کئی دفعہ یہ اتفاق ہوا کہ کسی دوست کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، اس کے جواب میں گھر کے آخری کمرے سے کسی آواز نے سفر کا آغاز کیا اور مختلف کمروں میں سے ہوتی ہوئی یہ آواز باہر دروازے تک پہنچتے پہنچتے بالکل نحیف ہو گئی۔اوریہ نحیف سی آواز ’’کون ہے‘‘ کے ’’ون ورڈ‘‘پر مبنی ہوتی ہے اس مبہم سی’’کون‘‘ کے جواب میں میں بھی اپنی آواز آخری کمرے تک پہنچانے کے لئے حلق کی پوری قوت سے اتنا ہی مبہم جواب دیتے ہیں ’’میں‘‘ اس پر ایک بار پھر گھر کے دوسرے کونے سے ایک آواز سفر کرتے کرتے مجھ تک پہنچتی ہے’’میں کون‘‘ جواباً میں عرض کرتا ہوں ’’میں اسلم کا دوست‘‘ اس پر پھر پوچھا جاتا ہے’’اسلم کا دوست کون‘‘ اور پھر با امر مجبوری اپنا نام بتاتا ہوں ، حالانکہ ان تمام مراحل سے گزرنے کی بجائے دروازے پر دستک ہونے پر دروازے تک جایا جا سکتا ہے اور جھانک کر دیکھا جا سکتا ہے کہ باہر کون ہے؟ لیکن ایک تو یہ طریقہ سہل بہت ہے، دوسرے اس میں دروازے تک چلنا پڑتا ہے۔ تیسرے اس میں فریقین کے لئے جھنجھلاہٹ کی گنجائش نہیں رہتی اور یوں یہ طریقہ قوم کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ ہم لوگ بنیادی طور پر مشکل پسند واقع ہوئے ہیں لہٰذا ہم لوگ اس کی بجائے
کون
میں
میں کون
اسلم کا دوست
اسلم کا دوست کون
والا پر وسیجر ہی اختیار کرتے ہیں کہ اگرچہ یہ طریقہ طویل ہے لیکن ایک دفعہ دانتوں تلے پسینہ تو آ جاتا ہے۔
یہ معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ ہم لوگ جب کسی کو فون کرتے ہیں تو اس کے لئے بھی کچھ ایسے ہی ’’مرحلہ وار پروگرام‘‘ پر عمل کیا جاتا ہے۔ یعنی ادھورا نام بتایا جاتا ہے تاکہ ایک تو ذہن پر زور ڈالنے کا موقع مل سکے اور دوسرے نہ پہنچاننے کی صورت میں مخاطب کا یہ فقرہ سنا جا سکے کہ ’’اچھا ہن پہچاندے وی نہیں‘‘ میرے ساتھ ایسے کئی دفعہ ہوا کہ میں سفر سے واپس آیا تو بیگم نے ایک فہرست مجھے تھمائی کہ ان لوگوں کے فون آئے تھے یہ فہرست لوگوں کے ناموں کی بجائے ناموں کے مخفف پر مبنی ہوتی ہے۔ذہنی آزمائش کے یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہو جاتے بلکہ ان کی رسی بہت دراز ہے یعنی مجھے جو خطوط ملتے ہیں ان میں سے بہت سے ایسے ہوتے ہیں جن میں بہت اپنائیت کا اظہار ہوتا ہے۔ اس پر میں فوراً خط کے آخری حصے تک جا پہنچتا ہوں تاکہ پتہ تو چلے کہ یہ کون دوست ہے جو اس زمانے میں اتنی محبت کا اظہار کر رہا ہے لیکن نیچے اس دوست نے اپنا نام لکھنے کی بجائے اپنے دستخط کئے ہوتے ہیں۔ اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں دستخط ہمیشہ ’’عبرانی‘‘ زبان میں کئے جاتے ہیں ۔ سو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ یہ مہربان کون ہے جو اس قدر نا مہربان ہے کہ مجھے بیٹھے بٹھائے بھنبھل بھوسے میں ڈال دیا ہے سو اس ذہنی خلفشار سے نجات پانے کے لئے موصوف کو خط لکھنا پڑتا ہے جس کے لفافے پر ان کا صرف ایڈریس لکھا جاتا ہے نام نہیں کیونکہ نام جاننے کے لئے تو خط لکھا گیا ہوتا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک بزرگ میرے دفتر آئے کام کرتے کرتے میری نظر ان پر پڑی تو دیکھا کہ وہ سیدھے کھڑے ہیں اور گردن کو ذرا خم دے کر نظریں مجھ پر جمائے زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ یوں دیکھ رہے ہیں جیسے آزما رہے ہوں کہ دیکھیں میں پہچانتا ہوں کہ نہیں میں نے انہیں غور سے دیکھا۔ ذہن پر زور دیا مگر کچھ یاد نہ آیا۔ اس پر ان کی مسکراہٹ میں اضافہ ہو گیا لیکن اب کے اس مسکراہٹ میں تھوڑا سا شرمندگی کا عنصر بھی تھا جو ایسے مواقع پر فطری طور پر محسوس ہوتی ہے بالآخر انہوں نے اپنے ہونٹ کھولے اور کہا’’آپ نے مجھے پہچانا نہیں‘‘ میں نے ندامت سے جواب دیا ’’نہیں‘‘ بولے میں 1923 میں ایم اے او کالج امرتسر میں آپ کے والد صاحب کا شاگرد تھا۔ یہ سن کر میری شرمندگی میں اضافہ ہو گیا اور میں نے جی ہی جی میں اپنے حافظے کو کوسا کہ میری پیدائش سے بھی بیس برس پہلے جو صاحب میرے والد کے شاگرد تھے افسوس میں انہیں پہچان نہ سکا۔ اس طرح کی مثالیں اور بھی بہت ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں کو پہچاننا کتنا مشکل ہے ۔ لوگ کچھ اور ہوتے ہیں میں انہیں کچھ اور سمجھ بیٹھتا ہوں اور یوں طرفین کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں ایک اور بات کا بھی پتہ چلتا ہے اور وہ یہ کہ ہم لوگ پہچان کے بحران کا شکار ہیں اور اس حد تک شکار ہیں کہ بسا اوقات اپنی پہچان کرانے کے لئے اپنی عقل گم کر بیٹھتے ہیں۔ سو گزشتہ کئی برسوں سے میرے لئے دوستوں دشمنوں کے چہرے پہچاننے مشکل ہو گئے ہیں آپ افراد کو چھوڑیں اب تو قوم کی شکل بھی نہیں پہچانی جاتی۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ