عالمی یوم صحافت کے موقع پر بلوچستان میں صحافیوں کو درپیش مسائل کا احوال کچھ اس طرح ہے .سی پیک کے شہر گوادر چار تحصیلوں جیوانی، پسنی، اورماڑہ اور گوادر پر مشتمل ہے۔ ضلعی ہیڈکوارٹر اوربین الاقوامی شہرت کی وجہ سے گوادر سٹی کو میڈیا کے حوالے سے باقی تحصیلوں پر فوقیت حاصل ہے۔ گوادر پریس کلب گوادر یہاں کے صحافیوں کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ جو کہ گوادر میں صحافتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ ملکی میٖڈیا سے منسلک گوادر سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر صحافیوں کو پورے ضلع اور بعض کو مکران ڈویژن کے تمام حالات اور واقعات گوادر میں بیٹھ کر کور کرنے پڑتے ہیں۔ جبکہ یہاں مقامی اخبارات کو لوگ زیادہ تر پڑھتے ہیں۔ جبکہ صحافت کے پیشے سے منسلک افراد کی ہمہ وقت یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ نیوز یا فیچرز اسٹوری کے حوالے سے دونوں اطراف کے موقف کو بیان کرے مگر بعض اوقات حکومتی اداروں کی جانب سے موقف سامنے نہیں آتا ہے۔ صحافیوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ خبروں کے حوالےسے چیک اینڈ بیلنس کام کرسکیں۔
کراچی سے متصل بلوچستان کے صنعتی شہر حب سے نکلنے والے اخبارات گوادر اور تربت میں زیادہ پڑھے جاتے ہیں اور مقامی مسائل زیادہ تر انہی اخبارات کے ذریعے اجاگر ہوتے ہیں اور عوام میں زیادہ ترپذیرائی بھی مقامی اخبارات کو حاصل ہے.
کہا جاتا ہے کہ گوادر سمیت اندرون بلوچستان کام کرنے والے صحافیوں کو اداروں کی جانب سے کسی قسم کا معاوضہ نہیں ملتا ہے۔ چند ملکی نیوز چینل اور اخبارات کے علاوہ مقامی اخبارات کے لیے کام کرنے والے ورکنگ جرنلسٹ کو ہر وقت اپنی معاش کی فکر ہوتی ہے۔جس کی وجہ سے علاقے میں نوجوان اس پیشے کو اپنانے میں دلچسپی نہیں رکھتے اور کئی افراد معاشی مسائل کی وجہ سے صحافت کے پیشے سے کنارے کشی کرچکے ہیں۔
بہرام بلوچ ایک انگریزی اخبار ڈان کے ساتھ منسلک ہیں اور گوادر پریس کلب کے صدر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ہاں صحافی بغیر تنخواہ اور ویجز کے کام کررہے ہیں۔ اور کئی ایسے جرنلسٹ بھی تھے جنہوں نے معاشی تنگ دستی کی وجہ سے صحافت سے کنارہ کشی کرکے دوسری جگہ جاب حاصل کی۔
وہ مزید بتاتے ہیں مشکل ترین اور نامساعد حالت میں کام کرتے ہوئے خوف زدگی کے ماحول میں رپورٹنگ کرنا مشکل کام ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے خبروں کی کوریج کے حوالے سے دباٶ ہوتا رہتا ہے۔ کچھ جماعتیں چاہتی ہیں کہ انھیں زیادہ کوریج ملے۔وہ مذید بتاتے ہیں کہ آزاد صحافت کو محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
گوادر کے جڑواں شہر پسنی میں بھی پریس کلب موجود ہے جو کہ یہاں کی صحافیوں کا واحد صحافتی فورم ہے۔ ساجد نور پسنی پریس کلب کے صدر ہیں اور مقامی اخبار کےعلاوہ نجی بلوچی چینل وش نیوز کے لیے کام کرتے ہیں۔ پسنی کے صحافیوں کے مسائل بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ علاقے میں جتنے بھی ورکنگ جرنلسٹ کام کرہے ہیں ان کو اداروں کی جانب سے کسی قسم کی سہولیات میسر تک نہیں ہیں۔ ان کے مطابق کچھ ادارے اپنے رپورٹرز کو ایک محدود تنخواہ دیتے ہیں جس سے کسی صحافی کا گزارہ ممکن نہیں۔ ساجد نور مذید کہتے ہیں کہ دفتر کے کرائے سے لیکر انٹرنیٹ تک کے تمام اخراجات صحافی کو اپنی جیب سے ادا کرنے پڑتے ہیں۔
(بشکریہ:حال حوال کوئٹہ)
فیس بک کمینٹ