ناروے کے سب سے بڑے اخبار وے گے نے ایک ایسی خبر پر تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس کا تعلق براہ راست پاکستان میں نظام حکومت اور سیاسی معاملات سے ہے۔ اس رپورٹ میں اس خبر کو بنیاد بنایا گیا ہے جو چند ہفتے پہلے ایوان صدر اسلام آباد کے ایک اعلامیہ کے بعد سامنے آئی تھی۔ اس خبر کے بارے میں ناروے کی پاکستانی کمیونٹی حیران و ششدرہے کہ کسی ایسے شخص کو بھی پاکستان کا دوسرا بڑا سول اعزاز دیاجاسکتا ہے جو ناروے کے علاوہ سوٹزرلینڈ میں دھوکہ دہی اور فراڈ کے مقدموں میں مطلوب رہا ہے۔
یوم آزادی پر دیگر متعدد لوگوں کے علاوہ عمر فاروق ظہور کو بھی ہلال امتیاز عطا کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ یہ تمغہ انہیں صدر پاکستان آصف زرداری بنفیس نفیس ایوان صدر میں 23 مارچ کو منعقد ہونے والی تقریب میں عطا کریں گے۔ یوں تو یہ امر خوشی و مسرت کا سبب ہونا چاہئے کہ بیرون ملک مقیم کسی پاکستانی نژاد شخص کو کسی اعزاز یا تمغے کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح بیرون ملک پاکستانیوں کی قدر افزائی کا تاثر عام ہوتا ہے کیوں کہ پاکستان موجودہ دگرگوں معاشی صورت حال میں بڑی حد تک بیرون ملک سے بھجوائی جانے والی ترسیلات زر کا محتاج ہے۔ 30 ارب ڈالر سالانہ کے لگ بھگ یہ رقم پاکستان کی اپنی قومی براآمدات سے زیادہ ہے اور پاکستان کو بیرونی قرض چکانے کے لیے اس گراں مایہ زرد مبادلہ کی شدید ضرورت رہتی ہے۔ اسی لیے پاکستانی حکومت بھی وقتاً فوقتاً بیرون ملک پاکستان کا نام اونچا کرنے والے افراد کو اعزاز دے کر ان کی خدمات کا اعتراف کرکے تارکین وطن پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بنتی ہے۔
اس حد تک تو بات قابل فہم ہے لیکن عمر فاروق ظہور کو یہ اعزاز دینے سے نہ صرف بیرون ملک محنت و دیانتداری سے روزگار حاصل کرنے والے لوگوں کی توہین کی گئی ہے بلکہ پاکستان کی رہی سہی عالمی شہرت کو بھی داغدار کیا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ اس قسم کا اعزاز دینے سے پہلے صدر پاکستان یا حکومت کو ناروے میں پاکستانی سفارت خانے سے کسی قسم کی معلومات حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔ یا اسلام آباد میں امور مملکت دیکھنے والے لوگوں کو اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی ۔ یہ کہنا تو مشکل ہے ایک بار کسی فرد کو قومی اعزاز دینے کا اعلان کرنے کے بعد یہ فیصلہ کس حد تک پتھر پر لکیر ہوتا ہے لیکن اگر پاکستانی حکام تک آج کے وے گے میں چھپنے والی رپورٹ پہنچ سکے اور گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ناروے میں آباد پاکستانیوں میں ہونے والی چہ میگوئیوں کی تفصیل جانی جاسکےتو کسی اور کو نہیں تو انصاف اور قانون کے نام پر کم از کم صدر پاکستان کو ذاتی طور پر اس معاملہ کی تحقیق کروانے اور ایسا ناجائز اور غیر معقول فیصلہ واپس لینے کے لیے اقدام کرنا چاہئے ۔کیوں کہ عمر فاروق ظہور کے پورے خاندان کا تعلق ناروے سے ہے اور وہ خود 2010 تک ناروے میں مقیم تھا۔ البتہ 6 کروڑ کرونر کے لگ بھگ غبن اور دھوکہ دہی کے ایک معاملہ میں ملوث ہونے کی وجہ سے پولیس کی حراست سے بچنے کے لیے وہ ملک سے فرار ہوگیا تھا۔
عمر فاروق نے اس کے بعد سے دوبئی کو اپنا ٹھکانہ بنایا ہؤا ہے۔ پاکستان کے قومی میڈیا میں ان کا نام گزشتہ سال نومبر میں اس وقت سامنے آیا تھا جب انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ جس سعودی گھڑی فروخت کرنے پر سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس بنایا گیا ہے، اسے انہوں نے بشریٰ بی بی کی دوست فرح خان سے خریدا تھا۔ ان کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ یہ رابطہ کاری عمران خان کی حکومت میں احتساب کے مشیر شہزاد اکبر نے کروائی تھی۔ پاکستان کے صدارتی اعلان میں عمر فاروق کو ہلال امتیاز دینے کی خبر دیتے ہوئے ان کی سماجی خدمات کا حوالہ دیا گیا ہے لیکن ان خدمات کی تفصیلات سامنے نہیں آسکیں ۔ البتہ یہ قیاس آرائیاں ضرور سننے میں آئی ہیں کہ انہیں یہ اعزاز توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے خلاف ’گواہ‘ کے طور پر سامنے آنے اور یہ اعتراف کرنے پر دیا گیا ہے کہ انہوں نے فرح خان سے وہ سعودی گھڑی دو ملین ڈالر میں خریدی تھی۔ پاکستان میں چونکہ معاملہ کی تہ تک پہنچنے کی بجائے وقتی سنسنی خیزی پر ہی توجہ مرکوز رہتی ہے، اس لیے کسی حکومتی یا صحافتی ذریعہ نے اس بات کے شواہد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی کہ عمر فاروق نے اگر وہ گھڑی خریدی تھی تو وہ اب کہاں ہے۔ کچھ تصاویر ضرور سامنے آئی تھیں لیکن انہیں تحفے میں دی گئی گھڑی کی ملکیت کا حتمی ثبوت مان لینا آسان نہیں ہے۔ خاص طور سے جب ا س معاملہ میں عمر فاروق جیسا نوسر باز ملوث ہو۔
ویسے تو یہ معاملہ اس لحاظ سے بھی باعث تشویش و پریشانی ہے کہ ایک سابق وزیر اعظم کو بدنام کرنے اور ان کے خلاف ایک کمزور مقدمہ کے بارے میں میڈیا میں تاثر قائم کرنے کے لیے پاکستانی میڈیا اور حکومتی اہلکار، عمر فاروق کی شہرت کے لوگوں کو استعمال کرتے ہیں۔ پھر اس خدمت کے انعام میں اسے اعلیٰ سرکاری اعزاز سے نوازنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ البتہ اگر یہ معاملہ محض دھوکے باز ی اور فراڈ و غبن میں ملوث عمر فاروق تک ہی محدود ہوتا تو بھی شاید عالمی میڈیا اس پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہ کرتا ۔لیکن اس معاملہ میں عمر فاروق کا معاملہ ناروے میں ایک حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے جس میں 2010 کے دوران ایک امیر نارویجین خاتون کے اکاؤنٹ سے 6 کروڑ کے لگ بھگ نارویجین کرونر دھوکہ دہی سے دوبئی کے مختلف اکاؤنٹس میں منتقل کرائے گئے۔ نارویجین پولیس کا خیال ہے کہ اس میں عمر فاروق اہم ملزم کے طور پر ملوث تھا لیکن وہ پولیس کی گرفت میں نہیں آسکا بلکہ گرفتاری سے پہلے ہی فرار ہوگیا تھا۔ البتہ ناروے میں اب بھی اس پر اس الزام میں مقدمہ قائم ہے اور اسے مفرور ملزم کی حیثیت حاصل ہے۔ 2010 اور بعد کے سالوں میں اس بہت بڑی دھوکہ دہی کی واردات کے بارے میں تسلسل سے خبریں آتی رہی ہیں ۔ ان خبروں میں یہ ساری معلومات سامنے آئی تھیں کہ ناروے کے علاوہ سوٹزرلینڈ سے فراڈ کے ذریعے کثیر رقوم ہتھیانے کے بعد عمر فاروق ایک معزز کاروباری کے طور پر دوبئی میں مقیم ہیں جہاں سے وہ متعد دملکوں کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔ دوبئی میں قیام کے دوران انہوں نے پاکستانی حکام سے بھی قریبی تعلقات استور کیے ہیں۔ حتی کہ اپنی سابقہ بیوی کے ساتھ بچوں کی سپردگی کے ایک معاملہ میں پاکستان نے ان کے ریڈ وارنٹ بھی جاری کیے تھے لیکن تحریک انصاف کے دور میں حکام نے یہ وارنٹ واپس لینے کی کارروائی مکمل کی تھی۔ عمر فاروق کا تحریک انصاف کی حکومت کے دوران اعلیٰ سطح پر فائز لوگوں سے قریبی رابطہ تھا البتہ گزشتہ سال توشہ خانہ کیس میں گھڑی خریدنے کا انکشاف کرتے ہوئے انہوں نے یہ تعلقات ختم کرلیے تھے۔
ناروے کی سپریم کورٹ عمر فاروق کو دھوکہ دہی کے مقدمہ میں گرفتار کرنے کا حکم دے چکی ہے اور ناروے نے اسے مفرور قرار دیا ہے۔ وے گے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وکیل استغاثہ کارل گراف ہارٹ مان کے مطابق عمر فاروق 60 ملین کرونر فراڈ کیس میں مطلوب ہے۔ نارویجین حکام طویل عرصہ سے اسے گرفتار کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ پاکستان یا دوبئی کے ساتھ ملزموں کے تبادلہ کا معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے عمر فاروق کو گرفتار کرکے کسی نارویجین عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا جاسکا۔ وے گے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عمر فاروق دوبئی میں قیام کے دوران بھی دھوکہ دہی میں ملوث رہا ہے۔ اس بارے میں گیس ٹربائنز فروخت کرنے کے ایک اسکینڈل کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کووڈ۔ 19 کی وبا کے شروع میں ایک غریب افریقی ملک کو کرونا ویکسین مہنگے داموں فروخت کی تھی۔ اخبار کے بقول عمر فاروق ظہور کے پاس لائبیریا کا ڈپلومیٹک پاسپورٹ بھی ہے۔
2003 میں عمر فاروق کو اوسلو میں اپنی ٹریول ایجنسی کے ٹکٹوں میں غبن کے الزام میں ایک سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس مقدمہ میں اوسلو کی ایک عدالت نے کہا تھا کہ وہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دھوکہ دہی کے مرتکب ہوئے تھے۔ اس وقت بھی عمر فاروق عدالت میں پیش نہیں ہوئے بلکہ ایک خط میں عدالت سے مقدمہ کی کارروائی ملتوی کرنے کی درخواست کی۔ اس خط میں عمر فاروق نے بتایا تھا کہ وہ اس وقت سوٹزرلینڈ میں ہیں جہاں وہ بعض بنکوں سے تجارتی معاملات پر بات چیت کررہے ہیں۔ وہاں وہ 2004 میں متعدد لوگوں سے دھوکہ دہی سے 20 ملین ڈالر ہتھیانے کے الزام میں سوس حکام کو مطلوب تھے لیکن وہ وہاں سے بھی قبل از گرفتاری فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ البتہ سوٹزرلینڈ میں ان کے ’تجارتی ساتھی‘ کو 2006 میں زیورچ کی ایک عدالت نے 3سال 6 ماہ قید کی سزا دی تھی۔ سوٹزرلینڈ کے حکام انہیں گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔ 2019 میں یہ معاملہ زائدالمدت ہونے کی وجہ سے ختم کردیا گیا۔
عمر فاروق نے ناروے میں 2003 کے دوران ملنے والی قید کی سزا کبھی نہیں بھگتی۔ ناروے کے قانون کے مطابق دس سال گزرنے پر یہ سزا از خود تحلیل ہوگئی ہے۔ اس دوران پولیس انہیں گرفتار نہیں کرسکی۔ عمر فاروق کا ہمیشہ دعویٰ رہا ہے کہ انہوں نےکبھی کوئی قانون شکنی نہیں کی۔ ناروے میں ان کے وکیل اوئیستان ستوروک نے وے گے کو بتایا ہے کہ عمر فاروق کے خلاف مقدمہ بہت پرانا معاملہ ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ اسے ختم کروا یا جائے۔ تاہم وہ کبھی ناروے یا سوٹرزرلینڈ کی کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ نارویجین اخبار وے گے کی رپورٹ میں یہ دلچسپ اطلاع بھی شامل کی گئی ہے کہ گزشتہ سال عمر فاروق کو ایک چھوٹے سے افریقی ملک اکواٹوریل گنی کے 82 سالہ صدر اوبیانگا مباسوگو نے بھی اعزاز اور میڈل عطا کیا تھا۔ مباسوگو 60 سال سے اپنے ملک پر حکومت کررہے ہیں۔ تیل کی دولت سے مالامال اس ملک کے عوام نہایت غربت کی زندگی گزارتے ہیں لیکن ان کے معمر صدر کی ذاتی دولت کا تخمینہ 6 ارب کرونر ہے۔ اس طرح ان کا شمار دنیا کے امیر ترین سربراہان مملکت میں ہوتا ہے۔ عمر فاروق کو اعزاز دیتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ انہوں نے ملک میں 500 ملین کرونر کی سرمایہ کاری کے لیے معاونت کی تھی
ناروے میں بنک کے ساتھ دھوکہ دہی کے معاملہ نے بیس سال پہلے اس حد تک شہرت اور عوامی توجہ حاصل کی تھی کہ دو نارویجین صحافیوں رولف ویدروئے اور ہنس پیٹر اوس نے 2014 میں دھوکہ دہی کے اس اسکینڈل پر ’بغاوت‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ اس میں عمر فاروق اور اس کے ساتھیوں کے جرائم کی تفصیلات شامل کی گئی ہیں اور بتایا گیا تھا وہ کیسے دوبئی میں دھوکہ دہی سے حاصل کی ہوئی دولت کے سہارے پر تعیش زندگی گزار رہا ہے۔
یہ سارے ثبوت اور دستاویزات سامنے ہونے کے باوجود حکومت پاکستان عمر فاروق کے ہتھکنڈوں اور ماضی کی کارستانیوں سے ’بے خبر‘ رہی یا خیر سگالی کے غیر معمولی اظہار کے لیے اسے ہلال امتیاز دے کر یہ اعلان کیا گیا ہے کہ ’چوری چکاری میں ملوث ہیں تو کیا ہؤا، ہیں تو ہمارے لوگ‘۔ اس طرز عمل ، حکومت کی ایسی ہی غفلت اور کوتاہ نظری کی وجہ سے پاکستان کو دنیا کے ہر پلیٹ فارم پر مشکوک سمجھا جاتاہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ