یہ واقعہ مجھے آدھی رات کے وقت پیش آیا تھا۔ یہی بات میں یوں بھی لکھ سکتا تھا کہ آدھی رات کے وقت‘ میں اس واقعہ سے دوچار ہوا تھا۔ مگر میں نے مناسب نہیں سمجھا۔ جب مجھے یہ واقعہ پیش آیا تھا، تب میں ایک اکیلا تھا۔ واقعہ پیش آنے کے دوران میں دوچار نہیں ہوا تھا۔ میں ایک ہی تھا میں دوچار حصوں میں بکھرا نہیں تھا۔ اس لئے میں نے سیدھا سادا جملہ لکھا ہے کہ مجھے یہ واقعہ آدھی رات کے وقت پیش آیا تھا۔ جب آپ میری طرح تن تنہا زندگی کے آخری ایام گزار رہے ہوتے ہیں، تب اس نوعیت کے واقعات سےآپ کا پالا پڑتا ہے۔ اب آپ واقعہ کی روداد سنئے۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ بجلی کا اتا پتا نہیں تھا۔ ہوا کے ایک مدھم جھونکے سے موم بتی بجھ چکی تھی۔ مجھ میں اتنی سکت نہیں تھی کہ ماچس تلاش کرتا اور موم بتی پھر سے جلاتا۔ اندھیرے میں آنکھیں کھولے پلنگ پر پڑے رہنا کٹھن آزمائش سے کم نہیں ہے۔ متنفر خیالات کے بے لگام گھوڑے ذہن میں لگاتار دوڑتے رہتے ہیں۔ ایسے میں خود سے اپنے آپ سے ڈر لگنے لگتا ہے۔ کبھی دروازے پر دستک، کبھی آہٹ سنائی دیتی ہے۔ایسے میں اچانک بجھی ہوئی موم بتی جل اٹھی۔ اٹھ کر، میں پلنگ پر آلتی پالتی مارکر بیٹھ گیا۔ میں حیرت سے موم بتی کی طرف دیکھنے لگا۔ بجھی ہوئی موم بتی کا خود بخود جل اٹھنا میرے لئے معمہ سے کم نہیں تھا۔ حیرت کے ساتھ ساتھ ایک ان جانا ڈر میری رگوں میں دوڑنے لگا تھا۔ تب پھڑپھڑاتی لو میں، میں نے کسی کو سائے کی طرح اپنے کمرے میں محسوس کیا۔ کوئی تھا میرے کمرے میں۔
’’اگر ڈاکہ ڈالنے آئے ہو تو بچہ مایوس لوٹ جاؤ گے۔ میرے پاس کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور آج کل تو ردی میں تول کر بھی کوئی کتاب نہیں پڑھتا۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’تم جو کوئی بھی ہو، میرے سامنے آئو۔‘‘وہ میرے سامنے آیا، مگر مجھے ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ مجھے آئوٹ آف فوکس تصویر کی طرح مدھم اور مبہم دکھائی دے رہا تھا۔ میرے قریب آکر اس نے کہا۔ ’’میرا کام ہے لوگوں کو سزا دینا۔ میں تمہیں سزا دینے آیا ہوں۔‘‘
’’کیوں بھائی؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’میں نے کیا بگاڑا ہے آپ کا؟‘‘’’تم نے معاشرے کا بہت کچھ بگاڑا ہے۔‘‘ اجنبی نے کہا۔ ’’تم آدمی ہونے کے باوجود گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہو۔‘‘’’میرا رنگ بہت پکا ہے۔ کچھ بھی کر ڈالیں نہیں بدلتا۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’رنگ گورا کرنے والی درجنوں کریمیں میں نے استعمال کر دیکھی ہیں۔ مگر میں کالے کاکالا رہا۔ میں چاہنے کے باوجود گرگٹ کی طرح رنگ بدل نہیں سکتا۔‘‘’’تم آدمی لوگ بڑے استاد ہوتے ہو۔‘‘ مافوق الفطرت شخص نے کہا۔ ’’تم لوگ رنگ تو بدلتے ہو، مگر مانتے نہیں ہو۔‘‘میں نے ڈٹ کر کہا۔ ’’میں نے کبھی رنگ نہیں بدلا۔‘‘ میرے قریب آتے ہوئے مافوق الفطرت شخص نے پوچھا۔ ’’تم سیاسی گرگٹ ہو۔ کتنی پارٹیاں بدل چکے ہو؟‘‘
اپنی جگہ میں ایک کائیاں شخص ہوں۔ میں نے کہا۔ ’’سیاست سائنس ہے۔ سیاست شطرنج کا کھیل ہے۔ حالات کے مدنظر نئی چالیں چلنی پڑتی ہیں۔ پارٹیاں بدلنے کو آپ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے سے منسوب نہیں کر سکتے۔‘‘مافوق الفطرت شخص نے کہا۔ ’’یہی بات ہم نے ایک گرگٹ سے پوچھی تھی۔ گرگٹ نے یہی جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم رنگ بدلتے ہیں اگر ہم سبزہ زار میں ہوتے ہیں اور اچانک کہیں سے خونخوار جانور ہمارا شکار کرنے کیلئے وہاں پہنچ جائے تو ہم فوراً سبزہ زار کی طرح سبز رنگ بدل لیتے ہیں۔ شکاری ہمیں پہچان نہیں سکتا۔‘‘
مافوق الفطرت شخص مجھے اپنے آپ سے بڑا اور منجھا ہوا کائیاں لگا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ’’مائی باپ آپ کون ہو۔ اور مجھ سے کیا چاہتے ہو؟‘‘
مافوق الفطرت شخص نے کہا۔ ’’ہم ہیں مطلق العنان۔ ہم مجرم کو خود پکڑتے ہیں۔ خود ہی اس پر مقدمہ چلاتے ہیں۔ خود ہی اسے سزا دیتے ہیں۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’یہ تو امیتابھ بچن کی فلم شہنشاہ کا چربہ ہے۔‘‘مافوق الفطر شخص نے کہا۔ ’’امیتابھ کی فلم شہنشاہ ہم مطلق العنان سے متاثر ہو کر بنائی گئی تھی۔‘‘ میں نے گھبرا کر پوچھا۔ ’’اس کا مطلب ہے کہ میری خیر نہیں ہے۔‘‘’’ٹھیک سوچا ہے تم نے۔‘‘ مافوق الفطرت نے کہا۔ ’’تم سیاسی گرگٹوں نے گند مچا رکھا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ تمہیں قرار واقعی سزا دی جائے تا کہ تم سیاسی گرگٹ رنگ بدلنا چھوڑ دو۔‘‘
نہ جانے کس قسم کی سزا مجھے بھگتنی پڑے گی؟ میں ڈر گیا۔ مافوق الفطرت شخص نے کہا۔ ’’ہم تجھے کچھ عرصے کے لئے کوئی جانور بنا دیں گے۔ میں کٹر قسم کا جمہوریت پسند مطلق العنان ہوں۔ بتا، تو کس قسم کا جانور بننا پسند کرے گا؟‘‘
میں تذبذب میں پڑ گیا۔’’ہم سوچنے کیلئے تجھے مہلت دیتے ہیں۔‘‘ مطلق العنان نے کہا۔ ’’تو جو جانور چاہے گا، ہم تجھے وہ جانور بنا دیں گے۔ مگر یاد رکھ۔ سیاسی گرگٹوں کو ہم گرگٹ بننے نہیں دیں گے۔‘‘
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ