میرے نزدیک ضیاء الحق کسی شخصیت کا نہیں بلکہ ایک رویے کا نام ہے، ایک ایسا رویہ کہ جو اپنے ماحول میں رہنے والوں کے لئے دنیا جہنم بنا دے، ایک ایسا رویہ کہ جس میں کسی بھی قسم کی آزاد سوچ کی، برداشت اور رواداری کی گنجائش نہ ہو، ایک ایسا رویہ جو لوگوں کو تقسیم در تقسیم کرتا ہو، ایک ایسا رویہ کہ جس کی وجہ سے کسی معاشرے کے انسان خوش ہونا، خوشی منانا اور خوشی تقسیم کرنے کو گناہ سمجھنے لگیں، ایک ایسا رویہ کہ جو صرف حُزن و ملال، وحشت و بربریت، افُسردگی، تضحیک، تکفیر، نفرین اور پامالی ذات کا سبب ہو، ایک ایسا رویہ کہ جو صرف چند انسانوں کو ہی نہیں بلکہ معاشروں کو اسُ ذلت آمیز جگہ لاکھڑا کرے کہ جہاں سے واپسی کا خیال تک ان کے ذہنوں سے محو ہو جائے، ایسا رویہ کہ جو جسموں کو نہیں روحوں اور ذہنوں کو بد عنوان اور بے اصول کر دے، ایک ایسا رویہ جو ایک ایسے معاشرے کو جنم دے کہ جس میں پیدا ہونے والا نوزائیدہ بچہ بھی بے ایمان نکلے، ایسا رویہ کہ جس کی کوکھ سے ایک ایسا معاشرہ پیدا ہو کہ جس کا جین کرپٹ ہو گیا ہو….
19 دسمبر 1984 کو پاکستان میں ضیاء الحق کا صدارتی ریفرنڈم ہوا، اسُ ریفرنڈم میں صرف ایک سوال پوچھا گیا تھا کہ” کیا آپ صدر ضیاء الحق کے اسُ عمل کی تائید کرتے ہیں کہ جو انہوں نے پاکستانی قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے کیا ہے اگر عوام کی اکثریت نے ہاں میں جواب دیا تو اس کا مطلب ہوگا کہ عوام کی اکثریت نے موجودہ حکومت (یعنی ضیاء الحق کی حکومت) پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور عوام صدر ضیاء الحق کو اگلے پانچ سال کے لیے پاکستان کا صدر دیکھنا چاہتے ہیں، صدر نے ایک صدارتی آرڈیننس جاری کیا ہے جسے "ریفرنڈم آڈر 1984″ کہا جائے گا اس کا اطلاق فوری طور پر پورے پاکستان پر ہو گا اور کسی عدالت یا ٹربیونل کو اس کے خلاف کسی بھی قسم کے سماعت تک کی اجازت نہ ہوگی ”
میں جب بھی یہ نیوز بلیٹن سنتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ کوئی سزا سنائی جا رہی ہے، ایسے لگتا ہے کہ مجھے یہ بتایا جا رہا ہے کہ اب میں سانس بھی اسُ آدمی کی مرضی سے لوں گا کہ جو اس کُرہِ ارض کا بدترین شخص ہے، آپ غور کیجیے کہ کس طرح سے اسلام کا استعمال کیا گیا 1984 میں پاکستان میں رہنے والا ایک عام پاکستانی یہ سوچ بھی کیسے سکتا تھا کہ وہ اسلام کے خلاف ووٹ ڈالے؟؟ آج بھی ایک عام پاکستانی کے سامنے آپ یہ سوال رکھیں کہ آپ کو اسلام پسند ہے ہاں اور نہیں کے آپشنز ہوں تو کیا ایک فیصد لوگ بھی اس معاشرے میں نہیں پر مہر لگا سکتے ہیں؟؟ کیا کہنے اس منطق اور کیا ہی کہنے ان کے کہ جو اس کو مانتے رہے کہ اگر آپ کو اسلام ایک ضابطہ حیات کے طور پر پسند ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے صدر ضیاء الحق ہوں….
آج بھٹو صاحب کی برسی ہے وہی بھٹو کہ جس کو چند فوجی رات کے اندھیرے میں اندرون سندھ کے ایک ویرانے میں یہ سوچ کر دفنا آئے تھے کہ ہم نے بھٹو مار دیا جب تک ضیاء الحق زندہ رہا پابندیوں کے باوجود خلق خدا بھٹو کی قبر پر پہنچتی تھی کہ وہاں مزار تو بہت بعد میں تعمیر ہوا ، قدرت کی اپنی انتظامیہ ہوتی ہے آج اسُی کامریڈ بھٹو کہ جس کے بارے میں ہم نے بچپن میں سنا تھا کہ وہ ایک ہندو رقاصہ کی اولاد تھا کہ جو بھٹو کے باپ سر شاہنواز کو جواہر لال نہرو کے باپ موتی لال سے تحفے میں ملی تھی، جس کی موت کے بعد اس کی برہنہ لاش کی تصاویر اس لیے اتاری گئیں تھیں کہ معلوم کیا جاسکے کہ اس کا ختنہ بھی ہوا تھا کہ نہیں، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ پانچ ہزار کا ایک سگار پیتا تھا، شرابی تھا اسی بھٹو کا آج مزار موجود ہے جہاں لوگ نہ صرف اس کی بلکہ اس کی حد سے زیادہ لبرل بیٹی کی قبروں پر منت مانتے ہیں چڑھاؤے چڑھاتے ہیں اور وہ کہ جس نے ملک کے قوانین کو اسلامی طرز پر استوار کیا جس کی قبر دارالحکومت کے دل میں بنائی گئی جس کی اگر لاش میسر نہ ہوسکی تو اس کے جبڑے کو ہی انتہائی عزت و عقیدت و احترام اور فوجی اعزاز کے ساتھ اسلام آباد کے بلیو ایریا میں دن دیہاڑے دفنایا گیا اور جم غفیر نے اس کے جبڑے کے جنازے میں شرکت کی یہاں تک کہ فیصل مسجد کی چھت پر اور مارگلہ کی پہاڑیوں تک پر لوگ تھے لیکن ایک مدت ہوئی کہ اس کی قبر پر اس کا اپنا بیٹا اعجاز الحق بھی کھڑا نظر نہیں آیا، 1996 تک میاں نواز شریف اعجاز الحق کا ہاتھ پکڑ کر ضیاء الحق کی برسی سے خطاب کرتے ہوئے کہتے پائے گئے کہ میں ضیاء الحق شہید کا مشن آگے بڑھاؤں گا بھٹو اور اس کی بیٹی کی کیا اوقات کہ وہ ضیاء الحق شہید کا مقابلہ کرے یہ تو انگریزوں کے کتے نہلانے والے لوگ ہیں انگریزوں کے کتے…… آج وہی میاں نواز شریف ہیں جو بھٹو اور بینظیر کو شہید اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کو اس ملک میں ہونے والا سب سے بڑا ظلم مانتے ہیں اور ہم جمہوریت پسند اسی وجہ سے جمہوریت کو بہترین انتقام کہتے ہیں…..
اگر آج میں پاکستان کے حالات دیکھوں اور یہاں پہ ہونے والے واقعات پر نظر ڈالوں اور اسُ سمت دیکھنے کی کوشش کرؤں کہ جس سمت میں یہ ملک جا رہا ہے تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جس لمحے وہ جہاز ہوا میں پھٹا کہ جو سیدھا جنت جا رہا تھا تو کسی سامری جادو گر نے ضیاء کے جسم کی مٹی چُرائی اور اس کو اس ملک کی فضا اور آئندہ نسلیں پیدا کرنے والی ماؤں کے شکموں میں اتار دیا کہ اب جو بھی یہاں پیدا ہوگا وہ ضیاء الحق ہوگا کیونکہ 1988 سے لیکر آج تک جو بھی اس ملک کے کسی بھی اہم عہدے پر بیٹھا اس نے وہی کچھ کیا جو ضیاء الحق کرتا تھا، اس ملک میں میاں نواز شریف اور الطاف حسین کو ضیاء الحق کی باقیات کہا جاتا ہے تو مجھے ہنسی آتی ہے کہ یہ تو بہت معمولی ذرات ہیں جو ضیا الحق سے اس قوم کو منتقل ہوئے آئیے آپ کو دکھاتے ہیں کہ کہاں کہاں ہے ضیا۔۔ اس ملک کے سیاستدانوں کے ضمیر میں اس وقت ضیا ہی ہوتا ہے کہ جب وہ ووٹ مانگنے عوام کے پاس جاتے ہیں، جب وہ مولویوں کو خرید کر اپنے حق میں تقریریں کراتے ہیں، جب وہ ایک بریانی کے پلیٹ، پکی گلیوں، گلی کی لائٹوں، بچے کی نوکری اور پنشن کی بحالی کے جھوٹے وعدوں کے بدلے ووٹ چراتے ہیں، مولوی کے حلق سے جب جب رندھی ہوئی جعلی عربی لہجوں کی آوازیں آتی ہیں تو وہاں ضیا بول رہا ہوتا ہے، جب کوئی پولیس افسر کسی شخص کو اسکی بیٹی، بیوی، بہن کا نام لے کر ڈراتا ہے تو ضیا اسکے کندھے تھپتھپا رہا ہوتا ہے، جب کوئی کسی سے اس کے مذہب اور مسلک کی بنیاد پر نفرت کرتا ہے تو ضیا اطمینان کی سانس لیتا ہے، جب کوئی نوجوان اپنے جسم کے ساتھ بم باندھ کر پھٹنے کو تیار ہو جاتا ہے تو ضیا خوشی سے نڈھال ہو جاتا ہے، جب کوئی قبضہ گروپ کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کرتا ہے تو ضیا اپنی لیگسی پر فخر کرتا ہے، جب کسی مولوی کی نفرت انگیز تقریر سامعین کے لہو گرم کرتی ہے تو ضیا کے دل کو ٹھنڈک پہنچتی ہے، جب کوئی وزیراعظم ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر خصوصاً اسلام کے نام پر جھوٹ بولتا ہے تو ضیا دھنے ہو جاتا ہے، مجھے ہر اس شخص میں کہ جس کا ضمیر مر چکا ہو، جو اپنے ناجائز قبضے کو اللہ کی دین مانتا ہو، جو دنیا کی دہشت گرد تنظیموں اور ممالک کی خوشنودی کو اللہ اور اسکے نبیوں کی خوشنودی بتاتا ہو، جس نے اپنی عیاشی، بدفطرتی اور بے غیرتی کو قوم کا وسیع تر مفاد بنا دیا ہو، جو مظلوموں کی آہ و فریاد کو بلیک میلنگ گردانتا ہو، جو منحوس الشکل عربی شہزادوں کا غلام ہو، وہ تاجر کہ جس نے کبھی بجلی کا بل اور ٹیکس نہ دیا ہو لیکن ہر جمعہ نماز مکے یا مدینے میں ادا کرتا ہو، وہ جج کہ جس کے لیے قانون کی کتاب سے زیادہ فوجی کی کال اہم ہو، وہ مولوی جو ایک مکروہ سیاستدان اور جنرل کے سامنے بیٹھ کر انکے قصیدے ٹی وی سکرین پر پڑھتا ہو، وہ بھائی کہ جو بہن کی کمائی کھا کر اسی بہن پر بد چلن ہونے کا الزام لگاتا ہو، وہ باپ کہ جو چند پیسوں کے لیے اپنی کم سن بیٹی کسی بڈھے شرابی کو سونپ چکا ہو، وہ گھر والے کہ جنہوں نے جائیداد ہڑپنے کے لیے بچی کی شادی قرآن سے کرائی تھی، یا اسکو کارو کاری کر کے مار دیا تھا، وہ شوہر کہ جس نے اپنی بیوی کو معصوم بیٹیوں کے سامنے تیزاب سے جلا کر مارا تھا، وہ سسرال والے کہ جن کی بہو سیلینڈر پھٹنے سے مری تھی، وہ چار سالہ بچی کہ جس کے ساتھ سات دن تک گینگ ریپ ہوا اور اسکی لاش کچرے سے ملی تھی اس سب میں مجھے صرف ضیا الحق نظر آتا ہے…..
میں بھٹو اور پیپلز پارٹی کو کوئی مسیحا نہیں مانتا میں بھٹو کو چینج ایجنٹ بھی نہیں مانتا لیکن میں بھٹو کا شکر گذار ہوں کہ اس نے مر کر معاہدہ نہ کر کے مجھے یہ بتا دیا کہ باطل کی پہچان کیا ہے اگر بھٹو معاہدہ کر کے کہیں چلے جاتے تو میں بھی ضیاء الحقی کا شکار ہو چکا ہوتا….
فیس بک کمینٹ