جو مارشل لا ہوتا ہے وہ تو لگ جاتاہے اور جو مارشل لا کا بھوت ہے وہ صرف سر پہ سوار ہوتا ہے یا اس کا ”ہوا“’کھڑا کیا جاتا ہے۔
اس ملک میں کئی مارشل لا ایسے تھے جو لگ گئے اور انہیں لگنے سے کوئی روک نہ سکا۔ ترکی والے کہتے ہیں کہ انہوں نے ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہو کر مارشل لا کو بھگا دیا۔ کبھی ہمارے ہاں بھی ایسا دیکھنے کو ملے کہ ایوب خاں مارشل لا لگائے تو کوئی بھٹو اس کا شراکت دار نہ بنے، کوئی یحیٰی خاں مارشل لا لگائے تو کوئی اسے پاکستان توڑنے کی اجازت نہ دے اور کوئی ضیا لحق مارشل لا لگائے تو کوئی چودھری ظہور الہی اس کا شراکت دار نہ بنے اور کوئی مشرف مارشل لا لگائے تو کوئی شجاعت حسین اور پرویز الہی اس کے شراکت دار نہ بنیں۔ ہمارے ہاں جب بھی مارشل لا لگتا ہے تو ہماری عدلیہ بھی اسے جائز قرار دیتی ہے اور ہماری پارلیمنٹ بھی ا سکے سب گناہ معاف کر دیتی ہے۔ ایوب خان کے مارشل لا کی تشہیر کے لئے احمد سعید کرمانی، الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب نے سرگرم کردار ادا کیا۔یحیٰی خان کے مارشل لا کو اجلا لباس پہنانے کے لئے جنرل شیر علی خان میدان میں اترا۔ ضیا الحق کے مارشل لا کو تقویت دینے کے لئے ایک میڈیا ٹولہ رات کے پچھلے پہر اسے مشوروں سے نوازتا اور ملک بھر کے لوگوں کی غیبت کرتا۔ اسی دور میں بعض نامور ایڈیٹروں کو وزیر بنایا گیا، کچھ ایڈیٹر ایسے ہیں جو اس بات پر اتراتے ہیں کہ ان کی ابھی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں کہ ضیا الحق نے انہیں وزیر بننے کی دعوت دی مگر وہ وزیر ساز بننے بن گئے ۔ مشرف کے مارشل لا کا ہیرا شیخ رشید تھا اور اس کا چہیتا عمران خان بھی مشرف کا چہیتا تھا۔ عمران نے مشرف کے ریفرنڈم میں وہی کردار ادا کیا جو وہ کرکٹ کے کپتان کے طور پر ادا کرتا رہا، اس نے ورلڈ کپ بھی جیتا اور مشرف کو بھی ریفرنڈم میں جتوایا۔ہمارے آج کے نوے فیصد سیاستدان فوجی ڈکٹیٹروں کی نرسری کی پیداو ار ہیں۔ بھٹو کی جماعت جمہوریت کی سب سے بڑی دعویدار ہے اور بھٹو نے جمہوریت کی پیٹھ میں یوں چھرا گھونپا کہ سویلین چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر کے طور پر اقتدار سنبھالا۔ اس نے جمہوریت کی ایک اور بڑی خدمت کی کہ جاتے جاتے ملک کو ایک اور طویل مارشل لا کے چنگل میں دے گیا۔ پیپلز پارٹی کی جمہوریت نواز ی کا ایک کھلا ثبوت یہ ہے کہ اس نے جنرل مشرف سے این آر او کیا۔ پیپلز پارٹی خود جو کرے اسے جمہوریت سمجھتی ہے اور دوسروں کوجمہوریت دشمنی کے لئے مورد الزام ٹھہرانے کے شوق میں مبتلا ہے۔ اسے نواز شریف کی جلاوطنی کے معاہدے پر اعتراض ہے مگر خود مشرف سے این آر او کر لے تو اسے جمہوریت کی خدمت سمجھتی ہے۔ یہ سنہری مشورہ دینے والا بھٹو ہی تھا کہ ایوب خان کی کنونشن لیگ کو مقبول بنانے کے لئے ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو اس کا سربراہ بنا دیا جائے۔ بھٹو اگر جنرل ایوب خان کو ڈیڈی کہہ لے تو کوئی بری بات نہیں، یہ تو نخرہ ہوا۔ عمران دھرنا دے کرامپائر کی انگلی کا انتظار کرے تو عین جمہوریت۔ پی ٹی وی پر قبضہ کر لے تو عین جمہوریت، پارلیمنٹ کا ناطقہ بند کرے، دارالحکومت کو مفلوج کر دے تو عین جمہوریت۔ سپریم کورٹ کی دیواروں پر شلواریں سوکھنے کے لئے لٹکا دی جائیں تو عین جمہوری عمل، غیر ملکی سفیروں کا رستہ بند کر دے تو عین پاکستان کی خدمت ۔ چین کے صدر کے دورے کو ملتوی کروا دے تو یہ سی پیک کی پیش رفت، کرپشن کے خلاف شور مچانا فیشن جبکہ عملی طور پر پارٹی کے بیس ارکان ا سمبلی رشوت لے کر سینیٹ کے لئے ووٹ دیتے ہیں۔ زرداری کو ساری عمر گالیاں دیں اور سینیٹ کے چیئر مین کے لئے زرداری کے نامزد امیدوار کو ووٹ دیں تو یہ بھی جمہوریت کی عبادت۔ چودھری سرور کو اس حال میں ٹکٹ جاری کرنا کہ پارٹی کے پا س کل ووٹ تیس تھے، ان کے ساتھ چودھری سرور کی جیت نا ممکن تھی مگر عمران نے ٹکٹ دے کر اسے چودہ ووٹوں کی خرید کا راستہ دکھایا ۔ اس چودھری سرور کے خلاف کوئی ایکشن نہیں بلکہ اسے پنجاب کا چیف منسٹر بنانے کی تیاری جاری۔ پیسہ سب کچھ کروا سکتا ہے۔ چودھری سرور برطانیہ کا ارب پتی یا کھرب پتی ہے۔ عمران کی پارٹی میں ایسے ارب یا کھرب پتی اور بھی ہیں، یہ سب جمہوریت کو بڑھاوا دیں گے ا ور غریبوں کے لئے نیا پاکستان عرف ایک پاکستان بنائیں گے۔ بائیس ہزار ایکڑ کا مالک جہانگیر ترین جلسے میں اعلان کرتا ہے کہ نیا پاکستان وہ ہو گا جس میں کوئی بڑ ا یا چھوٹا زمیندار نہیں ہو گا۔ بھٹو نے بھی یہی نعرہ لگایا تھا کہ غربت ختم کر دوں گا، اس نے غریبوں کو ختم کرنے کی کوشش کی اور وہ پارٹی جس میں کھمبے جیت گئے تھے،اس میں وڈیرے شامل کر لئے، اب تحریک انصاف بھی شامل کر رہی ہے تاکہ ملک میں جمہوریت کا راج ہو سکے۔
یہ سب کوششیں مارشل لا کا راستہ روکنے اور جمہوریت کو فروغ دینے کے لئے ہیں۔
آج ہی ایک امریکی وزیرنی صاحبہ تشریف لائی ہیں جنہوں نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ پاکستان میں جمہوریت کا فروغ چاہتا ہے، ایک زمانے میں چودھری منیر اچھرہ والے کا یہ قول بڑا مشہور ہواتھا کہ حکومت میں آنے کے لئے تین الف کی حمایت حاصل ہونی چاہئے۔ اللہ ، آرمی اور امریکہ، چلئے امریکہ نے تو جمہوری عمل کی حمایت کر دی، اب دیکھئے آرمی اور اللہ کی منشا کیا ہے۔ آرمی تو صاف کہہ چکی ہے کہ و ہ مارشل لا کے نفاذ کے حق میں نہیں مگر آئین کی با لادستی کے حق میں ہے۔ کچھ اندر کی باتیں جاننے والے کہتے ہیں کہ فوج اب مارشل لا کو ملکی مسائل کا حل نہیں سمجھتی ۔ ادھر چیف جسٹس بھی کہہ چکے کہ نہ جوڈیشل مارشل لاآئے گا نہ فوجی مارشل لا۔ اس لئے کہ فوج آئی تو سارے جج گھر چلے جائیں گے یہ جمہوریت کے لئے نیک شگون ہے کہ ماضی میں فوجی ڈکٹیٹروں کے حق میں فیصلہ دینے والی عدلیہ اب کھل کر مارشل لا کے خلاف بول رہی ہے تو بھائی اس حال میں مارشل لا کہاں سے آئے گا۔ مگر مہینوں سے افواہیں چل رہی ہیں کہ الیکشن نہیں ہوں گے۔ دو سال کے لئے کوئی ٹیکنو کریٹ حکومت آ جائے گی۔ اسے کہتے ہیں مارشل لا کا بھوت، بے پر کی اڑانے پر کوئی پابندی نہیں ، کہنے والے تو یہ بھی کہتے تھے کہ فروری نہیں آئے گا، سینیٹ کے الیکشن نہیں ہوں گے۔ اور یہ ہوجائے گا اور وہ ہو جائے گا ، حکومت اپنی ٹر م پوری نہیں کر پائے گی، ایسی ہی یا وہ گوئی زرداری کے دور میں ہوتی تھی مگر انہوں نے اپنی آئینی ٹرم پوری کی، اب بھی کچھ دن ہی باقی ہیں ، حکومت اپنی ٹرم پوری کرنے والی ہے، ساری افواہیں دھری رہ گئی ہیں اور مارشل لا کا بھوت۔ کسی کا بال تک بیکا نہیں کر سکا۔
ویسے کچھ لوگوں کے لئے مارشل لا بھی اچھا ثابت ہوتا ہے اور کچھ لوگ مارشل لا کے بھوت کا ”ہوا“ کھڑا کر کے اپنا الو سیدھا کر لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں مارشل لا سے ڈرنا چاہئے ، یا مارشل لا کے بھوت سے خوف کھانا چاہئے۔ میں بہت پیچھے نہیں جاتا ،۔ پیپلز پارٹی جمہوریت کی چیمپیئن بنتی ہے مگر اس کے لوگ پی پی پی میں ایک دو پی اور لگا کر مشرف کے وزیر بن گئے تھے، مسلم لیگ نے توق لیگ کا لبادہ پہن لیا تھا ۔اس لئے خوف مارشل لا سے نہ کھائیں، مارشل لا کی حمایت کرنے والوں سے ڈریں کہ جمہوریت کے اصل قاتل وہ ہیں وہ غاصب کے دست و بازو بن جاتے ہیں اور ملک کو دو لخت کر دیتے ہیں۔ آج کی فوج ملک کو بچانے کے لئے جانوں کا نذرانہ دے رہی ہے، وہ کیوں مارشل لا لگائے گی۔ مارشل لا آیا تویہ اکہتر کی طرح پھر سویلین ہو گا۔ روک سکتے ہو تو اس کا راستہ روکو۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ