ماں کا متبادل اس دنیا میں نہیں یہ کہنا ہے جاوید یاد صاحب کا، ماں کے بارے میں وہ اپنی اس نظم میں اتنے جذباتی ہیں کہ وہ پیدا ہونے سے پہلے سے لے کر اُن تمام مراحل سے گزرتے ہوئے آزادی کے ان لمحات کو چھوتے ہیں جب وہ خود کمانے کے لائق ہو جاتے ہیں لیکن تب بھی ماں آدھی رات کو آنے والے بچے کو بھوکا نہیں سونے دیتی، اس کے لئے کھانے اور آرام کا بندوبست کر کے رکھتی ہے، جاوید یاد صاحب کی یہ ایک نظم”ماں” پوری کتاب پر بھاری نظر آتی ہے۔
پھر وہ بہن کی بے لوث محبتوں کو گنواتے ہوئے نظر آتے ہیں جس کا وجود انہیں فیصلہ کرنے کی قوت دیتا ہے اور بہن کی صرف ایک بات بھائی کے سر کو فخر سے بلند کر دیتی ہے جب اس سے شادی کرنے کے بارے پوچھا جاتا ہے تو وہ سر تسلیم خم کر دیتی ہے کہ جیسے آپ کی مرضی۔ بیوی کی چاہتوں کو شمار کرتے ہیں تو انہیں وہ سب منظر ایک فلم کی طرح ان کی نظروں میں گھومنے لگتے ہیں، جاوید یاد صاحب کو بیوی کا وہ سوال جو ہر چوبیس گھنٹوں میں کم از کم ایک بار ضرور دہرایا جاتا ہے جب وہ ڈیوٹی کے لئے گھر سے نکلتے ہیں یا کسی کام سے کہیں جانا ہوتا ہے کہ ’’ کتنے بجے آو گے‘‘ اور پھر وہ اپنی نظریں میرے انتظار میں کواڑ پر مرکوز رکھتی ہے، جس کے ہاتھوں سے آٹا گوندھنے کی خوشبو آتی ہے اور یہ خوشبو جب گھر میں پھیلتی ہے تو بچے اس خوشبو سے معطر فضاؤں میں جوان ہوتے ہیں اور میرے گھر کی رونقیں میری روح تک کو تسکین پہنچاتی ہیں۔
جاوید یاد صاحب کو معاشرے میں ہونے والی زیادتیوں کا دکھ ہے اور ان سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں جو ان زیادتیوں کے مرتکب ہوتے ہیں، وہ کچھ یوں شکوہ کناں ہیں کہ لوگ جھوٹ کو سچ بنانے میں کوشاں ہیں، دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کا فن جانتے ہیں، سادگی کا تمسخر اُڑا کر فخر محسوس کرتے ہیں، تصنع اور بناوٹ کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے، جہاں بھیڑیے شرافت کا لبادہ اوڑھے اور شریف عریاں پھرتے ہیں اور جہاں بچیوں کا گھر سے اکیلے نکلنا دو بھر ہو گیا ہو۔
ان چند سطروں میں ہی جاوید یاد صاحب کے اندر کا دکھ کھُل سامنے آجاتا ہے ، ایک شاعر کو ایسا ہی حساس ہونا چاہئیے جو معاشرے میں ہونے والی زیادتیوں کو دیکھ کر ،محسوس کر کے اپنا آپ کھول کر صفح قرطاس پر بکھیر دے جو دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھ کر دنیا کو باور کرا سکے کہ ایک ہستی ایسی بھی ہے جو یہ سب زیادتیاں دیکھ رہی ہے اوراس کا ایک دن حساب بھی دینا ہو گا۔ جاوید یاد نے اپنی شاعری میں دنیا کی سب علتوں کو بیان کردیا ہے، وہ اس معاشرے کو سدھرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں، وہ امن اور سکون کے خواہاں ہیں، وہ اپنی شاعری میں رشتوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں وہ رشتہ ماں کا ہو، بہن کا ہو، بیوی کا ہو یا معاشرے میں پھیلی ہوئی خلقت کا ایک دوسرے سے ہو وہ سب میں یگانگت اور ہم آہنگی کے خواہاں ہیں وہ اس مایوسی کے دور میں بھی امیدوں کے چراغ لئے بیٹھے ہیں کہ کبھی تو ان میں روشنی کی کرنیں پھوٹیں گی۔
جاوید یاد صاحب کا تعلق ہمارے ہی خطے سے ہے یہیں پر ہی ان کا بچپن، لڑکپن اور جوانی گزری جاوید یاد صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اخبارات میں کالم بھی لکھتے ہیں اور سفر نامہ نگار بھی ہیں اچھے اور خوب صورت لکھاری ہیں، ادب میں میں ان کی دلچسپی کو یوں دیکھ کر حیران ہوتا ہوں کہ یہ اپنی کتابیں تو لکھتے ہی ہیں چھپواتے بھی ہیں اور ان کی ترسیل کے لئے بھاگ دوڑ بھی کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے ایسے دوستوں کی کتابیں بھی چھپواتے ہیں جو خود کراچی، برطانیہ، امریکہ میں بیٹھے ہیں لیکن جاوید یاد صاحب اُن کی کتابیں چھپوا رہے ہیں ان کو لوگوں تک پہنچا رہے ہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ ان کی غیر موجودگی میں ان کی کتابوں کی تقریبات بھی منعقد کروا رہے ہیں یہ انہی کا حوصلہ اور ادب سے دلچسپی اور اظہار محبت ہے۔
جاوید یاد صاحب کا ایک شعر ہے:-
چند سانسیں ادھار مانگتے ہیں
ہم کہاں بے شمار مانگتے ہیں
میری دعا ہے کہ خداوند انہیں بے شمار سانسیں اور بے حساب زندگی عطا فرمائے، آمین، جاوید یاد صاحب کو’’جو بھی کچھ ہے‘‘ سب مبارک ہو
فیس بک کمینٹ