کہتے ہیں کہ امید پر دنیا قائم ہے اور زندگی زندہ دلی کا نام ہے مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ ہر نئے سال کی طرح ہم نے بھی نئے عیسوی سال سے بہت سی اُمیدیں باندھ لی ہیں حکومتی پنڈتوں اور سیاسی جوتشیوں نے بھی بہت سے نجومیوں کے کہنے پر اس سال کو اچھا قرار دیا ہے۔ گزشتہ سال تو کرکٹ کے ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ کی طرح پلک جھپکنے میں گزر تو گیا مگر اس نے گرگٹ کی طرح کئی رنگ بدلے اور بہت سوں کے رنگ میں بھنگ بھی ڈال گیا۔ اب نئے سال کے لیے بھی سبھی پرامید بھی ہیں اور دعاگو بھی۔حکومتی ٹیم اپنے کپتان کی منصوبہ بندی اور حکومتی اہداف کے حصول کیلئے پرعزم ہے تو پی ڈی ایم اتحادحکومت کا بوریا بستر گول کرنے کے دعوے کر رہا ہے۔ جہاں حکومتی وزراء اور مشیروں کے بیانات پر لے دے ہوتی ہے وہاں اپوزیشن کے بلند بانگ دعوؤں پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ کچھ بیانات تو واقعی قابل ذکر اور قابل توجہ ہوتے ہیں۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن جو کسی نہ کسی طریقے سے حکومت میں شامل ہونا چاہتے ہیں آج کل لفظوں کی خوب گولہ باری کر رہے ہیں جبکہ حکومتی ایوانوں میں دوبارہ داخل ہونے والے کئی سیاسی لیڈر بھی اپنے مخالفین سے بھائی چارہ کی مثال قائم کئے ہوئے ہیں بلکہ آگ اور پانی کے ملاپ کو بھی ممکن بنانے پر تلے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ محترمہ مریم نواز کا کہنا ہے کہ مولانا حکم کریں تو وہ عوام کا رخ اسلام آباد کی طرف موڑ دیں گی ۔
ہمارا یہ بھی قومی المیہ ہے کہ ہماری مذہبی اور اسلامی منشور کی دعوے دار سیاسی جماعتیں بھی اسلام سے زیادہ اسلام آباد میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں لہٰذا سبھی اپنا اپنا اسلام آباد مضبوط بنانے کی فکر میں لگی ہیں۔ کبھی اسلام آباد لانگ مارچ کی بات ہوتی ہے تو کبھی اسلام آباد میں دھرنے کی محترمہ کی اس بات میں وزن ہے کہ وہ اپنے اشارہ ابرو سے عوامی جذبات کے دھارے کو جہاں اور جیسے چاہیں موڑ سکتی ہیں۔ مولانا بھی میدان سیاست کے پرانے اور گھاک سیاست دان ہیں لہٰذا وہ لفظوں کی گولہ باری کے لیے تو تیار ہیں لیکن اسلام آباد پر بلوے کا الزام اپنے سر لینے اور بندوق چلانے کیلئے اپنا کندھا استعمال کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔۔ کاش ہمارے حکمران اور سیاست دان اس سال کو عوامی سال قرار دیتے ہوئے عوام کو بے روزگاری، مہنگائی اور دیگر مسائل سے نجات دلائیں اور محض اپنے مفادات پر قوم کو قربان کرنے کا پروگرام کچھ عرصے کیلئے ہی سہی ملتوی کر دیں۔
کرونا کی وبا کی دوسری خطرناک لہر سے نبٹنے کیلئے بھی حکومتی سیاسی اور عوامی سطح پر کوششوں کی ضرورت ہے۔ عوام تک ویکسین کی فوری فراہمی کے اقدامات بھی کرنا ہوں گے مختلف اداروں سے ملازمتیں ختم کرنے کی بجائے نئی ملازمتوں کی فراہمی، روزگار کے مواقع اور بے گھروں کے لیے گھروں کی تعمیر حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہئیں۔ سرکاری اور نجی اداروں میں بیٹھے سفید ہاتھیوں کی بجائے تمام ملازمین کے مفادات کا خیال رکھا جائے۔ وزراء کی وزارت کو ان کی کارکردگی سے مشروط کیا جائے جبکہ اداروں کے سربراہان کی کارکردگی جانچنے کا معیار بھی کڑا رکھا جائے۔
زینب کیس، سانحہ ساہیوال، لاہور موٹروے اور اب سانحہ اسلام آباد جیسے واقعات عدلیہ،قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خود حکومت کیلئے قابل تشویش بلکہ ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں ایسے واقعات سے عوامی غیض و غضب ہی نہیں بلکہ قدرت کے غضب کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے ایسا نہ ہو کہ ایسے ہی کسی سانحہ کے کسی بے گناہ کی عرش پر پہنچنے والی صدا حکومت کے خاتمے کا باعث ہی نہ بن جائے گڈ گورننس اور امن و امان کے قیام کے لیے حکومت کو اپنی رٹ قائم کرانا ہو گی اور ریاست کے اندر موجودہ ریاست یا دیگر قوتوں، قانون شکنوں اور مختلف مافیا کو نکیل ڈالنا ہو گی بصورت دیگر ملکی نظام اسی طرح انحطاط پذیر ہوتا جائے گا اور گورنمنٹ کی رٹ بھی برقرار نہیں رہے گی۔
اپوزیشن بھی اپنی کارکردگی بہتر بناتے ہوئے موجودہ حکومت کی آئینی مدت کے خاتمے کا انتظار کرے۔ حکومت اور اپوزیشن عوام کو لالی پاپ سے بہلانے کی بجائے اپنی اپنی کارکردگی بہتر بنائیں اور پارلیمنٹ کو قانون سازی کیلئے استعمال کیا جائے۔ حکومتی عہدے داروں اور مختلف اداروں کے سربراہوں کے پروٹول اور میڈیا پر تشہیر کی بجائے اگر عوامی مسائل کے حل کرنے اور عوام کو انصاف کی فراہمی پر توجہ دی گئی تو یقینا یہ سال اور آنے والے سال عوام کیلئے بھی اچھے ثابت ہوں گے اور حکومتیں بھی اپنے اقتدار کے مزے لوٹیں گی اور عوام بھی چین کی زندگی گزار سکیں گے۔
پھر نیا سال نئی صبح نئی امیدیں
اے خدا خیر کی خبروں کے اُجالے رکھنا