قارئین کرام ۔۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم عموماً محکمہ صحت کی کوتاہیوں اور کرپشن کو موضوع بناتے ہیں مگر ایک مافیا جو اس سے بھی تگڑا ہے اس کا ذکر کم ہوتا ہے وہ ہے ایجوکیشن مافیا جس کے نرغے میں امیر غریب سب جکڑے ہوئے ہیں کئی دہائیوں سے ملک معاشی بدحالی کی طرف گامزن ہے تو اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ لوگوں نے بچوں کے مستقبل پہ محنت شروع کی تاکہ والدین کی طرح وہ غریب نہ رہ جائیں اسے غربت کا ردعمل بھی کہہ سکتے ہیں کہ تندور والا اور رکشہ والا بھی اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے کوشاں ہے ۔
اب آ تے ہیں اصل موضوع کی جانب کیونکہ سسٹم کا اندازہ باہر کھڑے رہ کر نہیں ہوتا ذاتی تجربہ ہی بتاتا ہے کہ کہاں کیسے کیا ہو رہا ہے ؟ سرکاری تعلیمی اداروں کو خود اساتذہ نے تباہ کر دیا تاکہ پرائیویٹ اکیڈمی کا کاروبار چلے من حیث القوم ہمارے اندر غلط کمائی کے جینز بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں ایک وقت تھا اکیڈمیوں نے اتنے نوٹ چھاپے کہ دوبئی کے درہم پیچھے رہ گئے وہی اساتذہ گورنمنٹ اداروں میں تعینات وہی اکیڈمیاں چلا رہے تھے ان کے لکھے نوٹس علیحدہ آ مدن کا ذریعہ تھے پھر انٹری ٹیسٹ آ گیا ۔ میں نے ایک اکیڈمی مالک استاد سے پوچھا کہ انٹری ٹیسٹ ختم ہونا چاہیئے پہلے بھی تو ایف ایس سی نمبرز پہ میرٹ بنتا تھا انہوں نے جواب دیا انٹری ٹیسٹ کبھی ختم نہیں ہو گا تمام اکیڈمیاں پیسہ اکٹھا کر کے اوپر پہنچاتی ہیں اور تھوڑے تھوڑے وقفے سے انٹری ٹیسٹ ختم کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے اکیڈمی مالکان کو بزنس ڈوبتا نظر آ تا ہے تو اس سال زیادہ بھتہ پہنچایا جاتا ہے ۔تو میری جان پاکستان کے دوستو یہ کہانی پرانی ہو گئی ۔
پھر اس مافیا نے پرائیویٹ کالج یونیورسٹیاں بنا لیں ان لوگوں کی پہلے انگلیاں گھی میں تھیں اب سر کڑاہی میں آ گئے بھاری رشوت کے بعد انہوں نے گورنمنٹ یونیورسٹیوں سے الحاق کا پروانہ حاصل کیا رجسٹریشن کے بعد ایچ ای سی کے پینل پہ آ گئے اگر کسی کلاس میں ادارے کو تیس سٹوڈنٹس کی اجازت ملی مگر انہوں نے پچاس داخلے کر لیئے بیچارا سٹوڈنٹ اور سادہ لوح والدین کہاں سے پتہ کریں کہ یہ کتنی سیٹوں پر داخلے کر سکتے ہیں کلاس شروع ہو گئی تو یونیورسٹی نے بڑی پلاننگ سے پہلے دس پندرہ پاس کر دیئے باقی طلباء کے لیئے کوئی نہ کوئی بہانہ امتحان میں فیل تھیسس ریجیکٹ وغیرہ وغیرہ یوں ہر موقعہ پر نئی فیس ۔۔
اگر گوارا کرلیں تو بتاؤں یہ فقط ایک یونیورسٹی کی کہانی نہیں میرے وطن کے حالات میں جانتی ہوں کہ لوگ کس مشکل سے پیٹ کاٹ کر بچے پڑھا رہے ہیں کیونکہ سب کے باپ کسی سرکاری دفتر میں کلرک بادشاہ نہیں ۔۔ مجبوروں سے کمانے کے طریقے اکٹھے کرتے ہیں انسانی مجبوری ہے کہ چھٹی کبھی نہ کبھی چاہیئے چھٹی پہ جرمانہ یونیورسٹی کی ننھی سی ٹریٹ ہے گورنمنٹ ادارے میں تھیسس valuation کی فیس پانچ ہزار ہے پرائیویٹ یونیورسٹی پچاس ہزار لیتی ہے قارئین کہانی یہیں ختم نہیں ہو جاتی جان بوجھ کر تھیسس ریجیکٹ کیا جاتا ہے یوں پچاس ہزار دوبارہ سٹوڈنٹ دے گا اگر ٹاپک ریجکٹ ہو گیا تو سٹوڈنٹ کو ایک سمسٹر کی فیس علاؤہ دینی ہے اب آ تے ہیں خوش قسمت طلباء پہ جو پاس ہو گئے اب پہلے ان سے وہ کانووکیشن جو دو سال بعد منعقد ہو گا اس کے پچاس ہزار پہلے لے لیئے گئے ورنہ رزلٹ کارڈ نہیں ملے گا اب ایک دھندہ اور بتاؤں ہر رزلٹ کارڈ پہ کنٹرولر امتحانات کے دستخط لازم ہیں اب یہاں یونیورسٹی دستخط مہر نہیں لگائے گی یوں سٹوڈنٹ نے کہیں اپلائی کیا تو جواب ملا اس پہ تو کنٹرول کے دستخط ہی موجود نہیں وہ غریب دوبارہ یونیورسٹی آ ئے گا کہ جناب میرا رزلٹ کارڈ کہیں بھی قبول نہیں کیا جا رہا کیونکہ یونیورسٹی کنٹرولر کے دستخط کرانا بھول گئی تھی اب اس دستخط کی فیس الگ ہے ۔
ایک مقامی یونیورسٹی نے تو انتہا کر دی کہ شہر سے باہر دوسرے کیمپس سے رزلٹ کارڈ ملے گا جو شہر سے کافی دور ہے سفر کر کے لڑکے لڑکیاں پہنچے تو پتہ چلا وہاں فن فیئر ہے پانچ سو گیٹ پاس ٹکٹ لے کر اندر جانا ہے قارئین یہ مافیا نہیں تو کیا ہے اگر پرائیویٹ ادارے زیادہ کھل کر کھیلنا چاہتے ہیں تو کسی سیاستدان کا شیئر رکھ لیں گے یہاں مقامی یونیورسٹی کی شکایتیں بڑھیں تو مالک نے بہت بڑی تقریب کا انعقاد کیا مقامی بڑے وکلاء سیاست دان حتی کہ کمشنر مہمان خاص تھا اب بتائیں جن سے شکایت کرنی تھی وہ سب تو مہمان خصوصی تھے قارئین کرام بچوں سے آ رٹیکلز لکھوائے جاتے ہیں ان میں پہلا مصنف ٹیچر اپنا نام دے گا یوں اس کی تنخواہ میں انکریمنٹ کا اضافہ ہو گا انٹرنیشنل کانفرنس کے انعقاد کے بہانے بچوں سے بھاری رقوم بٹوری جاتی ہیں جن کا کوئی حساب کتاب نہیں سٹوڈنٹ کہیں بھاگ نہ سکیں اس کا سد باب یوں ہو گا کہ کانفرنس کے روز طلباء کی presentation رکھ دی جائے گی اب بتائیں ایک سٹوڈنٹ کہاں کہاں بلیک میل ہوتا ہے ہم اس کی کیا کردار سازی کر رہے ہیں جس معاشرے میں استاد کا یہ کردار ہے دوسروں کو کیا کہیں اور ہاں یہ بتاتی چلوں اس بے رحمی میں خواتین مردوں کو شکست دے کر بہت آگے پہنچ چکی ہیں انکی عظمت کی داستان پھر کبھی اللہ حافظ ۔۔
فیس بک کمینٹ