قمر رضا کے ساتھ میری رفاقت کئی عشروں پر محیط ہے ۔ میں نے اپنی کتاب ” وابستگانِ ملتان “ ملتان میں قمر رضا شہزاد کی ملتان آمد پر لکھا تھا کہ پانچ ہزار سال پرانا شہر ملتان آباد ہی قمر رضا شہزاد کے لیے کیا تھا کہ وہ آئے اور یہاں بسرام کرے ۔ قمر رضا شہزاد نے ملتان کو اپنا مسکن تو کوئی کم و بیش پندرہ برس قبل بنایا لیکن وہ پہلے بھی تو میرے نواح میں رہتا تھا ۔ ہم نے ملتان کو کبیر والا سے الگ ہی کب سمجھا تھا ۔ 1980 کے عشرے میں جب وہ ابھی لا کالج کا طالب علم تھا اس کی شامیں ہمارے ساتھ ملتان کی ادبی محفلوں میں ہی گزرتی تھیں ۔ اور اسی زمانے میں جب میں لاہور چلا گیا تو قمر رضا شہزاد ان دنوں ساہیوال میں ہوتا تھا ۔ پھرجمعہ کی ہفتہ وار تعطیل کے ساتھ وہ دو تین چھٹیاں لے کر لاہور آ جاتا تو ہم رات بھر لاہور میں اطہر ناسک ، طفیل ابنِ گل اور کبھی کبھار اختر شمار کے ساتھ شہر کی سڑکوں پر گھومتے ، مشاعروں میں جاتے ٹی ہاو¿س اور چائینیز لنچ ہوم میں منعقد ہونے والے اجلاسوں اور تقریبات میں شریک ہوتے ۔ دو تین رت جگوں کے بعد میں قمر کو شاہ نور سٹوڈیو کے سامنے ملتان روڈ سے ساہیوال کے لیے روانہ کر دیتا اور پھر اگلے ہفتے جب مجھے ملتان جانا ہوتا تو کبھی راستے میں ساہیوال اتر جاتا اور کبھی قمر سے کہتا کہ وہ ساہیوال یا خانیوال سے میرے ساتھ ریل کار میں سوار ہو جائے ۔
پھر جب قمر کی دنیا پور اور اس سے پہلے مخدوم عالی میں تعیناتی ہوئی تو وہ گھر جانے کے لیے کبیروالا براستہ ملتان کے روٹ کا انتخاب کرتا تھا ۔ ہم سارا دن کتاب نگر پر گزارتے رات کو کسی تھڑے سے آلو والی ٹکیوں کے ساتھ روٹی کھاتے اور پھر میں اسے رات گیارہ بارہ بجے کے قریب چوک کمہاراں والا جا کر کسی بس پر بٹھا دیتا ۔ ایک بار تو یوں بھی ہوا کہ ایک کار نے قمر رضاشہزاد کو دیکھ کر بریک لگائی ۔کار کا دروازہ کھلا اور آواز آئی
ٓ”آو¿ شاہ جی ہم کبیروالا ہی جا رہے ہیں “
ُُُقمر رضا شہزاد نے مجھے خدا حافظ کہا اور گاڑی میں سوار ہو گیا ۔ اگلی ملاقات پر اس نے بتایا کہ اس کار میں ایک کالعدم تنظیم کا اشتہاری موجود تھا جس کا تعلق کبیروالا ہی سے تھا ۔قمر کو یقین ہو گیا کہ وہ اس دہشت گرد کے لیے جنت کا ٹکٹ بن چکا ہے یا تو یہ لوگ اسے خود ٹھکانے لگا دیں گے یا کسی ناکے پر وہ پولیس مقابلے میں ان کے ساتھ کام آ جائے گا ۔ لیکن انہوں نے شاہ جی کو عزت و احترام کے ساتھ ان کے گھر پہنچایا ۔ دعا کی درخواست کی اور اپنے مشن پر روانہ ہو گئے ۔
ُُُقمر رضا کی خود نوشت ” اپنے نواح میں“ کے مطالعے کے دوران مجھے کئی ایسی کہانیاں یاد آ گئیں جن میں سے کچھ اس کتاب میں موجود ہیں اور کچھ ایسی ہیں جو شاید میں بھی کبھی کہیں درج نہ کروں ۔ ہم قمر رضا کو وہمی بھی کہتے ہیں ۔ وہ کسی بھی فیصلے سے پہلے شش و پنج کا شکار دکھائی دیتا ہے لیکن کرتا وہی ہے جو اس کا دل کہتا ہے ۔ ایک زمانے میں اسے بند کمرے میں سونے سے خوف آتا تھا ۔ 17 دسمبر 1997 کو کراچی میں ” دن بدلیں گے جاناں“ کی تعارفی تقریب منعقد ہوئی تو ملتان سے قمر رضا شہزاد نے میرے ہمراہ اس تقریب میں شرکت کی تھی ۔ میرا چھوٹا بھائی عامر ان دنوں کراچی میں تھا ۔ ہماری رہائش کا انتظام صدر کراچی کے ایک گیسٹ ہاو¿س میں کیا گیا تھا ۔ اس گیسٹ ہاو¿س کی بند کھڑکیوں میں قمر کا دم گھٹتا تھا ۔ ہم رات بھر جاگتے رہے تھے ۔
ایک اور واقعہ بہت دل چسپ یاد آ گیا ۔ 23 نومبر 1999 کو کراچی میں میرے دوسرے شعری مجموعے ” ستارے مل نہیں سکتے “ کی تعارفی تقریب تھی ۔ صدارت جمیل الدین عالی نے کی اس تقریب میں شرکت کے لیے بھی قمر رضا ہی میرے ساتھ کراچی گیا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میری بینائی متاثر ہوئی تھی ۔ ان دنوں اقبال ساغر صدیقی صاحب بھی کراچی میں نشید کے پاس تھے ۔ سوچا ملتان واپسی سے قبل ساغر صاحب دے بھی مل لیں ۔ 24 یا 25 نومبر کو ہماری زکریا ایکسپریس سے واپسی کی سیٹ بک تھی ۔ ہم دو موٹر سائیکلوں پر سوار تھے ۔ مزار قائد کے پاس بچے پتنگ اڑا رہے تھے ۔ ڈور میری دوسری آنکھ پربھنوووں کے اوپر پھری اور خون بہنے لگا ۔ قریب ترین ڈاکٹر کے پاس جا کر آنکھ پر تین ٹانکے لگوائے اور جب پیسے معلوم کیے تو انہوں نے ان ٹانکوں کو آپریشن قرار دے کر پانچ ہزار روپے کا بل بنا دیا وہ تو عامرکام آگیا جو ان دنوں خود بھی رینجرز میں تھا ورنہ تو ہمارا کام ہو گیا تھا ۔
قمر رضا شہزاد نے شاعری میں اپنی صلاحیتوں کا تو بہت پہلے اعتراف کرا لیا تھا لیکن نثر کی جانب وہ بعد میں آیا ۔ نثر تو وہ پہلے بھی لکھتا تھا لیکن اس نے اپنی نثر کو خود کبھی اہمیت نہیں دی تھی ۔ اب اس کی خود نوشت پڑھی تو حیران رہ گیا ۔ یہ ایک شاعر کی خود نوشت ہے ۔ اس میں شاعرانہ حسن کے ساتھ جو روانی اور بہاو¿ ہے وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ قمر کو اپنی باقی تحریروں کو بھی کتابی صورت میں محفوظ کرنا چاہیے ۔قمر کی یہ خود نوشت ہمارے زمانے کی تاریخ ہے ۔ اس میں بہت سی دلچسپ کہانیاں ہیں ، بہت سے رفتگاں ہمیں متحرک دکھائی دیتے ہیں ۔ وہ بھی جو یہ سمجھتے تھے کہ ان کے بغیر ادب کی تاریخ نامکمل رہے گی اور وہ بھی جو رفتگاں میں تو ابھی شمار نہیں ہوتے لیکن شعر و ادب کی دنیا میں وہ بہر حال قصہ¾ پارینہ بن چکے ہیں ۔ میرے پاس یہ کتاب گزشتہ کئی ماہ سے تھی ۔ بہت سے دوستوں نے اس پر بہت کچھ لکھ دیا لیکن میں اس کتاب کا مکمل مطالعہ کیے بغیر اس پر اس پر مضمون تحریر نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ اس لیے کہ میں خود بھی قمر کے نواح میں رہتا ہوں اور اس کتاب کو اپنے نواح میں ہی سمجھتا ہوں ۔