بھارت میں مقیم معروف شاعر اخلاق بندوی کا شعری مجوعہ ’لمس‘ عزیز الدین خان خضری کے توسط سے ڈاکیے نے راقم الحروف تک پہنچایا۔ اخلاق صاحب براہِ راست کتاب ارسال نہ کر پائے کیونکہ پچھلے کچھ عرصے سے ہندوستان اور پاکستان کے مابین کشیدگی کے باعث ڈاک کی سہولت بھی معطّل ہے۔
یہ دیوان (لمس) ڈاکٹر محمد طاہر (شبلی نیشنل کالج، اعظم گڑھ) نے ترتیب دیا جبکہ المعروف ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی، بندی کلاں، (اعظم گڑھ) یو پی الہند نے اِسے شائع کِیا۔
ہمارے ہاں کتابوں کے حرفِ آغاز یا پیشِ لفظ یا عرضِ مصنف جیسے قیمتی اور فرسٹ ہینڈ ماخذ عموماً شکریوں اور خوشامدوں کے بار تلے دب جاتے ہیں جس سے ادب کی حس کو ناقابلِ بیان ٹھیس پہنچتی ہے۔ جو لوگ مغربی ادب سے وابستگی رکھتے ہیں وہ مقدمے کی اہمیّت سے بخوبی آگاہ ہوں گے۔ مصنف کے اپنے لکھے مقدمے اور اُسی مصنف پر سند کے حصول کی خاطر تحقیقی مقالے کے طور پر لکھے گئے مقدمے میں بہرحال واضح فرق ہوتا ہے۔ مصنف کا اپنا مقدمہ اُس کے متن پر تنقید کا نقشِ اوّل ہوتا ہے اور بھرپور انداز میں ادبی تفہیم کی صلاحیتوں کی نشو نما کرتا ہے۔ مصنف کا اپنا مقدمہ ناقد و قاری دونوں کے لئے یکساں مفید ہے اور اِن دونوں صورتوں میں اِس کی اہمیّت مسلّم ہے۔ اردو کی پہلی باقاعدہ نظری و عملی تنقیدی دستاویز حالی کی ’مقدمہء شعر و شاعری‘ بھی بنیادی طور پر ایک عرضِ مصنف ہی تھی جو ولیم ورڈزروتھ کے مقدمے سے متاثر ہو کر وجود میں آئی اور اِسے علیحدہ تصنیف کا درجہ ملا ورنہ تو اِس مقدمے کی حیثیت ایک شعری مجموعے کے حرفِ آغاز سے کچھ بھی بڑھ کر نہیں تھی۔
اوپر کی گئی بحث سے یہ قطعاً مراد نہیں لینا چاہیے کہ میں نے ہر مقدمے میں تصنیف کی صفات کا حامل ہونا مقدمہ نگاری کا معیار قرار دے دیا ہے۔ نہیں! ہرگز نہیں! ایک چیز دوسری چیز کا ہوبہو تو بن سکتی ہے مگر وہی پہلی چیز کبھی بھی نہیں بن سکتی، چنانچہ اُس کو دیکھنے یا پرکھنے کے لئے ایک بالکل نیا اندازِ نظر درکار ہے، کیونکہ سب کو پرکھنے کے لئے ایک ہی کسوٹی کا فارمولا ہر طرح سے ناجائز ہے، جس سے منافع بخش نتائج اخذ کرنا وقت کی بربادی ہے۔ ہمارے دور میں سنجیدہ قارئین و سامعین ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے ہیں، یا کسی خوش نصیب مصنف کو چند قارئین و سامعین میسّر آ بھی جائیں تو اُن کے خمیر میں ادبی ذوق شامل ہونا شاذ ہی دکھائی دیتا ہے۔ بعضوں کے نزدیک تو یہ صدی کتابوں کی ہارڈ کاپیوں کی آخری صدی ہے، اگلی صدی میں سبھی زبانوں کے متون سافٹ کاپیوں کی شکل میں انٹرنیٹ پر ہی دستیاب ہوا کریں گے۔ پبلشر حضرات کو اِس پیش گوئی سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی نسلوں کو نصیحت کرنی چاہیے کہ وہ اجداد کا یہ سو پشتی پیشہ ترک کر کے کوئی مناسب کام ڈھونڈ لیں اور یہ حضرات بہ ذاتِ خود اردو کے بے چارے غریب ادیبوں کی جانب نظرِ کرم فرمائیں تاکہ خود کو پاپ سے پوتر کرنے کی کوئی صورت نکال پائیں۔
اخلاق صاحب نے مقدمے کا آغاز اپنے آبائی وطن کے مختصر تعارف سے کیا ہے۔ تارٰیخی معلومات میرے لیے ہمیشہ سے ہی دلچسپی کا باعث رہی ہے۔ اور تاریخی تحریر پڑھ کر مجھے کبھی بھی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوئی جیسی کہ فلسفیانہ یا مولویانہ تحریریں پڑھ کر ہر بار محسوس کرتا ہوں، اِس لیے مقدمے کا آغاز خاصا دلچسپ رہا۔ اعظم گڑھ کی مختصر تاریخ بیان کرنے کے بعد مصنف نے اعظم گڑھ کے علمی و ادبی ماحول پر روشنی ڈالی ہے، اگر کوئی شخص کسی اعظم گڑھی سے شناسائی نہیں رکھتا اور اردو ادب سے متعلق ہونے کا دعویدار ہے تو اُس کی حالت قابلِ رحم ہے۔ میرے جتنے بھی اعظم گڑھی شاعر دوست ہیں سبھی میں وہ خصوصیات ہیں کہ رشک آتا ہے اور تقریباً سبھی نے کشادہ دلی سے ادبی معاملات میں میری رہنمائی بھی کی ہے۔ اِس لئے میں تو مصنف کے اِن خیالات سے متّفق ہوں جب وہ کہتے ہیں کہ:
”۔۔۔کچھ لوگوں نے تبدیلیِ وقت کے ساتھ اپنا رجحان بدلا، نئے سرے سے اپنی ترجیحات طے کیں، زمین پر ہل چلانے کے بجائے کاغذ پر قلم چلانے کو ترجیح دی اور علم و دانش کی فصلیں اُگائیں۔۔۔“
اخلاق صاحب نے مقدمے کے اِس حصّے میں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے حالات مختصراً بیان کیے ہیں۔ یہ حالات جتنے بھی بیان کیے جائیں، اِن کے بیان میں تشنگی ضرور باقی رہ جاتی ہے کہ شب و روز کا ایک مختصر سی تحریر میں احاطہ کرنا انسان کے بس کا روگ ہی نہیں ہے تاہم انسان کوشش ضرور کرتا ہے کہ وقت کے قوی ہیکل جن کو عمل کی Regular بوتل میں قید کر کے اِس بوتل کو آسودگی کے ڈھکّن سے بند کر دے۔ افسوس کہ آسودگی جسے کہتے ہیں اُس کا وجود عنقا ہے۔ یہ دنیا فانی ہے اور آپ کی، میری، بادشاہوں کی، فقیروں کی غرضیکہ ہر چیز کی گھٹّی میں فنا شامل ہے۔ یہ نقش ازل سے فریادی رہے ہیں اُس شوخ تحریر والے کے جو نہ تو جنا گیا ہے اور نہ ہی اُس نے کسی کو جنا ہے۔
مقدمے کے آخری حصّے میں اخلاق صاحب کا جو موضوع رہا ہے اُس کو بنیاد بنا کر اِس حصّے کو وجہِ تصنیف قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ حصّہ اُن کے کلام کی بہتر تفہیم کرنے کے سلسلے میں کلیدی حیثیّت رکھتا ہے۔ اخلاق صاحب نے برے مربوط انداز میں اپنی زندگی کا خاکہ کھینچنے کی کوشش کی ہے تاہم بعض اہم معلومات فراہم نہیں کر پائے، جو کہ کل اُن کے کلام پر تحقیق و تنقید کرنے والے طالب علم کے لیے بنیادی سوالات اٹھائے گی۔ میں یہاں اِس امّید کے ساتھ چند ایک ایسے پہلوؤں کی نکات کی شکل میں نشاندہی کرنے جا رہا ہوں کہ بارِ دوم میں اخلاق صاحب تصحیح و اضافے سے یہ کسر بھی نکال دیں:
1۔ مقدمے میں اپنی تاریخِ پیدائش کا ذکر نہیں کیا گیا۔ یہ ناگزیز معلومات ہے اور خود اپنی تاریخِ ولادت کا ذکر کرنا بعد میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کو زائل کر دیتا ہے۔
2۔ اپنے بھائی، بہنوں کی تعداد اور بڑے چھوٹے کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔
3۔ تعلیمی کامیابیاں، شادی اور سلسلہ معاش سے وابستگی کے سلسلے میں اہم سنین درج نہیں کئے گئے۔ اِن سنین کے اندراج سے قاری مخصوص عمر کے مخصوص ردِ عمل کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔
4۔ مقامی زبانوں کا ذکر کِیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ اُن میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔
5۔ یہ اگر پہلی تصنیف ہے تو اِس کی نشاندہی کرنا ضروری تھی، اور اگر پہلی نہ تھی تو دیگر تصانیف پر روشنی ڈالنا اشد ضروری تھا۔
6۔مرحوم شیخ محمّد معروف صاحب کے نام کتاب کا انتساب کیا گیا ہے لیکن اُن کا نام اشاعتی معلومات کے صفحے پر درج ہے اور مقدمے میں جتنا اُن کا ذکر کیا گیا ہے، یقیناً اِس سے زیادہ معلومات فراہم کی جانی چاہیے تھی کہ مصنف کے بعد وہ ہی تو دوسری شخصیت ہیں جن سے قاری نے دیوان کھولنے کے بعد ثانیاً شناشائی پیدا کی۔
میرے نزدیک اِن پہلوؤں پر سیر حاصل روشنی نہ ڈالنے کی وجہ مقدمے کا اختصار تھا۔ جن لوگوں کا پبلشرز سے پالا پڑا ہو وہ بخوبی جانتے ہوں گے کہ کتاب چھپوانے کے عمل میں کتنی دشواریاں ہیں اور پبلشر کی بعض شرائط نہ چاہتے ہوئے بھی تسلیم کرنا پڑتی ہیں، اور اِن شرائط میں پہلی شرط ہی تعدادِ صفحات کے متعلّق ہوتی ہے۔ اِس لیے مصنف کو چار و ناچار اپنی بعض تحریروں میں کمی بیشی کرنا پڑتی ہے۔
میں امّید کرتا ہوں کی میری ان گزارشات سے بالخصوص اخلاق صاحب اور بالعموم دیگر مقدمہ لکھنے کے خواہش مند حضرات کی کسی حد تک رہنمائی ہو سکے گی۔