ہر طرف سے اتنی بری بری خبریں ہمہ وقت آتی اور ملتی رہیں کہ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے ہمارا پورا معاشرہ ’’خود اذیتی‘‘ کے مرض میں مبتلا ہو گیا ہے‘ جسے دیکھو اس کی آنکھوں میں حیرت‘ چہرے پر پریشانی‘ لہجے میں تھکن اور باڈی لینگوئج میں ایک ایسی شکست خوردگی کا تاثر ملتا ہے‘ جیسے کوئی آخری داؤ میں لگائی ہوئی ساری رقم کو ڈوبتا دیکھ رہا ہو، اس منظر کی تکرار پہلے سے بیٹھے ہوئے حوصلوں کو مزید بٹھا دیتی ہے اور ہم ان کھڑکیوں کی طرف دیکھنا ہی چھوڑ دیتے ہیں جو کسی اور یا بہتر منظر کی طرف کھلتی ہوں۔ رہی سہی کسر ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے پوری کر دی ہے کہ ایک محاورے کے مطابق ان کے لیے اچھی خبر سرے سے خبر ہی نہیں ہوتی۔
تقریباً ہر چینل نے ’’عوامی عدالت‘‘ نما کوئی ایسا پروگرام شروع کر رکھا ہے جو معاشرے کی ہر برائی کو بے نقاب کرنے کا نہ صرف ٹھیکے دار ہے بلکہ بھول‘ چوک انفرادی غفلت‘ غلط فہمی‘ غلطی اور سوچی سمجھی برائی میں اس لیے کوئی فرق روا نہیں رکھتا کہ اس سے خبر کی سنسنی خیزی اور ان کی ریٹنگ میں کمی واقع ہوتی ہے۔ بلاشبہ دودھ‘ خوردنی تیل‘ بیکری مصنوعات میں ملاوٹ یا نا صاف پانی‘ اور جعلی ادویات وغیرہ کا کاروبار کرنے والے لوگ معاشرے کے لیے بہت برے اور نقصان دہ ہیں اور ان کا کھوج لگانا ان کو پکڑنا اور ان کی برائی کے طریق کار کو طشت ازبام کرنا بہت اہم اور اچھا کام ہے لیکن کیا ہم اس مہم جوئی کا دسواں حصہ بھی ان لوگوں اور کاموں کے لیے وقف کرتے ہیں جو اپنی اپنی جگہ پر خاموشی اور تسلسل سے نیکی‘ فلاح اور انسانی خدمت کے چراغ جلائے ہوئے ہیں اور کسی مسئلے کی تمنا سے بے نیاز ہو کر اپنا کام کرتے چلے جا رہے ہیں۔
مثال کے طور پر نئی نسل کی کتاب اور اپنی زبان سے دوری‘ عورتوں پر ظلم اور زیادتی اور صوبوں کے درمیان موجود تہذیبی اختلافات پر بہت باتیں کی جاتی ہیں۔ دو تین روز قبل ان تینوں معاملات سے متعلق تین تقریباتً میں مجھے شرکت کا موقع ملا لیکن کہیں کہیں انتہائی سرسری تذکرے سے قطع نظر کسی چینل یا اخبار نے ان مثبت اور حوصلہ بڑھانے والی خبروں پر وہ توجہ نہیں دی جو ایک کا حق اور دوسرے کا فرض تھیں۔
تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز یعنی LUMs کے شعبہ تحقیق سے عزیزی زاہد حسن کا فون آیا کہ وہ لوگ ایک کتاب میلے کا انعقاد کر رہے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ میں نہ صرف اسے وزٹ کروں بلکہ کچھ وقت وہاں گزاروں تاکہ میری کتابیں خریدنے والے طلبہ ان پر میرے آٹو گراف لے سکیں کہ اس سے ان کے ساتھ ساتھ کتاب کلچر کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی۔
اب صورتحال یہ ہے کہ بلاشبہ کتابوں بالخصوص شعر و ادب اور سوشل سائنسز سے متعلق کتابوں کی دکانیں بوجوہ بند اور کم ہوتی جا رہی ہیں مگر دوسری طرف تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں کتاب میلوں کا رواج اور مختلف حوالوں سے ادبی میلوں اور کانفرنسوں کا رجحان بھی تیزی سے فروغ پذیر ہے جو نہ صرف ایک مثبت اشارہ ہے بلکہ ہمیں یہ سوچنے اور سمجھنے کی دعوت بھی دیتا ہے کہ روایتی انداز کی ہاتھ میں پکڑ کر پڑھنے اور سینے پر رکھ کر سونے والے کتاب سے تعلق کے جو نئے راستے اور رابطے پیدا ہو رہے ہیں انھیں سمجھنے اور ان کے ساتھ چلنے کے لیے اپنی سوچ‘ روش اور طریقہ کار کو حقیقت پسندی‘ تحمل اور احتیاط کے ساتھ بدلا اور ایڈجسٹ کیا جائے اور آج کے قاری کے مسائل اور ٹیکنالوجی کے فروغ کی روشنی میں اس Space اور گنجائش کو ازسرنو مرتب کیا جائے کہ اصل مسئلہ کتاب کی ساخت نہیں بلکہ اس کے اندر موجود جہان معنی سے رابطے اور استفادے کا ہے۔
اب رہی بات ناشر اور مصنف کے حقوق اور ان کے تحفظ کی تو اس کے لیے بھی نئے راستے نکالے جا سکتے ہیں۔ موبائل یا کمپیوٹر کی اسکرین ہو یا آڈیو ویڈیو کی شکل میں رسائی کا کوئی اور طریقہ ہر صورت میں اس مسئلے کا حل ممکن ہی نہیں موجود بھی ہے۔ ادارے کے سینئر اساتذہ سے ملاقات کے دوران یہ بات بار بار سننے میں آئی کہ آج کل کے طلبہ اپنی ڈگری سے متعلق کتابوں سے قطع نظر باقی کتابوں کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے کہ ان کے خیال میں ان کا مطالعہ سراسر تضیح اوقات ہے کہ ان کے نوکری کے پیکیج سے اس کا کوئی تعلق نہیں بنتا عرض کیا کہ پرائمری مڈل یا ہائی اسکول تک کی لازمی تعلیم اگر ہر شہری کے بچے کو سچ مچ مہیا اور میسر ہو جائے تو اسی نصاب تعلیم اور نظام تد
ریس کی معرفت اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ساری مہذب دنیا میں ہوتا ہے اور قدرے مختلف انداز میں ہمارے ہاں بھی ہوا کرتا تھا۔
وہاں سے مجھے مسرت مصباح کے ادارے Smile again یعنی ’’چلو پھر سے مسکرائیں‘ کی ایک تقریب میں جانا تھا جس کا مقصد ان خواتین کی دیکھ بھال‘ حفاظت‘ حوصلہ افزائی اور ذیست کے میدان میں ازسرنو ایک بامعنی اور مستحکم آباد کاری تھی جو کسی شقی القلب رشتے دار یا کسی جاہل مرد کے ایک وحشیانہ عمل کے ذریعے تیزاب گردی کا شکار ہوکر اپنے چہروں کے اعضا اور نقوش کے حسن سے محروم ہو گئی تھیں اور جن کے مقدر میں غربت‘ بے بسی‘ بدشکلی اور ماتم کے سوا کچھ باقی نہ بچا تھا‘ ان کے اپنے بھی غربت جہالت اور بے چارگی کے باعث ان کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں تھے۔
اس نوع کی خبروں کو اچھالا تو بہت جاتا ہے لیکن جو اللہ کے نیک اور درد دل رکھنے والے بندے ان کا ہاتھ پکڑے اور ان کی مدد کرنے کے لیے محنت اور کوشش کرتے اور اپنا وقت صرف کرتے ہیں ان کا تذکرہ بہت کم کیا جاتا ہے حالانکہ ایسے لوگوں کا ذکر ان کی شہرت سے کئی درجے زیادہ اس بے لوث خدمت انسانی کے لیے تحریک اور توجہ کا باعث بنتا ہے جس سے ان افتادگان خاک کو دوبارہ سر اٹھا کر زندہ رہنے کا موقع مل سکتا ہے ان کے علاج‘ تربیت اور روز گار کے لیے اگر مسرت مصباح اور ان کے ساتھیوں کی طرح اور لوگ بھی سامنے آئیں گے تو اس سے نہ صرف ان مظلوم اور بے سہارا خواتین کو حوصلہ اور راستہ ملے گا بلکہ معاشرے میں ان محرکات کو ختم کرنے کا رجحان اور شعور بھی فروغ پذیر ہو گا جن کی وجہ سے یہ حادثات رونما ہوتے ہیں۔ مختلف مہارتیں سکھانے والے جس ادارے کے تعاون سے یہ تقریب ترتیب دی گئی تھی اس کی انتظامیہ کے ارکان کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی اور یوں یہ بات انتہائی خوش آیند اور تعمیری شکل اختیار کر گئی کہ متاثرہ خواتین کے ساتھ ساتھ ہماری نئی نسل بھی اخوت‘ شمولیت اور تربیت کے ایک ایسے عمل سے گزر رہی ہے جس کا ہر دروازہ روشنی کی طرف کھلتا تھا۔
شام میں ڈاکٹر صغریٰ صدف نے پنجابی زبان‘ تہذیب اور ادب کے حوالے سے ’’پلاک‘‘ میں ایک میلہ لگا رکھا تھا جس میں رنگا رنگ اور مختلف النوع تفریحی پروگراموں کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کے سارے صوبوں کے درمیان موجود مشترکہ تہذیبی تاریخی اور لسانی عوامل پر ایک مذاکرہ بھی شامل تھا جس میں بہت اچھی گفتگو ہوئی اور اس بات پر سب نے زور دیا کہ ہم سب کو صوفی شعراء کے پیغام کو سمجھ کر دین اور دنیا دونوں میں رواں دواں ان مشترک رویوں اور مماثلتوں پر توجہ دینی چاہیے جن کے یہ لوگ امین اور نمایندہ تھے۔
بلوچستان کے جام ورک اور مست توکلی ہوں یا خیبرپختونخوا کے رحمان بابا‘ سندھ کے سچل سرمست ہوں اور شاہ لطیف ہوں یا پنجاب کے بابا فرید‘ شاہ حسین‘ وارث شاہ‘ سلطان باہو‘ بلھے شاہ‘ خواجہ غلام فرید یا میاں محمد ان سب کے کلام میں زبان‘ کلچر‘ لباس اور رسوم و رواج کے جزوی فرق سے بالاتر جو اخوت‘ محبت‘ انسان دوستی اور سانجھ کا اشتراک ہے‘ اس کی پہچان‘ حفاظت اور فروغ ہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے اور قریب کرنے کا مرکزی نقطہ ہے۔
ایک ہی دن میں حاصل ہونے والے ان تین تجربات‘ ان کی لذت اور اہمیت کے احساس نے کچھ دیر کے لیے ہی سہی اس ذہنی اور نفسیاتی تکدر کو دور کر دیا جو ہمہ وقت ہمیں اندر سے کمزور کرنے کے در پے رہتا ہے اور دل اس روشنی اور آسودگی سے بہرہ مند ہوا جو ہمارے آس پاس ہمیشہ موجود تو ہوتی ہے مگر ہم اس سے رابطہ اور مکالمہ نہیں کرتے۔
(بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ