وقت پر علاج نہ ہو تو زخم ناسور بن جاتے ہیں۔انگریزی میں محاورہ ہے کہ Nip the evil in the bud۔ ہمارے معاشرتی نظام میں اکثر و بیشتر خرابیاں ایسی ہیں کہ اگر انہیں ابتداءمیں روک لیا جاتا تو وہ معاشرتی لعنت کا روپ کبھی بھی اختیار نہیں کرتیں۔دہشت گردی بھی ایسے ہی معاشرتی ناسوروں میں سے ہے کہ جسے بالکل ابتداءمیں نہ روکا جائے تو لاعلاج ہوجاتا ہے۔ہمارے سامنے سوات کی مثال ہے۔ سوات میں رہنے والے پہلے بھی نماز روزے کے پابند اور خوف خدا رکھنے والے آسان سے لوگ ہوا کرتے تھے، وہاں آج بھی اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہے۔ لیکن آپ کو یاد ہوگا کہ محض چند برس پہلے سوات میں ہر طرف موت کی حکمرانی تھی، سوات جو دنیا بھر میں اپنی فطری خوبصورتی اور دلکش مناظرکے سبب سیاحوں کی جنت کے طور پر جانا جاتا تھا، خوف کی وادی پرخار میں تبدیل ہوگیا۔ سیاحوں کی آمدو رفت ختم ہونے سے مقامی لوگوں کے پاس روزگار کے امکانات معدوم ہوگئے۔دہشت گردوں کے لیے بے روزگار اور ضرورتوں کے مارے نوجوانوں کو ورغلانا اور بھٹکانا آسان ہوگیا۔معاملات اس نہج پر پہنچ گئے کہ حکومتی رٹ بالکل ختم ہوگئی۔عملی طور پر سوات ایک ایسا علاقہ بن گیا جو جغرافیائی طور پر تو پاکستان کا حصہ تھا لیکن وہاں حکومت پاکستان کی کوئی رٹ نہیں تھی۔مجبوراً پاکستان آرمی کو مداخلت کرنا پڑی۔ دہشت گرد بہرحال دنیا کے کسی بھی حصے میں ایک منظم فوج سے مقابلہ نہیں کرسکتے، سوات میں بھی ایسا ہی ہوا۔آج صورت حال یہ ہے کہ جس سوات میں پاکستان کا جھنڈا ڈھونڈے سے نہیں ملتا تھا، اسی سوات میں آرمی پبلک سکول اور کالج قائم ہے جس میں 3600سے زائد طلباءکے لیے حصول علم کی گنجائش ہے۔ بلکہ بقول آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، یہ سکول و کالج پاکستان آرمی کے زیر اہتمام چلنے والے چند بہترین اداروں میں سے ایک ہے۔ وہ تمام مدرسے، سکول اور دیگر تعلیمی ادارے جنہیں دہشت گردوں نے جان بوجھ کر راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا تھا، آج پہلے سے بھی کہیں بہتر حالت میں رواں دواں ہیں۔نئی سڑکیں بن رہی ہیں ، موٹروے سے سوات کو جوڑا جارہا ہے، پل بن رہے ہیں ، ہسپتال تعمیر ہورہے ہیں، سوات ایک بار پھر سیاحوں کی جنت میں تبدیل ہورہا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ بنی بنائی دنیا کو دوبارہ سے بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی، اگر ابتداءہی میں مقامی حکومت، مقامی لوگوں کی مدد سے دہشت گردی کے تدارک کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کردیتی تو یہ سب کچھ کرنے کی ضرورت کبھی نہ پڑتی۔بلکہ بعض تجزیہ کاروں کا تو یہاں تک خیال ہے کہ سوات میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے میں بھی تاخیر سے کام لیا گیا۔ فوج حکومت کا ایک ذیلی ادارہ ہے، اسے کوئی بھی کام کرنے کے لیے حکومت سے اجازت لینا پڑتی ہے۔اگرچہ جلدبازی بعض صورتوں میں نقصان کا باعث بھی ہوسکتی ہے لیکن کچھ معاملات میں تاخیر بھی نقصان میں اضافے کا سبب ہوجاتی ہے۔ حکومت پاکستان کے لیے گذشتہ کئی برسوں میں دہشت گردی سے بڑھ کر کوئی بھی چیلنج نہیں رہا، بے تحاشہ بین الاقوامی دباﺅ،عالمی اداروں کی ’گو سلوGo-Slow‘ حکمت عملی ، پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف ہر کاوش پر عدم اعتماد اور سب سے بڑھ کر دہشت گردی کے نتیجے میں بری طرح متاثر ہونے والی معیشت کے باوجود، حکومت پاکستان نے عسکری اداروں کی معاونت سے جس طرح دہشت گردی کے عفریت پر کامیابی سے قابو پایا ہے، دنیا میں اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔پاکستان نے ساری دنیا پر یہ بات واضح کردی کہ نیت صاف ہو اور ارادہ غیر متزلزل تو دنیا کی کوئی قوت منزل کے حصول میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
گذشتہ کئی برسوں تک پاکستان میں جاری رہنے والی دہشت گردی نے ایک طرف پاکستان کو بہت سا اقتصادی نقصان پہنچایا تو دوسری طرف پاکستان کی credibilityکو بھی شدید زک پہنچائی۔پاکستان کو دہشت گردی کی وارداتوں میں کچھ اس طرح الجھایا گیا کہ دنیا ان وارداتوں کے ذمے داروں کا تعین کرتے ہوئے خود پاکستان کی طرف مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگی۔الزام تراشیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوگیا کہ جس کا دور دور تک کوئی اختتام ہی دکھائی نہیں دیتا تھا۔شکوک و شبہات کی یہ فضا ابھی تک قائم ہے۔بمباری افغانستان میں ہوتی ہے، ڈو مور کا مطالبہ پاکستان سے کیا جاتا ہے۔ کبھی نام نہاد امداد بند کرنے کی دھمکیاں تو کبھی سفری پابندیوں کا ڈراوا۔رہی سہی کثر چند میڈیا ہاﺅسز نے پوری کر دی کہ جو دعویٰ تو پاکستانی ہونے کا کرتے ہیں لیکن ان کی ڈوریاں کہیں اور سے کھینچی جاتی ہیں۔ان میڈیا ہاﺅسز کا کام یہ رہا کہ جس خبر کو حکومت پاکستان نے قو می مفاد کے برعکس جانا ان ہاﺅسز نے اسی خبر کو بریکنگ نیوز بناکر دنیا بھر کی پاکستان مخالف مہم کو مضبوط کیا۔برطانیہ میں کرائے کی ٹیکسیوں پر اگر چند مفاد پرستوں نے پاکستان مخالف بینر لہرادیے تو اس عمل کو بھرپور انداز میں ہائی لائٹ کیا لیکن مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف لندن شہر کی سڑکوں پر احتجاج ہوا تو اس کی معمولی سی بھی خبر نہیں دی۔ محبت کرنے والوں کی سرزمین پاکستان کا چہرہ انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کے طعنوں سے سیاہ کرنے میں بھی ایسے ہی پاکستان دشمن میڈیا ہاﺅسز کا نہایت متحرک کردار دیکھنے میں آیا۔ایسا ہی قابل اعتراض رویہ ان میڈیا ہاﺅسز کی طرف سے گذشتہ دنوں تب بھی دیکھنے میں آیا جب ہمارے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نجی دورے پر امریکا گئے اور ائرپورٹ پر انہیں عام مسافروں کی طرح تلاشی کے مراحل سے گذرنا پڑا، ایسا کیا جانا وہاں کے نظام کا حصہ ہے۔ امریکا میں ہماری نظر سے معاملات کو نہیں دیکھا جاتا۔ جناب وزیر اعظم چونکہ نجی دورے پر وہاں گئے تھے اس لیے ان کے ساتھ معمول کے مسافروں کا سا سلوک کیا گیا تھا، یقینا شکایت تب ہوتی کہ جناب وزیر اعظم سرکاری دورے پر گئے ہوتے اور انہیں عام مسافر کی طرح ان مراحل سے گذارا جاتا۔بلکہ میں تو یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں اپنے ملک میں بھی اسی طرح کا نظام قائم کرنا چاہیے کہ جس میں کسی کے ساتھ کسی قسم کا کوئی امتیازی سلوک نہ کیا جاسکے۔ کوئی ریمنڈ ڈیوس نہ ہو اور نہ ہی کوئی ایسے غیر ملکی انجینئر ہوں جو اپنی حفاظت پر مامو پاکستانی محافظوں ہی سے مار پیٹ اور توتکار پر آمادہ ہوجائیں۔ویسے بھی عقل کا تقاضہ تو یہ ہے کہ جو لوگ ہمارے تحفظ کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے ہوں، ان سے محبت کی جانی چاہیے۔امریکا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ خبریں )
فیس بک کمینٹ