گفتگو، بات چیت، اظہار خیال اور بحث میں کیا فرق ہوتا ہے، اس سوال کا جواب تو صاحبان عقل ہی دے سکتے ہیں مگر ایک بات طے شدہ ہے کی عام زندگی میں بحث سے گریز کرنا چاہیے، یہی کامیابی بھی ہے اوریہی عقلمندی بھی۔بلاوجہ کی بحث تلخی اور دوری کا باعث بنتی ہے اور دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ عموماً بے مقصد کی بحث کا کوئی نتیجہ بھی نہیں نکلتا۔ آجکل جنوب ایشیائی ممالک کے حوالے سے ایک بالکل ہی نیا بلکہ اچھوتا خیال زیر بحث ہے۔خیال یہ ہے کہ تقسیم ہند کے نتیجے میں مسلمانوں کو تو پاکستان کی صورت میں ایک ایسی آزاد ریاست حاصل ہوگئی جہاں وہ اپنی مرضی کی زندگی گذارنے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں لیکن اس تقسیم کے بعد بر صغیر میں آباد ہندو?ں کو کوئی ایسی ہندو ریاست حاصل نہیں ہوسکی جہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنے عقائد کے مطابق زندگی گذار سکیں، کوئی ایسی ریاست جسے وہ خالصتاً ہندو ریاست کہہ سکیں۔بھارت کے سیاسی، قانونی اور عدالتی نظام کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ ہندو فلسفہ حیات سے بالکل متضاد اور متصادم ہونے کے باوجود وہاں کا نظام مسلمانوں کو برابری کے حقوق دےتا ہے، یہ اور بات کہ وہاں کے انتہا پسند ہندواپنی روایتی مکاری اور چالبازی سے مسلمانوں کے لیے ان حقوق کا حصول ناممکن بنادیتے ہیں۔وہاں کا آئین اور قانون دیکھیں تو ایسا کوئی واضح حوالہ نہیں ملے گا جس سے ثابت ہو کہ ہندوستان صرف ہندوﺅں کے لیے مخصوص ملک ہے۔مسلمانوں کی مساجد، امام بارگاہیں، درگاہیں، اذان، نماز، عید، بقرعید، محرم، ربیع الاول اور رمضان المبارک، وہاں کے قانون کی کتاب میں مسلمانوں کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے ، ایسے میں وہاں کے ہندو انتہا پسند اپنی حکومت سے بار بار یہ سوال کرتے ہیں کہ پاکستان اگر مسلمانوں کے لیے مخصوص ہے تو ہندوستان ہندوﺅں کے لیے مخصوص کیوں نہیں۔وہاں کے ہندو انتہاپسندوں کا کہنا ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں بہت سے ہندو آباد ہیں لیکن انہیں اس طرح کے حقوق حاصل نہیں جس طرح بھارت میں مسلمانوں کو حاصل ہیں۔بی جے پی کی حکومت میں اس طرح کے سوال اٹھانے والوں کو حکومتی سطح پر خصوصی سرپرستی بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس سرپرستی کی حالیہ مثال میگھالیہ ہائیکورٹ کے ایک فاضل جج جسٹس ایس آر سین کے ایک بیان کی صورت سامنے آئی جس میں انہوں نے تقسیم ہند کے وقت کی حکومت بھارت کو مورد الزام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت کی بھارتی حکومت کو چاہیے تھا کہ1947میں ہی بھارت کو ایک مکمل ہندو ریاست قرار دینے کی مہم کا آغاز کر دیتی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ صرف مودی حکومت میں ہی اتنی سکت ہے کہ وہ بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلامائیزیشن کے سیلاب کو روک سکے۔مذکورہ جسٹس نے اپنے ایک اور بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ اگر کسی نے بھارت کو اسلامی ملک بنانے کی کوشش کی تو جان لیں کہ نہ صرف بھارت کے لیے بلکہ ساری دنیا کے لیے یہ عمل تباہی کا باعث ہوگا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق جسٹس ایس آرسین کے ان بیانات کے بعد بھارت میں ایک ایسی بحث کا آغاز ہوگیا ہے جو بہت جلد ہندو مسلم فسادات کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ بھارت کے معتدل مزاج ہندو شہری اس بات پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر عدالتوں کے جج صاحبان اس طرح کے مذہبی تعصب کا شکار ہوں گے تو ان سے انصاف کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔بھارت سر دست جتنا ہندوﺅں کا ملک ہے اتنا ہی مسلمانوں اور سکھوں کا بھی ہے۔ جج کا کام حقائق و شواہد کو دیکھ کر قانون کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے نہ کہ مذہبی بنیادوں پر منافرت پھیلانا۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر موجودہ بھارت کو ہندوﺅں کا ملک قرار دے دیا جائے تو پھر وہاں لاکھوں کی تعداد میں بسنے والے سکھوں کو کون سا ملک الاٹ کیا جائے گا۔سکھ ہر لحاظ سے ہندوﺅں سے ایک بالکل ہی مختلف قوم ہیں۔ ان کے عقائد ، ان کے نظریات اور ان کی رسومات میں ہندوﺅں کے ساتھ معمولی سی بھی مماثلت نہیں۔پھر یہ بھی ہے کہ ہندو انتہا پسند جس طرح مسلمانوں کی زندگی حرام کیے رکھتے ہیں اسی طرح سکھ بھی ان کے قہر کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔بالی وڈ میں بنائی جانے والی اکثر فلموں میں کامیڈی کے نام پر سکھوں کو تضحیک کا نشانہ بنانے کا عمل بھی کوئی نیا نہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک عرصے سے سکھ اپنے لیے ایک علیحدہ مملکت کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ایک آزاد وطن کے حصول کے لیے بے شمار جانوں کا نذرانہ دینے والی سکھ برادری امن پسند بھی ہے اور جوش و جذبے سے بھرپور بھی۔ ایک زمانے سے جاری خالصتان تحریک سکھوں کی ذہنی عکاسی کے ساتھ ساتھ ان کی مستقل مزاجی کا ثبوت بھی فراہم کرتی ہے۔ جسٹس صاحب کو چاہیے کہ جس طرح انہوں نے بھارت کو مسلمانوںسے ’پاک ‘ کرنے کی مہم کا آغاز کیا ہے اسی طرح سکھوں کے لیے بھارت ہی میں کوئی الگ حصہ مخصوص کرنے کی مہم بھی چلائیں۔ اس الگ حصے کا نام خالصتان رکھ لیں یا پھر سکھ نگری، یہ بعد کی باتیں ہیں۔اگر جسٹس اے آرسین نے منصفی کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے اس معاملے پر قدم بڑھانے میں دیر کردی تو یقین کیجیے بہت سا نقصان ہوجائے گا۔ سکھوں کے ساتھ بھی وہی سلوک ہونے لگے گا جو معروف اداکار نصیر الدین شاہ کے ساتھ ہورہا ہے۔68سالہ نصیر الدین شاہ کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے بھارت میں بڑھتے ہوئے مذہبی تشدد کو روکنے کے لیے بنائی گئی ایک تنظیم ’کاروان محبت ‘ کے پلیٹ فارم سے جاری ہونے والے ایک ویڈیو پیغام میں صرف یہ کہہ دیا تھا کہ ایک پولیس افسر کی جان کسی گائے کے مقابلے میں کم تر اور بے حیثیت سمجھنا عقل کے تقاضوں کے مطابق نہیں۔ ان کے اس پیغام کو بنیاد بنا کر ہندو انتہا پسند تنظیموں نے نہ صرف ان پر قاتلانہ حملہ کروادیا بلکہ انہیں غدار قرار دینے کی ایک باقاعدہ تحریک کا آغاز بھی کردیا۔پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی اور بھائی چارے کے روابط کے فروغ کے لیے جاری پاکستانی کاوشوں میں مددگار سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی سلوک دیکھنے میں آیا۔وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کی کرکٹ کے حوالے سے خدمات سے متاثر مسٹر سدھو چند ماہ قبل پاکستان آئے تو انہوں نے پاکستان بھارت دوستی کے حوالے سے بہت اچھے خیالات اور نہایت نفیس عزائم کا اظہار کیا۔ہندو انتہا پسندوں نے ان کی اس نیک نیتی کی یہ سزا دی کہ ان کا سر قلم کرنے والے بہادر انڈین کے لیے ایک کروڑ روپے کے انعام کا اعلان کردیا۔ یہ ساری صورت حال کچھ زیادہ امید افزاءنہیں۔ پاکستان دوستی اور بھائی چارے کی بات کرے تو اسے پاکستان کی کمزوری سمجھا جاتا ہے، نصیرالدین شاہ بھارت میں بڑھتے ہوئے تشدد کے رجحانات پر تشویش کا اظہار کریں تو غدار قرار دیے جاتے ہیں اور نوجوت سدھو امن کی بات کریں تو ان کا سر قلم کرنے والے کو انعام دینے کا اعلان کردیا جاتا ہے، ایسے میں باقی صرف دو ہی افراد بچ جاتے ہیں، ایک مودی اور دوسرے جسٹس اے آر سین۔لیکن اگر کسی سکھ یا کسی مسلمان نے ہندو انتہا پسندوں کے مظالم سے تنگ آکر ان دونوں کے سر قلم کرنے پر انعام کا اعلان کردیا تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا، یہ سوال بھی یقینا غیر اہم سوال نہیں۔
(بشکریہ:روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ