سن 1970 میں پاکستان کے عام انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے۔ ایوب خان کی کابینہ میں وزیرِ خارجہ رہنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے ان سے اپنی راہیں جدا کر کے جس سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی اب وہ سندھ میں اس کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔لاڑکانہ سے کشمور جاتے ہوئے ان کے پارٹی کارکنوں کے قافلے میں ایک شخص کچھ زیادہ ہی جوش میں آ گیا اور اس کی گاڑی بھٹو کی گاڑی سے جا ٹکرائی۔ زوردار دھچکہ لگا، بھٹو کی جناح کیپ دور جا گری اور ڈارئیور بھی بری طرح اسٹیئرنگ سے ٹکرایا لیکن اس نے بروقت گاڑی کو سنبھال لیا ورنہ تاریخ کا دھارا شاید کوئی اور رُخ اختیار کر لیتا۔
یہ واقعہ سینئر صحافی محمود شام نے سنایا جو اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی گاڑی میں موجود تھے اور اس دور میں روزنامہ ‘مساوات’ کے لیے رپورٹنگ کر رہے تھے۔
ان دنوں کے حالات پر نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ چار اپریل 1979 کو سزائے موت پانے والے پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو اپنے لیے اس سے قبل ہی ایک پُرخطر راستے کا انتخاب کر چکے تھے۔
سن 1965 میں پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر مورس جیمز بھٹو کے زیرِ عتاب رہے۔ مورس نے بھٹو کی بھارت کے خلاف پائے جانے والے جذبات کے بارے میں لب کشائی کی تھی جس کی وجہ سے بھٹو ان سے ناراض ہو گئے تھے۔ مورس نے اپنے ایک مراسلے میں پاکستان کے تیزی سے نمایاں ہونے والے اس سیاست دان کے بارے میں دل چسپ تبصرہ کیا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ بھٹو کئی صلاحیتوں سے مالامال ہیں لیکن ساتھ ہی انہیں بائبل میں مذکور کردار لوسیفر سے تشبیہہ دیتے ہوئےborn to be hanged (پھانسی پر لٹکنے کے لیے ہی پیدا ہونے والا) قرار دیا تھا۔
بھارت سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی کارکن اور متعدد کتابوں کی مصنف سیدہ سیدین حمید نے 2018 میں ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی زندگی کے حالات پر کتاب لکھی تو اسی فقرے کو کتاب کا عنوان بنایا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ملک کے بانی محمد علی جناح کے بعد بھٹو اب تک کے واحد لیڈر ہیں جو اتنی بڑی تعداد میں عوام کو اپنے گرد جمع کرنے میں کام یاب رہے۔ لیکن اپنی تمام تر ذہانت اور طلسماتی شخصیت کے ساتھ ساتھ وہ ایک یونانی المیے کے ہیرو ہیں جو ایک بڑا انسان یا دیوتا ہونے کے باجود اپنی خوبیوں، خامیوں، اور تضادات کا شکار ہو جاتا ہے۔
اکیسویں سال گرہ کا تحفہ
سیدہ سیدین حمید کا کہنا ہے کہ بھٹو کو ان کی اکیسویں سالگرہ پر ان کے والد سر شاہنواز بھٹو نے نیپولین کی سوانح عمری تحفے میں بھجوائی تھی اور اسی دن انہیں کارل مارکس کا ایک معروف پمفلٹ بھی تحفے میں ملا۔
وہ اسے بھٹو کی زندگی میں ایک علامتی لمحہ قرار دیتی ہیں۔ سیدہ سیدین کا کہنا ہے کہ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ بائیں بازو کی سیاست کی جانب ان کے رجحان نے انہیں عوام کو سوال کرنے کا حوصلہ دینے اور اقتدار کا سرچشمہ قرار دینے کی سیاسی راہ پر ڈالا۔ دوسری جانب بھٹو کو اپنی عظمت کا احساس ہمیشہ سے تھا اور اقتدار حاصل ہونے کے بعد اپنی کام یابی میں حصہ ملانے والے ساتھیوں کو جس طرح انہوں نے ایک ایک کرکے خود سے دور کیا اور موقع پرست افراد میں گھر گئے یہ وہ راستہ تھا جو نیپولین کی اقتدار کی سیاست کی جانب جاتا تھا۔
‘بھٹو خبر نہ چھپنے پر افسردہ ہو گئے’
پاکستان میں ہیومن رائٹس کمیشن کے سابق سربراہ، سینیئر صحافی رہنما اور سابق اسٹوڈنٹ لیڈر حسین نقی نے بطور رپورٹر ذوالفقار علی بھٹو کو بہت قریب سے دیکھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ جس وقت بھٹو صاحب کو ایوب خان کی کابینہ میں وزارتِ خارجہ سے بے دخل کیا گیا تو وہ حیدرآباد آئے۔ میں نیوز ایجنسی ‘پی ٹی آئی’ سے وابستہ تھا اور ‘انجام’ اخبار میں ہڑتال کروانے کے جرم میں میرا تبادلہ حیدرآباد کر دیا گیا تھا۔
اُن کے بقول “ان دنوں بھٹو صاحب نے حیدرآباد انسٹی ٹیوٹ آف فارن افیئرز میں ایک معرکہ آرا تقریر کی جسے میں نے رپورٹ کیا۔ لیکن وہ تقریر اندرونی صفحات پر شائع ہوئی جب کہ انہیں اپنے بیانات اخبار کے پہلے صفحے پر دیکھنے کی عادت تھی۔”
( بشکریہ : ہم سب ۔۔ لاہور )