یہ دس بارہ برس پہلے کی بات ہے اب ٹھیک طرح یاد نہیں کہ سال کون سا تھا ۔ مسعود کاظمی مرحوم ہر سال محرم الحرام کےمہینے میں اپنے گھر پر حلیم کی نیاز دیتے تھےاور اس موقع پر سخن ور فورم کےاراکین کو خاص طور پرمدعو کرتے تھے ۔مجھے ساتھ میں یہ بھی کہہ دیتے کہ آپ بے شک تاخیر سےآنا ۔ پہلے مجلس ہو گی ۔ شاکر اور نوازش کو پہلے بھیج دینا ۔ ہم یہ نیاز کھانے باقاعدگی سےجاتے تھے اور میں اپنےساتھ کچھ صحافی دوستوں کو بھی لے جاتا تھا ۔ واپسی پروہ ہمیں گھر کے لیےبھی نان اور حلیم کےپیکٹ ساتھ دیتے تھے ۔ ایک مرتبہ میں راؤعامر ، ارشد چوہدری ناصر ظہیر اور کچھ دوستوں کےہمراہ ان کی دعوت میں شریک ہوا اور حسب روایت ہم نیاز کےپیکٹ لے کر واپس روانہ ہو گئے ۔ ہماری رات کی محفل اس زمانے میں لال کرتی میں نذیرے کے ہوٹل پر جمتی تھی ۔ فیصلہ ہوا کہ پہلے چائے پیئیں گے اور پھر اپنےاپنے گھروں یا دفتروں کو روانہ ہو جائیں گے ۔ چائے کے بعد جب روانگی کا وقت آیا تو ناصر ظہیر مجھے پریشانی کے عالم میں ایک جانب لےگیا ۔ ’’کہنے لگا سر جی میرا تے ایک مسلہ حل کرو ‘‘ مسئلہ دریافت کیا تو بولا کہ میں اس نیاز کا کیا کروں میں تو اسے گھر نہیں لےجاسکتا میری والدہ نیاز دیکھ کر ناراض ہوں گی کہ ہم تو اہل حدیث ہیں نیاز نہیں کھاتے ۔ سو اس نے اپنے حصے کے پیکٹ بھی میرے حوالے کیئے اور گھر روانہ ہو گیا ۔ خیر یہ تو ہم نےیونہی ایک واقعہ لکھ دیا صرف یہ بتانے کے لیئے کہ ناصر اپنی والدہ سےکتنا ڈرتا ہے ۔
ناصر ظہیر کا صحافت اور کتاب کےساتھ گہرا تعلق ہے ۔ صحافت میں تو یہ بہت بعد میں آ یا لیکن میرا اس کے والد ظہیر الدین کے ساتھ اس زمانے سے تعلق ہےجب یہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا ۔ میں نے اور شاکر حسین شاکر نے جب 81 ۔ 1980 میں کتابیں اور رسالے شائع کرناشروع کیے تو ان کی جلد بندی کےلیےہم ظہیر صاحب کے پاس ہی جایا کرتے تھے ۔ شاہین مارکیٹ کے قریب ایک تنگ سی گلی میں ان کا کارخانہ تھا جہاں انہوں نے جلد سازی سے متعلقہ مشینیں ( پیپر کٹر وغیرہ ) لگا رکھی تھیں ۔ سامنے ہی روحانی آرٹ پریس اور روزنامہ سنگ میل کا دفتر تھا ۔ مجھے جب بھی وقت ملتا یا دفتر میں کام کے دورن کوئی وقفہ آتا تو میں ظہیر صاحب کے پاس چلا جاتا ۔ ظہیر صاحب کے ہونٹوں میں سگریٹ ہوتا تھا جسے وہ کم ہی بجھنے دیتے تھے ۔ بہت ہنس مکھ اور زندہ دل انسان تھے کام بھی کرتے لطیفے بھی سناتے شاعروں اور ان کی کتابوں پر تبصرے بھی کرتے ۔ شعری مجموعوں میں سے اشعار تلاش کر کے ان کی دلچسپ تشریح اور پیروڈی کرتے اور پھر کہتے ’’ ایہہ شاعری اے ؟ چھڈو جی وڈے شاعر بنڑے پھردے نے ‘‘ ظہیر صاحب کا 2010 میں انتقال ہو گیا اور پھر گھر کی تمام ذمہ داریاں ناصر کےکندھوں پر آ گئیں۔ ناصر اس وقت ابھی زیر تعلیم تھا اس نے صحافت میں ایم اے کیا اور اس کے بعد میری طرح بہت کم عمری میں شعبہ صحافت سے منسلک ہو گیا ۔ 2004 میں اس نے روزنامہ خبریں سےاپنےصحافتی سفر کا آغاز کیا ۔ دو سال بعد روہی ٹی وی کا آ غاز ہوا تو ناصر اس کی بانی ٹیم میں شامل تھا ۔ 2010 میں جب میری ارشد چوہدری اور راؤ علی عامر سلطان کے ساتھ ملتان پریس کلب کے باہر بیٹھک ہوتی تھی ناصر نے اسی زمانے ہمارے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کیا پھر یہ ہمارے گروپ کا حصہ بن گیا ۔ اس کا نام ارشد چوہدری ، راؤ عامر اور میرے ساتھ لیا جانے لگا ہماری ذہنی ہم آہنگی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ناصر نے روزنامہ خبریں سے کیریئر شروع کرنے کے باوجود اپنے قلم ، الیکٹرانک میڈیا کے مائک اور کیمرے کو بلیک میلنگ کا ذریعہ نہیں بنایا ۔ نومبر 2021 میں جب میں نے کتابوں کی اشاعت شروع کی تو ناصر کے ساتھ ایک اور تعلق بھی پیدا ہو گیا گرد و پیش کے زیراہتمام شائع ہونے والی کتابوں میں طباعت کا جو حسن آپ کو نظر آتا ہے اس کا سہرا ناصر کےسرہی جاتا ہے۔ وہ رات بھر پرنٹنگ سے متعلق امور سر انجام دیتا ہےاوردن کےوقت دیر تک سوتا ہے ۔ کوئی بریکنگ نیوز آ جائےتو اسے نیند سےجگا کر مطلع کرنا دوستوں کی ذمہ داری ہےتاکہ وہ بستر میں لیٹا ہی ناظرین کو وقوعے کا آنکھوں دیکھا حا ل بتا سکے ۔ صحافت میں وہ ارشد چوہدری کو اپنا استاد کہتا ہے لیکن چوہدری اسے بہت استاد کے نام سےیاد کرتا ہے ۔
ناصر میرا چھوٹا بھائی بھی ہے اور بھتیجا بھی ۔کتابوں کی اشاعت میں تاخیر پر میں بسا اوقات اس سے تلخ بات بھی کر جاتا ہوں ۔یہ میرے مزاج کو سمجھتا ہے ۔ خاموشی سے میری بات سنتا ہے پھر کچھ دیر کے بعد اپنا موقف پیش کردیتا ہے کل 26 نومبر کو اس کی سالگرہ تھی ۔اس موقع پرمعروف شاعر اور دانش ور برادرم جاوید یاد نے اس کے اعزاز میں ایک ضیافت کا اہتمام کیا ۔ جاوید یاد صاحب بھی ناصر کی صلاحیتوں کے معترف ہیں ۔ ناصر ظہیر کے لیے بہت سی دعائیں اور نیک تمنائیں تمنائیں۔ وہ ہمارے دکھ سکھ کا ساتھی ہے گھر کے مسائل ہوں یا دفتر کی مشکلات وہ کسی بھی فیصلےسےپہلے مجھے مشاورت میں ضرور لیتا ۔۔ اور تو اور مجھے برادرم سہیل عابدی کے وہ تمام میسج بھی پڑھا دیتا ہے جو عابدی صاحب اسے یہ کہہ کر بھیجتے ہیں کہ ہو تو تم ہمارے بھتیجے لیکن سب کچھ رضی بھائی کو بتا دیتے ہو ۔۔ اورمیں سہیل عابدی سے کہتا ہوں سید صاحب یہ شیخ برادری کا معاملہ ہے سیدوں کی طرح شیخ بھی ہر معاملے میں ایک دوسرے پر ہی اعتماد کرتے ہیں یقین نہ آئےتو ناصر شیخ سے پوچھ لیں ۔
رضی الدین رضی
اٹھائیس نومبر دو ہزار چوبیس
فیس بک کمینٹ