الیکشن قریب آ جائے تو افواہ ساز فیکٹریاں چالو ہو جاتی ہیں۔ پہلے کہا گیا کہ سینیٹ کے الیکشن کی نوبت نہیں آئے گی، وہ ہو گئے، تو نئی گپ یہ چھوڑی گئی کہ جوڈیشل مارشل لا آ رہا ہے۔ عدلیہ نے واضح کر دیا کہ ایساکوئی امکان ہی نہیں، ویسے بھی جوڈیشل اور مارشل لا ایک دوسرے سے لگا نہیں کھاتے۔ اب ایک ہی کسر باقی تھی اور یار لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ مارشل لاءخود آ رہا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مارشل لاءنہیں آئے گا اور اگر آیا تو وہ گھر چلے جائیں گے۔
مگر مجھے ضرور تجسس تھا کہ کسی ماہر فوجی تجزیہ نگار سے معلوم کروں کہ کیا مارشل لا کے نفاذ کے لئے حالات سازگار ہیں اور کیا فوج ایسا کوئی ارادہ بھی رکھتی ہے یا نہیں یا یونہی بدنام ہوئی جا رہی ہے۔
ظاہر ہے میرے نزدیک لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفی سے بہتر کوئی اور تھا نہیں، ویسے جنرل چشتی سے بھی میری گاڑھی چھنتی ہے اور وہ ضیا کا مارشل لا لگانے کے گناہ یا ثواب میں مرکزی کردار تھے مگر ان کا موجودہ فون نمبر میرے پاس نہیں۔ جنرل غلام مصطفی آج کی فوج کے مزاج کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، ایک تو منگلا کے کور کمانڈر رہے، دوسرے ملک کی دفاعی کمان کی اسٹریٹیجی انہوں نے تیار کی اور اس کے دو مرتبہ سربراہ رہے۔ ان سے بات کی تو پہلے خوب ہنسے کہ میں ریٹائرڈ فوجی کیا بات کروں گا، موجودہ آرمی چیف کہہ چکے ہیں کہ ریٹائرڈ فوجی تجزیہ کار جی ایچ کیو کے ترجمان نہیں، یہ بات قانونی اور اصولی طور پر درست ہو سکتی ہے لیکن اگر جی ایچ کیو سابق اعلیٰ فوجی افسروں کو یوں ڈس اون Disown کرنا شروع کر دے تو فوج کی عوام کے اندر لابی کا خاتمہ باالخیر ہو جائے گا اور فوج کے بارے میں خیر کی بات کہنے والا بھی کوئی نہ ہو گا، اکیلے آئی ایس پی آر کے سربراہ کس کس سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ اور کس کس چینل یا اخبار سے بات کر سکتے ہیں۔
جنرل غلام مصطفی کو میری دلیل ماننا پڑی اور انہوں نے صاف کہا کہ جس فوج کو میں جانتا ہوں، وہ اب مارشل لا لگانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، جنرل کیانی نے نہیں لگایا، جنرل راحیل نے نہیں لگایا اور جنرل باجوہ بھی نہیں لگانا چاہتے۔
میں نے پوچھا کہ وجہ کیا ہے، فوج نے مارشل لاءسے توبہ کیوں کر لی ہے۔ جنرل مصطفی نے کہا کہ حالات کے جبر نے، تاریخ کے آئینے نے اور بار بار کے مارشل لا کے نفاذ کے تجربے نے فوج پر واضح کیا ہے کہ فوج، حکومت اور ملک کے مسائل کا حل نہیں۔ ماضی کے مارشل لا ملکی مسائل حل نہیں کر سکے، بعض تو ان مسائل میں اضافے کا سبب بنے اور یحییٰ خان کے مارشل لا دور میں تو ملک دولخت ہو گیا تھا۔ جنرل ضیا کے مارشل لا پر اگرچہ عوام کے ایک طبقے نے مٹھائیاں بانٹیں جو اس کی عوامی مقبولیت کی دلیل تھی۔ مگر یہ مارشل لا اپنے پیچھے لاتعداد مسائل چھوڑ گیا، مشرف کا مارشل لا مختلف حالات میں آیا مگر ملک کا سنوارا اس نے بھی کچھ نہیں۔ اس طویل تجربے نے فوج میں یہ سوچ پیدا کی ہے کہ جمہوری نظام ہی کو تقویت دی جائے اور اس میں جو خرابیاں در آئیں، ان کو آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے دور کرنے کی کوشش جاری رکھی جائے۔
میں نے پوچھا کہ حکومت کی کل سیدھی رکھنے کے لئے فوج کو کون سا آئینی اور قانونی اختیار یا راستہ میسر ہے، کہنے لگے آئین فوج کو پابند کرتا ہے کہ وہ حکومت کی مشاورت کرے۔ یہ آئینی پابندی صرف پاک فوج پر ہی عائد نہیں ہوتی بلکہ دنیا بھر کی افواج اس فریضے کی ادائیگی کی پابندی کرتی ہیں، ہر ملک کی فوج کا کام ہے کہ وہ مختلف مسائل پر حکومت کو مشورہ دے، یہ استحقاق حکومت کا ہے کہ وہ ا س مشورے کو قبول کرے یا رد کر دے، امریکی اور برطانوی فوج بھی اپنی حکومتوں کو مشورے دیتی ہیں اور ضروری نہیں کہ ان کے سارے مشوروں کو وہاں کی حکومتوں نے قبول کیا ہو مگر فوج مشورہ دینے کے بعد آئین کے سامنے سرخرو ہو جاتی ہے کہ اس نے اپنی طرف سے ملک کے لئے مفید اور کارگر مشورہ دیا تھا اور اس مشورے کے بعد فوج بری الذمہ ہو جاتی ہے اور کوئی اسے مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتا کہ فلاں مسئلے پر اس نے بروقت مشورہ نہیں دیا۔
تو کیا موجودہ حالات میں فوج خاموش تماشائی بنی رہے گی۔ میرا سوال تھا۔آپ فوج کو خاموش تماشائی کیسے کہہ سکتے ہیں، جب وہ آئینی ذمے داری نبھا رہی ہے اور حکومت وقت کو برے بھلے کی تمیز سکھانے کی کوشش کر رہی ہے تو پھر وہ خاموش تماشائی کیسے ہو گئی، اس نے تو اپنا فرض ادا کر دیا۔ اس لئے خاطر جمع رکھئے کہ آنے والے الیکشن ہوں گے، بروقت ہوں گے، منصفانہ ہوں گے، غیر جانبدارانہ ہوں گے اور عوامی مینڈیٹ کے مطابق وفاق اور صوبوں کی نئی حکومتیں تشکیل پا کے رہیں گی، فوج اس راستے میں کوئی رکاوٹ نہ تو خود بنے گی، نہ کسی اور طاقت یا ادارے کو شرارت کرنے دے گی۔ فوج نے بار بار کہا ہے کہ اسے آئین اور قانون کے تحت جو بھی حکم ملے گا، وہ اس کی بجا آوری کرے گی، فوج کا یہ رویہ اس وقت ملک اور قوم کے فائدے میں ہے اور ہمیں اس صورت حال میں فوج کی ستائش کرنی چاہئے اور حالات میں گند ڈالنے کی خود بھی کوئی کوشش نہیں کرنی چاہئے، آنے والے وقت میں فوج کو کئی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اندرونی دہشت گرد ایکٹو ہو سکتے ہیں، بیرونی مداخلت کا دائرہ وسیع ہو سکتا ہے، سیاسی اور مذہبی جماعتیں غیر آئینی حربے استعمال کر سکتی ہیں مگر فوج اپنے حلف کی مکمل پاسداری اور پابندی کرے گی اور کسی دہشت گردی یا مداخلت یا شرارت کو کامیاب نہیں ہونے دے گی، فیض آباد کے دھرنے میں جب حکومت کی رٹ مفلوج ہو چکی تھی، فوج نے بدنامی مول لیتے ہوئے مداخلت کی اور امن کے لئے راستہ نکالا۔ عمران اور قادری کے طویل دھرنے کے دوران حکومت کی درخواست پر جنرل راحیل نے عمران اور قادری سے ملاقات کی۔ مگر ان دونوں کی یہ خواہش پوری نہ کی کہ امپائر کی انگلی کھڑی ہونے والی ہے، اس لئے کہ اس دھرنے کا کوئی امپائر تھا ہی نہیں، بلاوجہ آپ فوج کی طرف انگلیاں اٹھائیں تو اس کا کیا علاج۔ اب بھی جنرل باجوہ نے دو درجن سے زائد اخبار نویسوں سے بات چیت کی ہے، اگرچہ یہ بریفنگ آف دی ریکارڈ تھی مگر سینیٹ کی بریفنگ بھی آف دی ریکارڈ تھی، وہ تو حرف بحرف سامنے آ گئی، صحافی بھی ایساکام کر سکتے تھے، مگر کوئی بات ہوتی تو چھپی نہ رہتی اور باہر آ جاتی۔
تو کیایہ سمجھا جائے کہ اب ملک جمہوریت کی پٹڑی پر رواں دواں ہے۔
جنرل غلام مصطفی نے کہا کہ اب تو دس سال گزر گئے، آپ کو اس بات کا یقین کر لینا چاہئے کہ فوج کا ارادہ مارشل لا لگانے کا نہیں ہے، باجوہ ڈاکٹرائن میں اس کی ہلکی سی جھلک بھی نہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ