سپریم کورٹ نے توہین رسالت کی ملزمہ آسیہ بی بی کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ آسیہ بی بی کیس کئی سالوں سے عدالتوں میں زیر التواء تھا۔ یہ وہی آسیہ بی بی ہے جس کی حمایت کی پاداش میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ سلمان تاثیر کے سیاسی نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے انتہائی دلیری کے ساتھ آسیہ بی بی کا ساتھ دیا تھا۔
آسیہ بی بی کی اچانک رہائی کا فیصلہ ہم سب کے لیے بےحد حیران کن ہے. لیکن اس فیصلے کے محرکات کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے حقائق سے پردہ اٹھتا ہے۔ موجودہ حکومت حال ہی میں اس ریاست کے اصل مالکوں کی پر زور حمایت سے برسر اقتدار آئی ہے۔ مسند اقتدار سنبھالتے ہی بہت سے عوام دشمن اقدامات کی وجہ سے اسے شدید عوامی ردعمل کا سامنا ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار جب سے اپنے عہدے پر براجمان ہوئے ہیں، ریاست کی پسندیدہ کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ڈیم چندہ مہم وغیرہ جیسی غیر سنجیدہ حرکتیں ان کی ایک مثال ہیں۔ جی ہاں میرے کہنے کا مطلب یہی ہے کہ آسیہ بی بی کی رہائی کا فیصلہ بھی ان کی کٹھ پتلی کارروائیوں میں سے ایک ہے۔ یہ فیصلہ جن حالات میں دیا گیا، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا مقصد عوام کی توجہ مہنگائی، بےروزگاری اور ان دوسرے بےشمار مسائل سے ہٹانا ہے، جن کی شدت میں موجودہ حکومت کے آتے ہی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کے ان اقدامات کا مقصد سرمایہ داروں کو زیادہ سے زیادہ منافع پہنچانے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
اصل عوامی مسائل کے اثرات کو زائل کرنے کے اس منصوبے میں انتہا پسند مذہبی شخصیات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ ملا غریب عوام کو اس فیصلے کے بعد تشدد کی طرف مائل کر رہے ہیں۔ عوام کو شدید معاشی بحران کے باوجود مذہب کے نام پر باہر نکلنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ 31 اکتوبر کو لاہور اور ملک بھر میں تمام بڑی شاہراہوں کو ٹائر اور دوسری اشیاء جلا کر بند کر دیا اور جگہ جگہ توڑ پھوڑ کی گئی۔ اس کی وجہ سے ٹریفک کے شدید مسائل پیدا ہوئے۔آسیہ بی بی کی رہائی کے بعد ایک بڑا مسئلہ اس غریب محنت کش خاتون کے تحفظ کا ہو گا۔ اگر وہ اس ملک میں رہی تو ایک نہ ایک دن کسی مذہبی جنونی کے ہاتھوں ماری جائے گی ۔اس کی جان بچانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اسے اس کے اہل خانہ سمیت کسی دوسرے ملک میں منتقل کردیا جائے۔ اگرچہ آسیہ بی بی کی جلاوطنی بھی اس کے لیے ایک سزا سے کم نہیں ہو گی، لیکن بیرون ملک کم سے کم اس کی جان کسی حد تک ضرور محفوظ رہے گی۔
اس غیر متوقع عدالتی فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر لبرل جشن مناتے اور فیس بکی مجاہدین اس کی مذمت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ احتجاجی مظاہروں کے نتیجے میں ہونے والے ٹریفک بلاک سے سب سے زیادہ یہی لوگ تنگ ہوئے اور متبادل راستے تلاش کرتے نظر آئے۔موجودہ حکومت کے کسی بھی عمل کو اس کے سرمایہ دارانہ مفادات سے جوڑے بغیر دیکھا نہیں جا سکتا۔ موجودہ سرمایہ دار دنیا، جس میں پاکستان جیسا ملک آئی ایم ایف اور چین اور امریکہ جیسی بڑی طاقتوں کا محتاج ہے، کسی بھی صورت غریب عوام سے مخلص نہیں ہو سکتی ۔ وہ وقت دور نہیں جب عوام باہر تو نکلیں گے، لیکن آسیہ بی بی جیسے مسئلے پر نہیں بلکہ ان کا احتجاج دھرتی سے سرمایہ داری کے ناسور کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہو گا ۔ اس کے لیے عوام کی درست سمت میں سیاسی رہنمائی اور انتھک انقلابی جدوجہد کی ضرورت ہے۔
فیس بک کمینٹ