کوئی کرتا تو سہی عشق کا آغاز یہاں
اس کہانی کا بھی انجام بنا لیتا میں
اتنا بے حس تو نہ رہتا یہ مرا شہرِ جمال
اپنی چیخوں سے ہی کہرام بنا لیتا میں
۔۔
اسی لیے تو میں رہتا ہوں خود سے محوِ کلام
خداکے سامنے جا کر مجھے جھجک نہ رہے
۔۔
کتنے ہی خوبرو یہ محبت نگل گئی
میں پھر بھی اس بھٹکتی بلا کی طرف گیا
۔۔
میری آنکھوں میں آنسو نہیں تو سمجھ لیجئے
آگ روشن ہے دل میں مگر اب دھواں رک گیا
۔۔
لڑتا ہوں جس سے آخری حد تک قمر رضا
کرتا ہوں اس سے عشق بھی شدت کے ساتھ میں
۔۔
تیغ بھی پھینک چکا اور جنگ بھی ہار چکا
میں اپنا سب زندہ وقت گزار چکا
شہزادی اب کون سی شرط بقایا ہے
آگ پھلانگ چکا اور دیو بھی مار چکا
۔۔
الجھتا کیسے بھلا صاحب کلام سے میں
ڈرا ہوا تھا کہانی کے اختتام سے میں
۔۔
برا ہو جینے کے اسباب پھینک آیا ہوں
میں راستے میں ترے خواب پھینک آیا ہوں
میں عمومی طور پر کسی شعری مجموعے پر بات کرتے ہوئے اشعار کے حوالے نہیں دیتا اور پروفیسروں یا روایتی نقادوں اور تبصرہ نگاروں کی طرح کسی شاعر کے اشعار اور ان اشعار کی تشریح کی مدد سے مضمون کا پیٹ بھرنے سے گریز کرتا ہوں لیکن ” شش جہات “ کے مطالعے نے مجھے مجبور کیا کہ اپنی اس تحریر کا آغاز ہی قمر رضا شہزاد کے حیران اور مسحور کر دینے والے اشعار سے کروں اور میں نے تحریر کے آغاز میں ہی یہ اشعار اس لیے درج کر دیئے کہ پڑھنے والے میری رائے پڑھنے سے پہلے ہی ان اشعار کو پڑھ لیں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ میں جو کہہ رہا ہوں اس میں کوئی مبالغہ نہیںہے ۔
” شش جہات “ قمر رضا شہزاد کا چھٹا شعری مجموعہ ہے جو اس کے جیون کے چھ عشرے مکمل ہونے کے بعد منظر عام پر آیا ہے ۔ اس کتاب میں ہمیں ایک مختلف قمر رضا پڑھنے کو ملتا ہے ، ایک ایسا شاعر جو اپنے جیون کے سفر کے اس مرحلے میں ہے جہاں اس پر بہت سی حقیقتیں منکشف ہو چکی ہیں وہ کائنات کے شش جہات کا بھید جان چکا ہے ، سود و زیاں کے مراحل سے گزرنے کے بعد اس پر بہت سے تجربات نے زندگی اور موت کی بہت سی حقیقتیں کھول دی ہیں ۔ احساس رائیگانی تو ہم سب کو ہے مگر اس رائیگانی میں سے اپنا حاصل تلاش کرنا ہمیں نہیں قمر رضا شہزاد کو آ تا ہے ۔
قمر رضا اس کتاب میں خدا اور خود سے بیک وقت ہم کلام ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔ یہ ایک نازک سا مرحلہ ہوتا ہے لیکن اس کو نبھانا ہی شاعر کی قادر الکلامی کا ثبوت ہے ۔ قمر اب شاعری کے اس مقام پر ہے جہاں لفظ ، ان کے معانی اور مضامین اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں ۔ وہ جس لفظ کو جو معانی دیتا ہے لفظ ان معانی کو کسی مزاحمت کے بغیر قبول کرلیتا ہے ۔ ” شش جہات “ در اصل معلوم سے نامعلوم، موجود سے ناموجود اور آغاز سے انجام کے سفر کی کہانی ہے لیکن اس کہانی کا کمال یہ ہے کہ یہ معلوم و نا معلوم ، موجود و ناموجود اور آغاز و انجام کی تفریق بھی ختم کردیتی ہے ۔ یہاں انجام کہیں کہیں آغاز سے بھی پہلے کا سفر محسوس ہوتا ہے ایک ایسے جہان کا سفر جو ایک شاعر ہی اپنی قوت متخیلہ کے زور پر دیکھ سکتا ہے ۔ یہ کتاب ظاہر کرتی ہے کہ اس کا تخلیقی سفر پوری قوت کے ساتھ جاری ہے اور آنے والے دنوں میں ہمیں اس کا وہ بہت سا کلام بھی پڑھنے کو ملے گا جو زیر طبع ہے اور جن میں اب اس کی نثری نظمیں بھی شامل ہیں اور جن کی اشاعت کے بعد وہ لوگ منہ چھپاتے پھریں گے جنہوں نے چند برس قبل یہ اعلان کیا تھا کہ قمر رضا شہزاد تخلیقی بانجھ پن کا شکار ہو گیا ہے ۔ قمر تمہاری صحت وسلامتی کے لیے بہت سی دعائیں ۔
( بشکریہ : روزنامہ سب نیوز اسلام آباد)