ایک طرف قوم نے سیلاب کی تباہ کاری کی وجہ سے یوم دفاع پاکستان پر وقار مگر کسی دھوم دھام کے بغیر منایا تو دوسری طرف ملک کے سیاسی لیڈر اور جماعتیں پوری قوت سے ایک دوسرے پر گولہ باری کر رہی ہیں۔ حالانکہ ملک میں سیلاب کی صورت حال، کثیر تعداد میں لوگوں کے بے سر و سامانی اور اور درپیش معاشی چیلنجز کی وجہ سے یوم دفاع پاکستان کا اگر کوئی پیغام ہوسکتا ہے تو وہ یک جہتی و اتحاد ہے۔ یہی جنس اس وقت ملک میں ناپید ہے۔
عمران خان نے پشاور میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر حکمران جماعتوں کو چوروں کا ٹولہ قرار دیا جو ان کے اور فوج کے درمیان اختلاف پیدا کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف مسلم لیگ (ن) نے ایک بیان میں عمران خان کو پاکستان کا دشمن کہاہے۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں اتوار کو فیصل آباد میں کی گئی تقریر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی فوج پر تنقید مثبت اور اصلاح کے نقطہ نظر سے ہے۔ وہ میرٹ پر فوج کا سربراہ مقرر کرنے کی بات کرتے ہیں تو اس میں غلط کیا ہے؟ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے بیان کو حکمران جماعتوں کے میڈیا سیل نے توڑ مروڑ کر پیش کیا تاکہ تحریک انصاف اور فوج کے درمیان تصادم ہوسکے اور ان چوروں کو اس کا فائدہ ہو۔ تحریک انصاف کے لیڈر کا کہنا تھا کہ عوام نے ان بدعنوان لیڈروں کو مسترد کردیا ہے۔ یہ انتخابات میں کسی صورت جیت نہیں سکتے، اسی لئے جھوٹ اور الزام تراشی کا سہارا لے رہے ہیں۔مسلم لیگ (ن) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ’ ریاست کے دشمن نے تمام ریاستی اداروں پر حملہ شروع کیا ہے۔ الیکشن کمیشن، عدلیہ، پولیس اور اب مسلح افواج ہر اس ادارے کے خلاف محاذ کھول رہا ہے جو اس کے فاشسٹ ایجنڈے کو قبول نہیں کرتا۔ عمران خان پاکستان کے خلاف مقابلے پر اترا ہؤاہے اور ہم پاکستان کے ساتھ ہیں‘۔ پارٹی کے بیان کے علاوہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بھی عمران خان پر سخت تنقید کی ہے اور ان پر آئین پاکستان ، افواج اور شہدا کی توہین کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ مریم نواز نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’ پاکستان کے بارے میں عمران خان کا مؤقف مشروط ہے۔ اگر فوج نیوٹرل رہے گی تو وہ اس پر کیچڑ اچھالیں گے، اگر عدالتیں ان کے جرائم کو قانونی شکل نہیں دیتیں تو وہ انہیں بدنام کریں گے، اگر الیکشن کمیشن فارن فنڈنگ میں ان کی چوری پکڑے گا تو اس کی دیانت کو مشکوک بنایا جائے گا۔ ایسی لعنت سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے‘۔
اس شدید اور سنگین الزام تراشی کے ماحول میں پاکستان میں مخالفانہ بیانات دینے والوں کو ہراساں کرنے کا دیرینہ ہتھکنڈا اب عمران خان کے خلاف بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ لاہور کی مقامی عدالت میں ایک شہری نے درخواست دائر کی ہے جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’عمران خان نے چار ستمبر کو فیصل آباد کے جلسے میں پاک فوج کے سربراہ سے متعلق خطرناک بیان دیا۔عمران خان نے بیان کے ذریعے حساس ادارے میں بغاوت کروانے کی کوشش کی لہذا عدالت سمن آباد تھانے کو پی ٹی آئی چیئرمین کے خلاف فوری مقدمہ درج کرنے کا حکم دے‘۔ عدالت نے اس درخواست کو مسترد کرنے اور اسے غیر متعلقہ قرار دینے کی بجائے پولیس سے 10ستمبر تک اس درخواست پر ایف آئی آر درج کرنے کے بارے میں جواب طلب کیا ہے۔
کوئی ذی شعور سیاسی تصادم کی اس صورت حال کو درست نہیں کہہ سکتا لیکن فریقین کسی بھی قیمت پر اپنا لب و لہجہ تبدیل کرنے یا الزام تراشی سے گریز کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ عمران خان نے اپنے حامیوں کا ایک ایسا گروہ پیدا کرلیا ہے جو ان کی ہر بات پر آنکھیں بند کرکے یقین کرتا ہے۔ اسے اس سے غرض نہیں ہے کہ ایک روز پہلے ان کے لیڈر نے کیا بیان دیا تھا۔ فیصل آباد کی تقریر میں عمران خان نے موجودہ حکومت پر الزام تراشی کرتے ہوئے کہا تھا کہ زرداری اور نواز شریف اپنی چوری بچانے کے لئے مرضی کا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں۔ اس بیان میں صرف سیاسی قیادت پر الزام عائد نہیں کیا گیا بلکہ اپنے حامیوں کو یہ یقین بھی دلایا گیا تھا کہ فوج کے سینئر جرنیلوں میں کچھ ایسے افسر موجود ہیں جو شریف و زرداری خاندان کی چوری چھپانے میں معاون ہوسکتے ہیں۔ اس لئے موجودہ ٹولے کو آرمی چیف مقرر کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ پشاور میں تقریر کرتے ہوئے عمران خان نے اپنے اس بیان کی کمزوری پر تاسف کا اظہار کرنے یا معافی مانگنے کی بجائے ، یہ دعویٰ کیا کہ چوروں کی حکومت ان کے بیانات کو توڑ مروڑ کر سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرتی ہے۔ اس صورت میں تو انہیں اپنے بیان کی وضاحت کرنی چاہئے تھی کہ کہاں پر غلط رپورٹنگ کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوئی ہے۔
اس کے برعکس انہوں نے اپنے بیان پر اصرار کیا ہے کہ انہوں نے تو میرٹ پر آرمی چیف مقرر کرنے کی بات کی ہے۔ اس میں غلط کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اسٹیج کی اسکرین پر نواز شریف اور دیگر لیڈروں کے فوج مخالف بیانات کے ٹکڑے دکھا کر یہ بتانے کی کوشش کی کہ فوج کے خلاف تو ان کے سیاسی مخالف باتیں کرتے رہے ہیں، وہ تو مثبت تنقید کرتے ہیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی فیصل آباد کی تقریر کے حوالے سے کہا تھا کہ عمران خان کو خود احتسابی سے کام لینا چاہئے ورنہ وہ اپنی غلطیوں کو درست نہیں کرسکیں گے۔ یہ متوازن ریمارکس درحقیقت عمران خان کو ایک مناسب اور درست مشورہ تھا لیکن تحریک انصاف کے لیڈر مقبولیت کی گمان میں کوئی مشورہ سننا نہیں چاہتے اور نہ ہی کسی غلطی کی نشاندہی کو صحیح مانتے ہیں۔ اگر عمران خان کا بیان دوٹوک اور براہ راست فوجی افسروں کی دیانت پر حملہ نہ ہوتا تو آئی ایس پی آر کو کبھی اس پر فوری تبصرہ جاری کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔دوسری طرف کسی بھی سیاسی لیڈر کے بیان کو اس کی پالیسیوں کے خلاف رائے ہموار کرنے کے لئے ضرور استعمال ہونا چاہئے لیکن کسی بیان کی بنیاد پر کسی لیڈر کو ’لعنت ‘ قرار دے کر اسے پاکستان دشمن کہنا کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ عمران خان مسلسل جھوٹے اور بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہوئے موجودہ حکومت کو معتوب کرتے ہیں۔ شریف خاندان اور آصف زرداری کے خلاف ضرور مقدمات قائم ہیں لیکن کسی بھی مقدمہ میں ابھی تک حتمی عدالتی حکم سامنے نہیں آیا۔ محض فرد جرم کی بنیاد پر حکومت میں شامل لوگوں کو ’چور‘ پکارنا افسوسناک سیاسی حکمت عملی ہے۔ لیکن یہ طرز عمل چونکہ ایک خاص طبقہ میں فروخت ہورہا ہے ، اس لئے عمران خان وہی مال مارکیٹ میں لانے پر مصر ہیں۔ حکومتی نمائیندے جب اسی لب و لہجہ میں جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں تو عام شہری کی نظر میں ان دونوں سیاسی فریقین میں کوئی فرق رہتا۔ دونوں زیادہ سے زیادہ شدید اور ہتک آمیز بیان دے کر اپنی سیاسی دکان چمکانا چاہتے ہیں۔ اس لئے اگر عمران خان کا شہباز شریف اور دیگر لیڈروں کو ملک دشمن یا غدار کہنا غلط ہے تو حکمران اتحاد کے نمائیندوں کو بھی ایسے الزامات سے اجتناب کرنا چاہئے۔
اس پر مستزاد یہ کہ ’عام شہری‘ کی درخواستوں پر غداری کے مقدمے قائم کروانے کا دہائیوں پرانا اوچھا ہتھکنڈا بدستور درست اور جائز سمجھا جارہا ہے۔ صرف اس ایک طریقہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی پاکستانی سیاست دان ماضی یا اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے پر تیا رنہیں ہے۔ وہ کسی بھی طرح مخالف کو جال میں پھنسا کر خود اپنے لئے سیاسی اقتدار یا سہولت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جب تک یہ طرز عمل تبدیل نہیں ہوگا پاکستان میں صحت مند سیاسی ماحول پیدا ہونا مشکل ہے۔ جب تک سیاسی لیڈر ایک دوسرے کا احترام نہیں کریں گے ، اس وقت تک سیاست پر اداروں کی دسترس مضبوط رہے گی اور آئینی تقاضوں کے مطابق عوام کے نمائیندوں پر مشتمل حکومت برسر اقتدار نہیں آسکے گی۔ بلکہ اسی لیڈر یا پارٹی کو اقتدار تک پہنچنے کا موقع فراہم ہوگا جو اسٹبلشمنٹ کی ’گڈ بکس‘ میں تصور کیا جائے گا۔ بدقسمتی سے عمران خان کی فوج پر ’مثبت تنقید‘ کا مقصد اسے سیاسی ہتھکنڈوں سے باز رکھنا نہیں ہے بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ فوج کسی بھی قیمت پر ایک بار پھر ان کی سرپرستی کرے تاکہ وہ وزیر اعظم بن کر اپنے سیاسی مخالفین کا قلع قمع کرسکیں۔
یہ اصول ضرور طے ہونا چاہئے کہ پاک فوج کا سربراہ سینارٹی کی بناء پر مقرر ہو۔ یہی نہیں بلکہ کسی بھی آرمی چیف کو اپنے عہدہ کی مقررہ مدت پوری کرنے کے بعد توسیع دینے کا افسوسناک طریقہ بھی ختم ہونا چاہئے۔ عمران خان نے خود ہی جنرل باجوہ کو توسیع دینے کے لئے آرمی ایکٹ میں تبدیلی کروانا ضروری سمجھا تھا ورنہ سپریم کورٹ تو اس طریقہ کے خلاف رائے دے چکی تھی۔ اب اگر عمران خان اپنی اس غلطی سے رجوع کرنا چاہتے ہیں تو انہیں جلسوں میں فوج کو موضوع بحث بنانے کی بجائے پارلیمنٹ میں قانونی و آئینی ترمیم کی تجویز سامنے لانی چاہئے تاکہ اصولی اصلاح کا راستہ اختیار کیا جاسکے۔ اس حوالے سے یہ بات بھی نوٹ کرنی چاہئے کہ عمران خان جب میرٹ پر آرمی چیف مقرر کرنے کی بات کرتے ہیں تو وہ سینارٹی کی بات نہیں کرتے بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ موجودہ حکمرانوں کو اس کا حق نہیں ہونا چاہئے کیوں کہ وہ ’چور‘ ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ یہ استحقاق کسی طرح انہیں تفویض ہوجائے تاکہ اپنے ’میرٹ‘ کی بنیاد پر من پسند آرمی چیف لاسکیں۔ عمران خان کو جان لینا چاہئے کہ اگر وہ بعض لیڈروں کو ’چور‘ سمجھتے ہیں تو دوسرے لیڈر بھی انہیں ’ڈاکو اور بدعنوان‘ ہی کہتے ہیں۔ پھر کوئی حق ’چور‘ سے چھین کر ایک ’لٹیرے‘ کو کیسے دیا جاسکتا ہے ۔ اس کے لئے کون سا آئینی طریقہ اختیار کیا جائے گا؟
ملک میں سیاست دان اور سیاسی و پارلیمانی ادارے کمزور ہیں کیوں کہ سیاست دان ایک دوسرے کا گریبان چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ فوج مضبوط ہے کیوں کہ اختلاف کے باوجود وہ ہمیشہ ایک ڈسلپن اور قاعدے کی پابندی کرتی ہے۔ فوج کی سیاسی پوزیشن ختم کرنے کے لئے سیاست دانوں کو ایک دوسرے کا سہارا بننا ہوگا۔ جب تک سیاسی پارٹیاں اس اصول پر متفق نہیں ہوتیں، سیاست دانوں میں غدار اور ملک دشمن تلاش کئے جاتے رہیں گے۔ اس وقت بلاشبہ عمران خان ٹارگٹ پر ہیں ۔ کاش عمران خان اب بھی سمجھ جائیں کہ انہیں فوج کی مدد یا عدلیہ کی حمایت اس مشکل سے نہیں بچا سکے گی۔ اس مقصد کے لئے سیاسی مفاہمت ہی واحد راستہ ہے۔ ورنہ اس ملک کا نظام تو مقبول لیڈروں کو پھانسی پر بھی لٹکا چکا ہے اور کسی ماتھے پر شکن تک نمودار نہیں ہوئی۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ