اوسلو سے پہلی ملاقات کوئی تیس برس قبل سیّد مجاہد علی یا شاید جمشید سرور کے توسط سے ہوئی تھی۔ ناموں میںکنفیوژن اس لیے ہو رہا ہے کہ اس شہر کا دوسرا چکر بھی اس سے اگلے ہی سال لگا تھا اور اب ٹھیک سے یاد نہیں آ رہا کہ میزبانوں کی ترتیب کیا تھی؟
بس اتنا یاد ہے کہ اُس وقت بھابی روبینہ رانا (بیگم جمشید سرور) اور عزیزی فیصل کاشی کے بہنوئی چوہدری افتخار کی شکل میں دو بہت اچھے اور محبتی انسان ابھی زندہ تھے اور یہ شہر آج کی نسبت کافی چھوٹا تھا، ا س ملک کی کل آبادی آج بھی تیس چالیس لاکھ سے زیادہ نہیں اور اسے دیکھ کر پہلا خیال بھی آتا ہے کہ oslo – go slow۔کوپن ہیگن سے اوسلو تک کی فلائٹ بھی لاہور سے ملتان کی طرح تقریباً پچاس منٹ کی ہے لیکن لاہور اور ملتان کے درمیان پورے ہفتے میں چار پانچ فلائٹیں چلتی ہیں جب کہ ڈنمارک اور اوسلو کے درمیان ان کی مثال ’’تُو چل میں آیا ‘‘ سے ملتی جلتی ہے۔
عزیزی وصی شاہ اور ہم 29 اپریل کی شام یہاں لینڈ کیے تو برادرم نذر عباس بجلی سے چلنے والی خوبصورت سی گاڑی کے ساتھ ہمارے منتظر تھے ۔Tesla کہلانے والی ایک گاڑی ستوانگر میں ڈاکٹر نوخیز کے پاس بھی تھی، معلوم ہوا کہ فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے حکومت اس طرح کی گاڑیوں کو بے شمار رعائیتیں دے رہے ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ آیندہ چندبرسوں میں یہاں ُپٹرول سے چلنے والی گاڑیاں صرف تصویروں میں ہی ملا کریں گی۔ اوسلو کا یہ نیا ہوائی اڈہ شہر سے تقریبا چالیس منٹ کے فاصلے پر ہے۔
کچھ احباب کے ساتھ ایک کھانے میں شرکت کر کے ہوٹل پہنچے تو رات کے ساڑھے دس بج چکے تھے لیکن سڑک پر ایسا سناٹا تھا جو ہمارے بڑے شہروں میں آدھی رات کے بعد بھی کم کم ہی نظر آتا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہاں کے لوگ جلدی سونے اور جلدی اُٹھنے کے ہی عادی ہیں ۔ عام دکانیں بلکہ کھانے پینے کی جگہیں بھی دس بجے تک بند ہو جاتی ہیں اور سوائے نائٹ کلبوں کے۔
جمشید سرور کے بارے میں معلوم ہوا کہ اُسے کسی قریبی عزیز کی فوتیگی کی وجہ سے اچانک پاکستان جانا پڑ گیا ہے، سو اب یہاں کا وقت ’’گرینگو‘‘ کے بغیر ہی گزرے گا، واضح رہے کہ یہ نام اُسے اُس کے مخصوص ڈیل ڈول اور باڈی لینگوئج کی وجہ سے تین دہائیاں قبل دیا گیا تھا ۔ ایک ایک کر کے اُس زمانے کے تمام دوست یا تو دنیا سے یا اس شہر سے جا چکے ہیں سو اُن سب کی کمی پورا کرنا اب عزیزی فیصل ہاشمی کے ذمے ہے جس کی بیوی چندا کا صرف Nick Name ہی میری بڑی بیٹی روشین سے نہیں ملتا بلکہ وہ مجھے اُسی کی طرح پیاری اور عزیز بھی ہے۔
فیصل حسبِ وعدہ مجھے لینے وقت پر پہنچ تو گیا مگر اُس نے بتایا کہ مجھ سے ملنے کے مشتاق تمام لوگوں کا آج ورکنگ ڈے ہونے کی وجہ سے جمع ہونا مشکل تھا چنانچہ برنچ اب کل ہو گا اور آج صرف گھر کے ہی موجود افراد سے ملاقات رہے گی، جب کہ پروگرام کے مطابق اگلے روز ہمیں برادرم حاجی افضال کی طرف برنچ کر کے ائیرپورٹ روانہ ہونا تھا، بہت سارا حساب کتاب اور جگاڑ لگانے کے بعد یہ طے پایا کہ دن کا آغاز ذرا جلدی کر کے پہلے فیصل کی طرف ناشتہ ہو گا اور پھر وہیں سے وہ برنچ کی جائے وقوعہ یعنی حاجی افضال کے اُس نئے گھر تک پہنچا دے گا جو گزشتہ دورے میں زیر تعمیر تھا۔
فیصل اور چندا کے چار بچے ہیں جن میں سے بڑے لڑکے شہریار کی شادی چند ماہ قبل ہی ہوئی ہے، اس وقت وہ اور اُس کی بیوی دونوں اپنی اپنی جاب پر تھے، سو گھر پر میاں بیوی اور دو چھوٹے بچے ہی تھے کہ تیسری بچی آئت (جس کا نام میری نواسی آئتین سے ملتا جلتا ہے) کسی امتحان وغیرہ کے سلسلے میں یونورسٹی میں تھی جو کچھ دیر بعد پہنچ گئی اور اُس سے بہت دلچسپ گفتگو رہی کہ وہ کرمنالوجی میںکوئی ڈگری کر رہی ہے اور عمر کے اُس حصے سے گزر رہی ہے جس سے سٹیفن ہاکنگر پوری زندگی نہیں گزر سکا اور وہ یہ کہ اگر یہ کائنات ایک عظیم ڈیزائن ہے تو پھر اس کا کوئی ڈیزائنر کیوں نہیں ہے اور اگر ہے تو کہاں ہے؟ اس پیاری اور ذہین بچی سے اس موضوع پر باتیں کر کے بہت مزہ آیا۔
دوپہر کے کھانے کے میزبان برادرم چوہدری جعفر اقبال تھے جو مسلم لیگ ن کے سابقہ ایم این اے تھے اور جن کے سسرال سمیت زندگی کے بہت سارے معاملات کا ناروے سے بہت پرانا تعلق ہے۔ وہ ایف سی کالج سے پڑھے ہوئے ہیں اور شعری ذوق، اخلاق اور سیاسی وژن کے اعتبار سے ان کی شخصیت بلاشبہ بہت عمدہ اور غیر معمولی ہے۔ اُن سے ستوانگر میں بھی ملاقات رہی جہاں وہ خاص طور پر شرکت کے لیے پہنچے تھے، لیکن نسبتاً تفصیل سے بات کرنے کا موقع اوسلو میں ہی ملا ، اُن سے ملک کی سیاسی صورت حال پر خوب گفتگو رہی اور میں نے انھیں بہت معتدل مزاج اور بیک وقت زندگی آمیز اور زندگی آموز پایا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اچھی فکر والے لوگ کسی بھی جماعت سے ہوں ملک کی بہتری اور ترقی کے لیے سب کی رائے سے استفادہ کرنا چاہیئے۔ اوسلو کے غزالی پروگرام میں ہی وہ میاں طیب اور مقامی میزبانوں کے ساتھ ساتھ تھے اور ذاتی سطح پر بھی انھوں نے پورے پروگرام میں ہر حوالے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اوسلو کے اس پروگرام کی سب سے یاد رہ جانے والی بات اس کی unpredictability کی طرف غیر یقینیت تھی کہ ابتدا میں یہ جس قدر سُر فلاپ محسوس ہو رہا تھا آخر میں یہ اتنا ہی کامیاب اور بھرپور ٹھہرا ۔
فیصل کے ناشتے میں حاضرین کی گرمجوشی اور کھانوں کی کوالٹی دونوں ہی اوّل درجے کے تھے۔ پاکستانی سفارت خانے کے کلچرل کونسلر عزیزی خالد رات کی تقریب میں بھی سارا وقت موجود رہے اور اب بھی خاص طور پر ملنے کے لیے آئے اُن سے مختصر مگر بہت اچھی ملاقات رہی ۔ میں اپنا سامان چیک کر کے برادرم عامر جعفری کے کمرے میں چھوڑ آیا تھا کہ وہ اسے افضال بھائی کے برنچ میں اُپنے ساتھ لیتے آئینگے سو اس رعائت کی وجہ سے فیصل کی طرف کچھ اضافی وقت مل گیا۔ چند برس قبل جب میاں عبداشکور وغیرہ بھائی ا ور میں الفلاح اسکالر شپ اسکیم کے ایک پروگرام کے حوالے سے اوسلو آئے تو ہمارا قیام حاجی افضال کے گھر پر ہی رہا تھا۔ اُس وقت ان کا یہ نیا مکان نقشے کے مرحلے سے گزر رہا تھا۔
حیرت کی بات ہے کہ صرف ایک بار کی وزٹ کے باوجود فیصل کو اُس کا مقام اور راستہ یاد تھا وہاں سب لوگ ہمارے منتظر تھے۔ سلمان گیلانی کی لاہور کی فلائٹ ہم سے ایک گھنٹہ قبل کی تھی سو طے پایا کہ ایک ساتھ ہی نکلا جائے، اب آگے پیرس اور وہاں سے لندن تک کا سفر عامر جعفری کے ساتھ ہونا تھا جب کہ لندن سے لاہور کی ہماری فلائٹیں پھر علیحدہ علیحدہ تھیں یعنی ’’اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا‘‘۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ