ایک برطانوی ماہر جیمز میکروڈ لکھتے ہیں کہ دریائے سندھ کا ڈیلٹا انتہائی زرخیز ہے ، یہاں ہر طرف دھان اور کماد کے کھیت ہیں ، مٹی اتنی زرخیز کہ دھان کے بیج ڈال دو تو دنوں میں ہری بھری فصل لہلہا رہی ہوتی ہے ، یہاں مچھلیوں سے بھری جھیلیں ہیں اور جھینگوں سے بھرے مینگرووز کے جنگل ہیں۔ دھان کاٹنے کے موسم میں مزدوروں کی بڑی تعداد ملتان اور کچھ سے یہاں آتی ہے ۔
یہ سب تبدیل ہونے لگا سکھر بیراج کے بننے سے ، اس کے بعد کوٹری بیراج ، پھر جناح بیراج ، تونسہ بیراج , چشمہ بیراج اور آخر میں تربیلا ڈیم نے تو گیم ہی چینج کر دی ۔ اس سے پہلے سندھ طاس معاہدے کے تحت تین معاون دریا راوی ستلج اور بیاس بھارت کے ہو گئے تھے۔ سکھر بیراج تو 1932 میں بنا لیکن دریائے سندھ کے معاون دریاؤں سے نہریں نکالنے کا کام تو انگریزوں نے انیسویں صدی سے ہی شروع کر دیا تھا ۔ ڈیلٹا سکڑتا گیا ، جھیلیں سوکھتی گئیں ، کھیت اجڑتے گئے ، مینگرووز کے جنگل ختم ہوتے گئے، سمندر کی یلغار بڑھتی گئی اور اب یہ حالت ہے کہ ڈیلٹا کے بڑے حصے میں نمک ملی ریت اڑتی ہے یا یوں کہیں کہ ریت ملا نمک اڑتا ہے۔
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی نے ڈیلٹا کو سالانہ ایک کروڑ ایکڑ فٹ پانی دینا تھا جو کبھی نہیں دیا گیا ۔ نتیجہ لاکھوں ایکڑ زرخیز زمین کا خاتمہ بیروزگاری اور نقل مکانی ۔ دریائوں کو بہنے دیا جاتا تو یہ سب نہ ہوتا البتہ یہ ضرور ہوتا کہ بالائی سندھ اور پورے پنجاب میں کروڑوں ایکڑ زمین بنجر رہتی اور لوگوں خوراک کی بے پناہ قلت کا سامنا کرنا پڑتا ۔ لیکن کیا ڈیلٹا کی قربانی ناگزیر تھی ! ایسا ہرگز نہیں ہے ، موزوں اور مناسب منصوبہ بندی سے ڈیلٹا کو بچایا جا سکتا تھا اور اب بھی بچایا جا سکتا ہے اگر ریاست کی نیت ایسا کرنے کی ہو تو۔
کہا جاتا ہے کہ دریائوں کو ان کی مرضی کے مطابق بہنے دیا جائے ، مثالیں دی جاتی ہیں کہ امریکہ اور یورپ میں ہزاروں ڈیم توڑ دیے گئے ، جی درست ہے لیکن وہاں لاکھوں ڈیم اب بھی موجود ہیں ، وہ ایک کیوسک پانی بھی ضائع نہیں کرتے ، بارش کی ایک ایک بوند ذخیرہ کرتے ہیں اور زمین سے پانی نکالتے ہیں تو اسے واپس بھی کرتے ہیں یعنی بارشوں کے پانی سے سب سائل واٹر کو ریچارج کرتے ہیں ۔ ہمیں بھی یہ سب کچھ کرنے سے کسی نے نہیں روکا ۔ افسوس کہ ہم نے سوائے حرام خوری کے کچھ بھی نہیں کیا ، ان بڑے دریاؤں کے علاوہ ہمارے ملک میں کئی چھوٹے دریا اور ندیاں بھی تھیں ، دو دریا تو کراچی میں ہی بہتے تھے ملیر اور لیاری ، کراچی ایک زرعی شہر تھا ، آج ملیر ریور اور لیاری ریور بہہ تو رہے ہیں لیکن ان میں چشموں اور بارشوں کا نہیں کراچی کے گٹروں کا پانی بہتا ہے اور اب وہ نالے کہلاتے ہیں ۔۔۔۔ let the rivers flow۔۔۔
ہم دنیا میں سب سے زیادہ زیر زمین پانی نکالنے والے ملکوں میں سے ہیں ۔ ایک ماہر نے کہا کہ دریا کو بہنے دو اور اس کے نیچے ایک اتنا ہی بڑا دریا زیر زمین بہہ رہا ہے اس کا پانی ٹیوب ویلوں سے نکالو سولر انرجی کے ذریعے۔ اب یہ تو ماہرین ہی بتائیں گے کہ وہ پانی کتنی گہرائی میں ہے ؟ میٹھا ہے یا کھارا ہے ؟ ہلکا ہے یا بھاری ہے ؟ اور اس پانی کو آپ دریا کے قریب ٹیوب ویل لگا کر نکالیں گے تو دریا سے دور کے علاقوں میں پائپوں کے ذریعے پہنچائیں گے یا نہروں کے ذریعے ؟
بہرحال بین الاقوامی تحقیقاتی اداروں کے مطابق پاکستان پانی کی کمی کے شکار ممالک میں پندرہویں نمبر پر ہے اور وہ اپنے دستیاب وسائل کو تیزی سے ختم کرتا جا رہا ہے ۔ 1947 میں ہر پاکستانی کے لیے ساڑھے پانچ ہزار کیوبیک میٹر پانی دستیاب تھا جو اب ساڑھے نو سو مکعب میٹر رہ گیا ہے۔ اگر ہم نے پانی کو محفوظ کرنے ، پانی کو ضائع ہونے سے بچانے اور زیر زمین پانی کے ذخائر کو ریچارج کرنے کے منصوبوں پر جنگی بنیادوں پر کام نہ کیا تو ہم اپنی آئندہ نسلوں کے قتل کے مرتکب ہوں گے ۔