فروری2018 میں یہی جاتی سردیوں کے دن تھے۔ ایک دوست کسی اہم سرکاری اجلاس میں شرکت کر کے لاہور واپس پہنچا۔ فون کر کے ایک کافی ہاﺅس میں بیٹھنے کی دعوت دی۔ مجھے دوست کے لہجے سے اندازہ ہوا کہ کافی کا کپ تو محض بہانہ ہے، دوست کو دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کسی ایسے ساتھی کی تلاش ہے جسے خبر نشر کرنے کا ہوکا نہ ہو۔ خبر کی ترسیل کے لیے تو صحافت میں بہت سی کھڑکیاںموجود ہیں ۔ کالم معلوم شدہ حقائق کو تاریخ کے دھارے میں رکھ کر اس کے اردگرد کچھ تتلیاں باندھ دیتا ہے۔ کالم رات کے اندھیرے میں ہونے والی ملاقات کا انکشاف نہیں، اگلی صبح کی کیفیت کا بیان ہے۔ قاری کی یادداشت کو گزرے موسموں کے کیف و کم اور آنے والے زمانوں کے امکانات سے مہمیز کرتا ہے۔
دوست کے بتائے ریستوران میں پہنچا تو دیکھا کہ عام طور پر کھلکھلاتے ہوئے چہرے پر اندیشوں کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ بہت آہستگی سے بتایا کہ آنے والے دن اچھے نہیں ہیں۔ جولائی 2017ء میں منتخب وزیراعظم کو گھر بھیجنا تو المیہ تمثیل کا یونانی کورس تھا ۔ اس کھیل کا بنیادی تضاد تو ابھی سامنے آنا ہے ۔ ذرائع ابلاغ اور سول انتظامیہ کو دو ٹوک پیغام دیا گیا ہے کہ 2018ء عمران خان کو وزیراعظم بنانے کا برس ہے اور اس ہدف میں کوئی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ 28 جولائی 2017ء کو نواز شریف اقامہ کے تارعنکبوت سے باندھ کر معزول کیے جا چکے تھے ۔ شاہد خاقان عباسی کی سیاسی حیثیت نگران وزیراعظم سے زیادہ نہیں تھی ۔ راحیل شریف عسکری قیادت کی متعدد نسلوں سے سینہ بہ سینہ موصول ہونے والے بنی گالہ کے عہدنامے کو حرز جاں بنا چکے تھے۔ اکتوبر 2017ء میں ایک خودکاشتہ مذہبی تنظیم کو فیض آباد بلا کر ریاستی عمل داری کے پرخچے اڑا چکے تھے ۔ پیپلز پارٹی اس دوران سندھ اور بلوچستان میں پرچھائیوں سے دل بہلا رہی تھی۔ وفاق اور دستور ی سیاست کی شہرت رکھنے والی جماعت صادق سنجرانی کو گلے لگا چکی تھی۔
خود مسلم لیگ کا حال پتلا تھا ۔ نواز شریف برطانیہ میں تھے۔ جولائی 2018ء میں انہیں سزا سنائی گئی تو واپسی پر گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ سینٹ کے لیے ان کے جاری کردہ ٹکٹ بھی منسوخ کر دیے گئے۔ یہ ایک نیا دو قومی نظریہ تھا ۔ ریاست دھڑلے سے ایک سیاسی جماعت کو اقتدار دلانا چاہتی تھی۔ آج 8 فروری 2024ء کے انتخابات کو فارم 47 کا بے چہرہ نعرہ دینے والوں کو یاد نہیں کہ 25 جولائی کی رات الیکشن کمیشن کا آر ٹی ایس کتنے گھنٹے زمیں بوس رہا تھا۔ کراچی میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے تک مرکزی پنجاب کے نتائج کا اعلان کیوں نہیں ہوا تھا۔ خواجہ آصف کی سیاسی جماعت ڈوب رہی تھی اور وہ فوج کے سربراہ کو اپنی نشست کے لیے فون کر رہے تھے۔ ننکانہ صاحب کے اعجاز شاہ نے خود تسلیم کیا کہ نواز شریف کو ان کے چند ساتھیوں کے مشورے لے ڈوبے۔ ان مشوروں کی نوعیت کیا تھی اور یہ کسے ناپسند تھے۔ سیاسی رہنما اور اس کے رفقا میں مشاورت سے انتخابی نتائج کیسے متاثر ہوتے ہیں؟ یہ سب معاملات ایک بہت بڑے صحافی نے 18مارچ 2018ء کو اس تاریخی تحریر میں کھول دیے تھے جس کا ابتدائی پیراگراف ہی چشم کشا تھا۔
The Bajwa Doctrine, initiated by the rationalistic and logical Gen Qamar Bajwa and his equally able team of the top military command, is all about realising the changes taking place around the country and reshaping policies according to the needs of the modern times.
ایک اور اقتباس دیکھئے۔
Believing in the importance of the constitution, the doctrine wants to ensure the proper respect of all the institutions of the state.
توجہ فرمائیے کہ آئین کے لیے ’بالادستی‘ کی بجائے ’اہمیت‘ کا لفظ استعمال ہوا اور ’آئینی اداروں‘ کی بجائے ’ریاستی اداروں‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ اس کھیل کا نقطہ عروج 26 جولائی کی شام ایک سرکاری اہلکار کی جاری کردہ ٹویٹ تھی۔ اس اہلکار نے اپنی سرکاری ملازمت میں دو ٹویٹ ہی تو کیے ہیں۔ ایک میں منتخب حکومت کے فیصلے کو ری جیکٹ کیا تھا اور دوسری ٹویٹ میں اپنی یک طرفہ منصوبہ سازی کامیاب ہونے کی نوید دی تھی۔ جنوبی پنجاب کے ایک نو دولتیے کے جہازوں میں سیاسی لائیو سٹاک اسلام آباد پہنچایا جا رہا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 2018ء میں معیشت کی شرح نمو 6.15فیصد تھی جو 2020ء میں منفی 1.27 فیصد رہ گئی۔ اس دوران ذرائع ابلاغ پر غیر جمہوری اور غیر حقیقی پراپیگنڈے کا ایک طوفان کھڑا کیا گیا۔ منظور شدہ تجزیہ کاروں کی ایک فوج کھڑی کی گئی۔
2021ء کے اکتوبر میں ون پیج کی حکومت اس لئے بحران کا شکار ہوئی کہ ریاستی وسائل اور فیصلہ سازی پر قابض جتھے کو یہ اندیشہ پیدا ہو گیا کہ برسوں کی محنت سے تخلیق کردہ کارندہ اب اختیار کے حقیقی مراکز میں نقب زنی کرنا چاہتا ہے۔ مطلق العنان اقتدار کی بنیادی صفت دو ٹوک اقدام ہوتا ہے ۔ 10اپریل 2022ء کی بنیاد اکتوبر 2021ءمیں رکھ دی گئی تھی۔ مشکل یہ ہے کہ 1958ء سے اس ملک میں جمہوری دھارے کو اس قدر کمزور اور مفلوج کیاگیا ہے کہ آج پاکستان میں جمہوریت پر اتفاق رائے ختم ہی نہیں ہو گیا بلکہ ریاستی بیانیے کی مزاحمت کرنے والی اقلیت مزید کم ہو کر ایک مختصر گروہ رہ گئی ہے۔ 2008ء سے 2020ء تک رائے عامہ تشکیل کرنے والوں نے تو دراصل فصل کاٹی ہے جس کے بیج 1978ء میں بوئے گئے تھے۔ عمران خان کی مقبولیت اتفاق یا حادثہ نہیں ہے ۔ ہم نے بگولے کاشت کئے ہیں جن کی زد میں پلنے والی قوم تاریخ فراموش کرنے کی اجتماعی نفسیات کا شکار ہو چکی ہے۔ اسے معیشت سے غرض ہے اور نہ خارجہ پالیسی سے، اسے طالبان کی دہشت گردی پر کوئی تشویش ہے اور نہ اداروں کی بے توقیری کا دکھ۔ ہم نے انہیں سامری کا ایک بچھڑا پیش کیا تھا۔ اب اس ’معجزہ کار اور دیانت دار‘ کی ساحرانہ دھنو ں کا جادو فیصلہ سازوں کے سر چڑھ کے بول رہا ہے ۔
(بشکریہ:ہم سب)
فیس بک کمینٹ