نام ور کالم نگار ، سفر نگار ، محقق ، ماہر قانون اور دانش ور شاہد راحیل خان کا پہلا شعری مجموعہ اشاعت کے مراحل میں ہے اور اسی ہفتے احباب کو دستیاب ہو گا ۔ 128 صفحات پر مشتمل اس مجموعہ غزل کی قیمت 800 روپے ہے اور گردو پیش سے براہ راست خریدنے والوں کو یہ رعایتی نرخوں پر دستیاب ہو گا ۔ اس کتاب کا دیباچہ نام ور شاعر ، ماہر تعلیم اور نقاد ڈاکٹر محمد امین نے تحریر کیا ہے جب کہ پیش لفظ میں صاحب کتاب نے خود اپنے ادبی و شعری سفر کا احوال بیان کیا ہے ۔۔ یہاں ہم شاہد راحیل خان کا پیش لفظ آپ کی نذر کرتے ہیں ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہتے ہیں کہ شاعر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ہم اپنے بارے میں یہ کہیں گے کہ شعر کہنے کا ذوق تو ہے مگر مشاعرے پڑھنے کا شوق نہیں۔ایسا نہیں کہ مشاعرہ کبھی نہ پڑھا ہو۔سن ستر کی دہائی پہلے سول لائنز کالج اور پھر بوسن روڈ کالج کا دور۔انٹر کالج مشاعروں میں مسعود کاظمی مرحوم کے ساتھ شرکت زمانہ طالب علمی کا قصہ ہے۔وہ فیض احمد فیض احمد ندیم قاسمی احسان دانش استاد دامن ساحر لدھیانوی ساغر صدیقی ناصر کاظمی عبدالحمید عدم ابن انشا حبیب جالب جمیل الدین عالی مصطفیٰ زیدی ڈاکٹر کمال امروہوی نسیم لیہ رشید قیصرانی اور ایسے ہی اور بہت بڑے بڑے ناموں کا دور تھا اور ہم اس زمانے کے ہر رومان پرور نوجوان کی طرح مداح تھے ساحر لدھیانوی کے۔ساحر کی نظم تاج محل ہمیں اپنی ” ممتاز” کے حوالے سے بہت پسند تھی۔دراصل ساحر لدھیانوی کا کلام ہم جیسے رومان پسند تہی دست و فاقہ مست نوجوانوں کا ترجمان سمجھا جاتا تھا۔ملتان کے شعری افق پر اس دور میں حیدر گردیزی پروفیسر عاصی کرنالی پروفیسر اسلم انصاری ارشد ملتانی وحشت ملتانی حسین سحر اقبال ارشد کرامت گردیزی منیر فاطمی عبدالرحیم رند اور دیگر کئی ستارے جگمگا رہے تھے۔
پھر سن 1973 فروری کے ایک دن ہمیں بینک میں ملازمت کی پیشکش ہوئی تو نوکری کی ضرورت ہر شوق پر غالب آ گئی اور ہم ایک کاغذ جس پر ہماری تعیناتی کا حکم درج تھا لے کر ملتان کو الوداع کہتے ہوئے چشتیاں روانہ ہو گئے۔
32سال بعد قریہ قریہ بستی بستی خاک چھان کر سن 2005 میں واپسی ہوئی تو حسن اتفاق سے سینئر پوزیشن میں اسی عمارت اور آفس میں تعینات ہوئے جہاں سے 32سال پہلے ایک جونیئر پوزیشن پر تعیناتی کا حکم لے کر چشتیاں گئے تھے۔
اس طویل عرصے میں شاعری تو شجر ممنوعہ کی مانند رہی البتہ نثر سے رشتہ کبھی منقطع نہ ہونے دیا۔
ایک طویل مدت کے بعد ملتان میں پرانے دوستوں سے میل ملاپ شروع ہؤا جن میں مسعود کاظمی بھی شامل تھے جو اس وقت تک مرحوم نہیں ہوئے تھے وہ ہمیں سخن ور فورم کی ادبی بیٹھک تک لے گئے، جہاں رضی الدین رضی اور شاکر حسین شاکر جیسے ادب نواز عزت افزائی کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزائی کے لئے موجود تھے۔لہٰذا شعر و ادب سے ٹوٹا ہوا سلسلہ پھر سے بحال ہونے لگا۔
آپ کے ہاتھوں میں ” دہلیز پہ آنکھیں ” کے نام سے یہ مجموعہ غزلیات اسی ٹوٹے ہوئے سلسلے کی بحالی کی طرف ایک قدم ہے۔
یہ پہلا قدم ہے۔یہ سفر جاری رکھنے کے لئے ہم آپ کی رائے کے منتظر رہیں گے۔
فیس بک کمینٹ