طب کے شعبے میں کوئی ڈاکٹر شاعری کرتا ہوا پکڑا جائے تو اسے ناکام اور نالائق سمجھا جاتا ہے۔ہمارے ایک معتبر استاد نے مجھ پر طنز کرتے ہوئے ایک لطیفہ سنایا تھا جو مجھے ان کی مجھ پر کی گئی بےشمار مہربانیوں کی طرح کبھی نہیں بھولتا۔
لطیفہ کچھ یوں تھا کہ ایک شاعر نے کہا، "میں اپنی شاعری سے دنیا میں آگ لگا دوں گا”. اس شاعر کی بیوی بولی، "میاں صاحب ایک شعر چولہے میں بھی ڈال دیجیے”۔
ایک سرجن صاحب نے ایک بار مجھ پر جملہ کسا، "یار تم یہاں کیا کررہے ہو، تم تو صرف ایک شاعر ہو”.
ایک اور مشہور فزیشن جو مجھے صرف ایک شاعر کے طور پر جانتے ہیں ایک دن گویا ہوئے، ” میاں آپ شاعر تو اچھے ہیں, لیکن بحیثیت طبیب آپ نے کبھی کچھ ثابت نہیں کیا”.
ایک بہت "ذہین” صاحب جو میرے ساتھ کام کرتے تھے بات بات پر میری طرف دیکھتے اور قہقہه لگا کر کہتے, "یار اس بات پر کوئی شعر ہے تو سناؤ”.
پہلے پہل ایسی باتوں پر میں اتنا کڑھتا کہ خود کو شاعر کہتے ہوئے مجھے شرم محسوس ہوتی. پھر ایک دن مجھے رضی الدین رضی ملے. انہوں نے شاعری کے میدان میں میری حوصلہ افزائی کی. رضی بھائی نے مجھے سخنور فورم ملتان کے دوستوں ارشد عباس ذکی, عمار یاسر مگسی, راشد نثار جعفری, ضیا ثاقب بخاری, نوازش علی ندیم اور سہیل عابدی وغیره سے متعارف کروایا. ان سب دوستوں کی صحبت میں میری جھجک دور ہوئی اور میرے اعتماد میں اضافہ ہوا. جس کا فائده مجھے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی ہوا.
دور جدید میں فنون لطیفہ کی اہمیت کم ہوئی ہے. تخلیق کاروں, شاعروں اور مصوروں کے لیے اس معاشرے میں خود کو تسلیم کروانا بےحد مشکل ہے. معاشرے کا یہ طرز عمل اس حساس طبقے کو چڑچڑا، بدمزاج اور نفسیاتی مریض بنا دیتا ہے. بہت سے شاعر شراب وغیره کی لت میں پڑ کر خود کو تباه کر بیٹھتے ہیں. سرمایہ داری کے دور میں ہر چیز کو پیسے میں تولا جاتا ہے. جس کا فن مالی منافع دے یہ معاشره اس کو تسلیم کرتا ہے خواه وه اسٹیج ڈرامے کی فحش رقص کرنے والی فنکاره ہی کیوں نہ ہو اور جس سے فائده نہ ہو اسے یکسر فراموش کر دیتا ہے خواه وه بیدل حیدری یا پٹھانے خان ہی کیوں نہ ہوں۔
فیس بک کمینٹ