میں گزشتہ دو ماہ سے بسلسلہ ملازمت لندن میں مقیم ہوں. کسی بھی نئی جگہ پر قیام کے دوران انسان فطری طور پر اس کا پرانی جگہ سے موازنہ کرتا ہے.
یہاں کی سیاست گزشتہ کچھ عرصے سے بریکسٹ کے گرد گھوم رہی ہے. 2016 کے ریفرنڈم میں عوام نے اس کے حق میں ووٹ دیا تھا. اس کے نتیجے میں برطانیہ بتدریج یورپی یونین سے الگ ہو جائے گا. اس پر عمل درآمد 31 اکتوبر کو ہونا تھا لیکن وزیراعظم بورس جانسن اسے آگے لے کر جانا چاہتے ہیں. وزیراعظم دسمبر میں نئے الیکشن بھی چاہتے ہیں تاکہ پارلیمنٹ میں ان کی پوزیشن مزید مستحکم ہو. حکومت اور جیریمی کوربن کی حزب مخالف دونوں جانتے ہیں کہ انتخابات کے نتیجے میں بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی بھاری اکثریت لے سکتی ہے. یہی وجہ ہے کہ لیبرپارٹی سر دست انتخابات نہیں چاہتی. تاہم اطلاعات یہ ہیں کہ کوربن ذاتی طور پر الیکشن کے حق میں ہیں.
برطانیہ کی سیاسی شطرنج کے برعکس ادھر پاکستان میں سیاسی دنگل جاری ہے. سیاست ہمیشہ کی طرح عوام کی بجائے شخصیات کے لیے کی جارہی ہے. عمران نیازی نے فی الحال نوازشریف اور زرداری کو چاروں شانے چت کر کے ہسپتالوں میں رکھا ہوا ہے. متوالے اور جیالے نواز اور زرداری کو بھٹو بنانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں. مولوی فضل الرحمن خوب چھلانگیں مار کر نواز اور زرداری کی حمایت کر رہا ہے. مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے. ملک بھر میں محنت کشوں کے مظاہرے جاری ہیں لیکن میڈیا پر ان کی کوئی کوریج نہیں کیونکہ اس کو سیاسی دنگل سے فرصت نہیں ہے.
لندن کی شطرنج ہو یا اسلام آباد کا دنگل، دونوں جگہوں پر گرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کو سہارا دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں. ان کھیلوں سے محنت کش عوام کا کوئی تعلق نہیں ہے. عوام کو فکر ہے تو بس اتنی کہ موجودہ نظام سے چھٹکارا پائے بغیر ان کا اور ان کے بچوں کا معاشی مستقبل آخر کیا ہو گا؟