میں تمام ایسی سہولتیں فراہم کریں جن کی خواہش وہ اپنی قید کے دوران کرتے رہے تھے۔ کیوں کہ کون جانے کہ آنے والا کل کیا پیغام لے کر آئے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ

