ایک صاحب کار بہت تیز چلاتے تھے۔ایک بار وہ کار چوراہے سے موڑ رہے تھے کہ کار قابو سے باہر ہوگئی اور سامنے دکان میں گھس کر پیچھے والے مکان کے بیڈ روم باتھ روم اور ڈرائنگ روم توڑتی ہوئی صحن میں جا نکلی ۔ اتفاق سے مالک مکان صحن میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ کاروالے صاحب نے گھبراہٹ میں جلدی سے دریافت کیا :“
ریگل چوک کہاں ہے ؟
مالک مکان نے جل بُھن کر جواب دیا۔
ہمارا سٹور باقی بچا ہے اسے توڑتے ہوئے نکل جائیے، سامنے (ریگل چوک ) آپ کی منزل آجائے گی۔
عمران خان کی ٹیم بھی اقتدار کی گاڑی پر اس طرح کی حرکات وسکنات سے دوچار ہے۔ یہ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہے اور سرکاری طورپر یہاں پنجاب میں تو باقاعدہ سستے رمضان بازار لگوائے جاتے ہیں۔ ایسے اتوار یا جمعہ بازار تو پہلے بھی لگتے تھے مگر اب انہیں سستا رمضان بازار کا نام دیا گیا ہے۔ اگلے روز احمد پور شرقیہ سے ہمارے دیرینہ قاری اور سابقہ کونسلر قاضی طارق خان لودھی صاحب کا فون آیا۔ بولے !یہاں کے سستے رمضان بازاروں کے بارے میں بھی لکھیے:۔” میں بازار میں گیا تو کئی بلدیہ اور شہری انتظامیہ کے ورکرزوہاں رمضان بازار میں پانچ پانچ کلو اشیائے ضرورت سجائے دکھائی دیئے۔ وہ کسی کو بھی ایک پاؤ یا آدھ کلو سے زائد کوئی چیز نہیں دے رہے تھے۔ ہم نے لیموں مانگے تو پاؤ بھر سے زیادہ نہ ملے۔ پتہ چلا کہ یہ سرکاری ملازم سستا رمضان بازار کو کامیاب بنانے کے لیے خود دکاندار بن کر بیٹھے ہیں اور بعض اوقات جیب سے آلو، ٹماٹر لیموں ودیگر پھل وغیرہ خرید کر بیٹھ جاتے ہیں تاکہ بازار کا بھرم قائم رہے۔ اور سوشل میڈیا کے کیمروں سے محفوظ رہا جاسکے۔ ان سستے بازاروں میں اسی لیے پاؤ آدھ کلو سے زائد اشیاءفروخت نہیں کی جاتیں شام تک بازار ”زندہ“ رکھنا پڑتا ہے، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بازار سے مہنگی خرید کر یہ ”ملازمین “ یا سرکاری ”ہرکارے“ سستے نرخوں چیزیں بیچتے پائے گئے۔ طارق لودھی نے بتایا کہ کئی تو ہمارے واقف ملازمین پھٹ پڑتے ہیں کہ وہ کس طرح حکومت کے ان سستے بازاروں میں سرکاری ڈیوٹی دے کر ذلیل ہورہے ہیں۔ بعض اوقات انہیں اچھا خاصا نقصان بھی ہوتا ہے ۔“
کچھ عرصہ قبل ایک ویڈیو کلپ میں بہاولپور کے سستے رمضان بازار میں ایک شخص نے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سے شکایت کی کہ اسے لیموں پاؤ سے زیادہ نہیں دیئے جارہے بلکہ کئی جگہوں پر خریدار کو انکار بھی کیا گیا کہ ”فوٹو سیشن“ یعنی وزیراعلیٰ کا دورہ مکمل ہوجائے تو آپ کو ”سودا“ مل جائے گا۔ گویا سستے رمضان بازاروں کو فلمی سیٹ کے انداز میں لگایا جاتا ہے اور فوٹو بناکر اوپر اپنے ”باس“ کو بھیجنے کی روایت بھی وجود میں آچکی ہے۔ اب تو ایسے ملازمین ایک دیوار پر فلیکس سجاتے ہیں۔ اپنی ڈیوٹی کی کارروائی ڈالتے ہیں ،تصویر بنواکر”وٹس ایپ“ کے ذریعے اپنے متعلقہ باس کو بھیج کر مطمئن ہو جاتے ہیں ۔ اب ہر شعبے میں اسی طرح کی ڈیوٹیاں کی جارہی ہیں۔
سابقہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی سیلاب زدگان یا دیگر آفت زدگان علاقوں کا دورہ کرتے تھے تو اسی طرح ان کو دکھانے کے لیے فلمی ”سیٹ“ لگاکر کام چلایا جاتا تھا۔ وزیراعلیٰ کے نکلتے ہی سارا سیٹ اکھاڑ لیا جاتا۔ نمائشی طورپر وزیراعلیٰ کے ہاتھوں کچھ سامان تقسیم کرادیا جاتا تھا۔ آج اس سے بھی بُرے حالات ہیں اب تو سستے رمضان بازار بھی ”نمائشی“ اور دکھاوے کے بازار میں جہاں خالص اور معیاری سستی اشیاءنہیں ملتیں۔ بس کارروائی ڈالی جاتی ۔ لیموں اور ڈالر برابر بلند سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ ایک دور میں ایوب خان نے ذخیرہ اندوزوں کو ”نتھ“ ڈالی تھی۔ خاص طورپر ”چینی“ ذخیرہ کرنے والوں کو ایک دھمکی دی تھی کہ کل تک بازار میں چینی نہ ملی تو سب کو لگ پتہ جائے گا۔ اگلے روز چینی کھلے عام فروخت ہورہی تھی۔ حکومت کرنے والے کی اپنی شخصیت بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ یہاں کرنسی ایکسچینج والوں کے ساتھ اجلاس کرنے کے بعد اور وارننگ کے باوجود اگلے روز ہی ڈالر 150تک بڑھ جاتا ہے ؟ کون لوگ اس کے پیچھے ہیں عمران حکومت کو سختی سے نمٹنا پڑے گا۔ ورنہ فلمی سیٹ لگاکر فوٹو شو ہی ہوگا۔ جو اس وقت تک چل رہا ہے۔ ساری حکومت فوٹو شوز پر چل رہی ہے کہاں ہیں آہنی ہاتھ ؟؟
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ