عمران خان کے ان مطالبوں میں تو کوئی غلط بات نہیں ہے کہ 9 مئی اور اب 26نومبر کے واقعات کے بعد گرفتار شدہ سیاسی کارکنوں و لیڈروں کو رہا کیا جائے۔ یا یہ کہ انتخابات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا اہتمام ہو تاکہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم ہوسکے۔ لیکن وہ شرائط میں لپیٹ کر مطالبے کرکے اور سیاسی مکالمہ کی بجائے ’سٹیک ہولڈرز‘ سے بات چیت کے نام پر مصالحت و مفاہمت کا راستہ مسدود بھی کرلیتے ہیں۔ ایسے میں تصادم ہی واحد ’آپشن‘ بچتا ہے۔
گزشتہ شب ایکس پر پوسٹ میں درحقیقت عمران خان نے ایک بار پھر ایسے ہی تصادم کی دعوت دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یا تو یہ دو مطالبے مانے جائیں یا پھر وہ سول نافرمانی کی مہم شروع کریں گے۔ اس حوالے سے انہوں نے لائحہ عمل بھی ترتیب دے لیا ہے۔ اس پوسٹ میں ان کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے کہیں گے کہ وہ ترسیلات زر بھیجنا بند کردیں اور ہر فورم پر پاکستان کے بائیکاٹ کی مہم چلائیں۔ اس میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ عمران خان کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں خاصی مقبولیت حاصل ہے جس کا اظہار مختلف مواقع پر ہونے والے احتجاج اور لندن و واشنگٹن میں تحریک انصاف کی کوششوں سے ارکان پارلیمنٹ کے احتجاجی مراسلوں سے بھی ہوتا ہے۔ تاہم اگر عمران خان یہ سمجھنے کی غلطی کررہے ہیں کہ یورپ و امریکہ میں ان کے حامی تحریک انصاف کی سیاسی لڑائی لڑیں گے اور جیت بھی لیں گے تو وہ فاش غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں۔
سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کی بڑی تعداد سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں میں مقیم ہے۔ چونکہ ان ممالک میں کسی کو بھی سیاسی احتجاج کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ ان لوگوں میں سے کتنے لوگ عمران خان کی خاطر اپنے گھر والوں کو ’بھوکا‘ رکھنے کا ارادہ کرسکتے ہیں۔ کیوں کہ عرب ممالک میں مقیم تارکین وطن عام طور سے اوسط درجے کے کام کرتے ہیں اور انہیں ہر ماہ اپنے اہل خاندان کو روزمرہ مصارف پورے کرنے کے لیے رقم بھیجنا پڑتی ہے۔ یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ ان ممالک میں مقیم سب پاکستانی تارکین وطن صرف عمران خان ہی کو حقیقی لیڈر مانتے ہیں تو بھی کیا وہ اپنے لیڈر کی خواہش پر نام نہاد سول نافرمانی کا قصد کرتے ہوئے اپنے خاندانوں کو ماہانہ مصارف بھیجنا بند کردیں گے؟ یہ قیاس کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ ا س کے علاوہ ان ممالک میں کام کرنے والے تارکین وطن کو کنٹریکٹ کی مدت پوری ہونے پر بہر حال واپس اپنے وطن آنا پڑتا ہے۔ اس صورت میں انہیں اپنی بچت و وسائل کو پاکستان ہی منتقل کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ واپس جاکر کوئی باعزت کام شروع کرسکیں۔ کسی سیاسی لیڈر کی مہم جوئی میں یہ پاکستانی اپنے مستقبل کو داؤ پر نہیں لگائیں گے۔
امریکہ و دیگر مغربی ممالک میں آباد پاکستانیوں کی صورت حال مختلف ہے۔ البتہ ان میں سے بھی ایسے پاکستانی بہر حال پاکستان رقوم ارسال کرتے رہیں گے جن کے اہل خاندان کی آمدنی کا واحد ذریعہ یہی ترسیلات زر ہیں۔ البتہ جو لوگ مغربی ممالک میں طویل عرصہ سے مقیم ہیں اور اپنے اپنے میزبان ملک کی شہریت بھی لے چکے ہیں، ان کے لیے شاید کچھ مدت کے لیے عمران خان کی ہدایت پر عمل کرنا آسان ہو کہ وہ پاکستان رقوم بھیجنا بند کردیں۔ البتہ اس حوالے سے بھی دو پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک یہ کہ کیا ان ترسیلات کو روک کر یہ مٹھی بھر پاکستانی یا سابقہ پاکستانی حکومت پاکستان پر کوئی دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں؟ اس کا جوب واضح نفی میں ہے۔ کیوں کہ حکومت کے پاس ترسیلات زر کو دلکش بنانے کے لیے متعدد راستے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان میں سے ایک طریقہ روپے کی قدر میں کمی کا اختیار ہے۔ اس طرح بیرون ملک سے پاکستان رقم بھیجنا منفعت بخش ہوجائے گا۔ عمرا ن خان کسی ایسی سیاسی تحریک کے رہنما نہیں ہیں کہ ان کی خوشنودی کے لیے تمام لوگ اپنے نفع نقصان کو بھول جائیں گے۔
اس حوالے سے دوسرا نکتہ یہ ہے کہ بیرون ملک کسی سیاسی فورم یعنی کسی پارلیمنٹ کے ارکان سے یہ اپیل کرنا کہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال بہتر بنانے میں کردار ادا کریں، ایک معاملہ ہے۔ لیکن اگر عمران خان اپنے حامیوں سے پاکستان کا بائیکاٹ کرنے اور مختلف عالمی فورمزپر پاکستان کو تنہا کرنے میں کردار ادا کرنے کا تقاضہ کریں گے تو اس میں کامیابی کا کوئی خاص امکان نہیں ہے۔ کسی بھی ملک میں رہنے والے پاکستانی اتنی طاقت نہیں رکھتے کہ وہ ایک سیاسی پارٹی کے لیے اپنے ملک کی حکومت کو دو ملکوں کے درمیان تعلقات کو داؤ پر لگانے کے لیے آمادہ کرسکیں۔ جن لوگوں کو اتنی سیاسی یا سماجی اہمیت و حیثیت حاصل ہوجاتی ہے ، ان کی وفاداریاں پاکستان سے تعلق کے باوجود اس ملک کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں جہاں انہوں نے معاشی یا سیاسی طور سے کامیابی حاصل کی ہے۔ یعنی برطانوی پاکستانی، برطانیہ کا وفادار ہوگا اور امریکی پاکستانی امریکہ سے وفا نبھائے گا کیوں کہ ان لوگوں کے اپنے اور ان کی آئیندہ نسلوں کے مفادات انہی ملکوں کے ساتھ وابستہ ہیں۔
دو ملکوں کے تعلقات میں یہ اصول بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ ہر ملک اپنے علاقائی اور اسٹریٹیجک مفاد کے لیے دوسرے ملک سے تعلقات استوار کرتا ہے۔ یہ تعلقات کسی ایک لیڈر یا پارٹی کی ہمدردی میں تبدیل نہیں کیے جاتے۔ دعوے کی حد تک تو بیان کیا جاتا ہے کہ امریکہ یا کسی بھی دوسرے جمہوری ملک کو کسی دوسرے ملک مثلاً پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر تشویش ہے لیکن یہ ’تشویش‘ کبھی بھی دوطرفہ تعلقات پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے ماضی میں امریکی حکومت نے ہمیشہ اس دور میں پاکستان کی بھرپور مالی و سفارتی مدد کی ہے جب یہاں پر فوجی آمروں کی حکومتیں قائم تھیں۔ ایوب خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف کے ادوار کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوسکتا ہے کہ امریکہ اور اس کے جمہوری حلیفوں کو پاکستانی شہریوں سے زیادہ اپنے مفادات سے غرض تھی۔ اسی لیے ان ممالک نے ایسے حکمرانوں کی غیر مشروط مدد کی جو اپنے لوگوں کے حقوق پامال کرنے کا سبب بنے ہوئے تھے۔ یہ صورت حال 2024 میں بھی جوں کی توں ہے۔
عمران خان جب دوسرے ملکوں کی شہریت لینے والے پاکستانیوں سے سیاسی مقاصد کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کریں گے تو انہیں اس اصولی سوال کا جواب بھی دینا ہوگا کہ کیا کسی محب وطن لیڈر کو زیب دیتا ہے کہ وہ غیر ملکی شہریوں کو پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کے لیے استعمال کریں۔ کسی دارالحکومت میں مظاہرے کرنےیا یادداشت وغیرہ جمع کرانے تک ، اس پہلو پر کوئی خاص غور نہیں ہوتا لیکن جب معاملہ بڑھ کر سول نافرمانی کی جد و جہد تک پہنچے گا تو سخت سوالات بھی اٹھائے جائیں گے اور عمران خان کی ملک سے
وفاداری بھی زیر بحث آئے گی۔ ایسی الزام تراشی کو پھر سیاسی مہم جوئی کہہ کر نظرانداز نہیں کیاجاسکے گا کیوں کہ عمران خان خود اس کج روی کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔
یوں بھی بیرون ملک ’سول نافرمانی‘ کی تحریک چلا کر پاکستان میں ’انقلاب‘ لانے یا سیاسی مفادات حاصل کرنے کا تصور ناکارہ اور ناقابل عمل ہے۔ اگر پاکستان میں مقیم تحریک انصاف کے حامی کسی منظم احتجاج یا مہم کے ذریعے ملکی حالات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی ان کی مدد کو نہیں آئیں گے۔ ذرا گہرائی سے غور کیا جائے تو عمران خان کے گزشتہ رات جاری ہونے والے بیان میں شکست خوردگی واضح طور سے محسوس کی جاسکتی ہے۔ اس پیغام کے ذریعے یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ تحریک انصاف ملک میں کوئی احتجاجی تحریک چلانے میں ناکام ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ عوامی اجتماع بھی صرف خیبر پختون خوا میں ہی کیے جاسکتے ہیں، جہاں پی ٹی آئی ہی کی حکومت ہے۔ اسی لیے 14 دسمبر سے ’سول نافرمانی‘ کی مہم شروع کرنے سے ایک روز پہلے یعنی 13 دسمبر کو احتجاجی جلسہ پشاور میں ہی منعقد کیا جائے گا۔
سول نافرمانی کے نئے منصوبے پر عمل کے لیے ٹائم فریم طے کرتے ہوئے عمران خان اور تحریک انصاف ایک بار پھر اسی غلطی کا ارتکاب کررہے ہیں جو وہ پہلے احتجاجوں کے دوران کرتے رہے ہیں۔ عمران خان انتہائی قلیل نوٹس پر پارٹی کو کوئی کام کرنے کا حکم جاری کردیتے ہیں حالانکہ تحریک انصاف کے پاس یہ مقصد پورا کرنے کے لیے وسائل و صلاحیت نہیں ہوتی۔ عمران خان بدستور اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ محض ان سے وفاداری کے نام پر عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے اور حکومت کے لیے کام کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اب وہ تصور کررہے ہیں کہ ان کی اپیل پر بیرون ملک سے ترسیلات زر میں ڈرامائی کمی آجائے گی اور حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے گی۔ حالانکہ اگر عمران خان کا اندازہ درست بھی مان لیا جائے ور بیرون ملک سے ترسیلات زر ایک دو ماہ کے بعد بتدریج کم ہونا شروع ہو بھی جائیں تو حکومت تو شاید اس دباؤ کو برداشت کرلے لیکن عمران خان کی بے صبری و عجلت کیسے اتنی مدت تک انتظار کرے گی؟
عمران خان نے ضرور کارکنوں کی رہائی اور انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے حوالے سے مطالبے پیش کرتے ہوئے مذاکرات کی پیش کش بھی کی ہے اور پانچ رکنی کمیٹی بھی نامزد کردی ہے۔ لیکن وہ ماضی قریب میں بھی ایسی بہت سی کمیٹیاں قائم کرنے کا اعلان کرچکے ہیں لیکن فوج کے ساتھ مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھی۔ ان کی یہ خواہش اب بھی پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ کوئی معرکہ ہارنے والے جرنیل کو یہ اندازہ ہونا چاہئے کہ پسپائی کے بعد وہ شرائط رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ 26 نومبر کی ناکامی کے بعد عمران خان اور تحریک انصاف کو مصالحانہ مفاہمت کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے تاکہ پارٹی کو موجودہ مشکل صورت حال سے باہر نکالا جاسکے۔ بصورت دیگر اپنے ہی لوگوں کے مفادات کے خلاف سول نافرمانی کے اعلانات ان کی مشکلات میں اضافہ کا سبب بنیں گے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ