میں ملتان میں پیدا ہوا ، پلا بڑھا ، مسلم ہائی سکول ملتان ،گورنمنٹ کالج سول لائنز اور ایمرسن کالج ملتان میں 1957ءسے 1969ءتک زیر تعلیم رہا۔ یہ وہ دور ہے جب ایک طرف جدید ملتان اس طرح طلوع ہورہا تھا کہ اپنی صدیوں پرانی شناخت کے فخر کو بھی ساتھ لئے ہوئے تھا۔ دوسری طرف ملتان میں ہی روشن خیال افراد کا ایک ایسا گروہ بھی تھا جو جاگیرداروں ، مخدوموں یا انسانوں کو مختلف طبقات میں تقسیم کرنے سے اگرنفرت نہیں کرتا تھا تو اُن کی توہین یا دل آزار ی کرنے میں مسرت محسوس کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ملتان کے بعض اساتذہ گیلانیوں کی انجمن ِ اسلامیہ کے قائم کردہ سکولوں اور کالجوں سے وابستہ رہ کر انہیں محسنِ ملتان خیال کرتے تھے ۔ دوسری طرف بہاءالدین زکریا کے سجادہ نشینوں کا دستر خوان تھا جس سے بہت سارے عقیدت مند اپنے لئے رزق ، روزگار یا عزت چُنتے رہتے تھے۔ مگر تیسری طرف کالونی ٹیکسٹائل ملز ، کھاد فیکٹری ، جی ٹی ایس اور دیگر اداروں کی مزدور انجمنیں تھیں جو آہستہ آہستہ ایوبی آمریت کے خلاف مورچہ قائم کررہی تھیں اور اِ نہیں فکری رُخ دینے میں پروگریسو پیپر لمیٹڈکے ایک اخبار ’ امروز ‘کا ایک بڑا کردار تھا۔ میں ایک بے وسیلہ طالب علم تھا جو ملتان کی اس تیسری دنیا سے وابستہ تھا۔ چنانچہ جب کبھی میری کوئی تحریر بعض خاندانی بزرگوں کو بری لگتی تھی تو وہ کبھی سرگوشیوں میں ، کبھی باآواز بلند پوچھتے تھے کہ اس شخص کا تعلق ملتان کے کس خاندان سے ہے۔ بعض مجھ سے میری ذات بھی پوچھ لیتے تھے لیکن میں اُنہیں بتاتا تھا کہ میں تیسری دنیا کا باشندہ ہوں جو قیام ِ پاکستان سے دو ماہ پہلے ملتان میں پیدا ہوا۔
بہر طور اسلم انصاری کی شاعری ، شخصیت اور طرز ِ تکلم ایسا نہ تھا جو مجھ ایسے’ تیسری دنیا‘ کے فرد کو بالکل متاثر نہ کرتا۔پہلی بات تو یہ کہ وہ پاک دروازے کے رہنے والے تھے جہاں میرا ننھیال تھا۔ دوسری بات یہ کہ میں ملتان کے جن تین بزرگوں کو عمر کے فرق کے باوجود اپنا عزیز ترین دوست شمار کرتا ہوں وہ ارشد ملتانی، حسن رضا گردیزی اور عتیق فکری تھے اور یہ تینوں اسلم انصاری سے بہت محبت کرتے تھے ۔ اسی طرح میں جن کالجوں میں پڑھا ۔ اسلم انصاری صاحب وہاں وقفے وقفے سے پڑھاتے رہے ، گویا انہیں آپ میرا استاد بھی خیال کرسکتے ہیں۔ ان کے علاوہ ریاض انور ، سردار عبدالجبار، ارشد ملتانی اور عمر کمال خان کی بزم ِ ثقافت میں ملتان کے قلعے پر جشن فرید کے نام سے جو ثقافت پرورتقاریر تھیں اُس کی مجلس ِ مذاکرہ اور محفل ِ مشاعرہ میں اسلم انصاری اُن لوگوں میں سے تھے جن کی بدولت ملتان کو بھی علمی اعتبار نصیب ہوا ، مگر ماجرا یہ تھا کہ ہمارے ایک استاد ڈاکٹر اے بی اشرف متعد د اسباب کی بنیاد پر اسلم انصاری کو ناپسند کرتے تھے ۔ ہم سب کے گُرو عرش صدیقی بھی اسلم انصاری کے لئے پسندیدگی کے جذبات نہیں رکھتے تھے۔ پھر ہم سب پہلے ایوب خان اور پھر ضیاءالحق کی آمریت کے دوران جس طرح سوچتے ، لکھتے یا پڑھتے رہے ۔اُس میں اسلم انصاری ہمیں کسی قدر ڈرپوک دکھائی دیتے جو سیاسی خیالات کی تہمت سے بچنے کے لئے خود کو جمالیات پسند کہتے تھے۔ سو ہمارے جیسے چند دوستوں نے انہیں ملے بغیر، پڑھے بغیر یا بغیر سنے بغیر یہ گمان کررکھا تھا کہ اسلم انصاری (1 )ملتان سے اپنی نسبت پر شرمسار یا معذرت خواہ رہتے ہیں ۔(2 )وہ صاحب ِ مطالعہ توتھے مگر اب انہوں نے پڑھنا چھوڑ دیا ہے ۔(3)وہ ہر خوبصورت چہرے کو اپنی جانب متوجہ کرلیتے ہیں جو ظاہر ہے کہ نوجوانوں کی حق تلفی ہے۔ مگر اسی زمانے میں ریڈیو پاکستان ملتان کے ادبی پروگراموں میں شرکت کے ساتھ ساتھ فیچر اور ڈرامے لکھنے کے سبب مجھے احساس رہا کہ اُس میدان میں اسلم انصاری ہم سب پر کئی اعتبار سے فضیلت رکھتے ہیں۔ اور پھر ایسا وقت آیا کہ میں نے براہ راست اپنے ذہن میں موجود ایک فرد ِ جرم سے انہیں آگاہ بھی کردیا مگر جتنے تحمل سے انہوں نے میری باتیں سنیں اور اُن کا جواب دیا یا اب بھی جب اکادمی ادبیات پاکستان کے لئے کتاب لکھتے ہوئے میں اُن کی نجی زندگی کے بارے میں چھ مشکل سوالات محض اپنے آپ کو مطمئن کرنے کےلئے کرنا چاہتا تھا تو میں نے اُنہیں ایک گستاخانہ مکتوب لکھا اور میں دنگ رہ گیا جب انہوں نے میرے 6 دل آزار سوالوں کا تحمل سے جواب دیا۔ پھر مجھے یہ خیال بھی تھا کہ افتخار شفیع ، جاوید اصغر ،مریم غازی اورکئی طالب علم اُن پر لکھ چکے ہیں ۔شمائلہ حسین پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ رہی ہے تو میری یہ تحریر کیا وقعت رکھے ۔اور سب سے زیادہ ڈر مجھے یہ رہا کہ میں شعوری طور پر گستاخ ہی ہوں مگر غیر شعوری طور پر بھی دل آزاری کا ایسا ارتکاب کرتا ہوں کہ پرانے دوست بھی دلبرداشتہ ہوجاتے ہیں اور میں اِس عمر میں اسلم انصاری جیسے بزرگ دوست التفات سے محروم نہیں ہونا چاہتا تھا، مگر یہ اسلم انصاری کی ہی دلجوئی اور دلاسے کا کرشمہ ہے کہ میں نے مذکورہ کام مکمل کر لیا۔
یہاں میں ایک بات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے کسی بھی فیصلے میں ہم نوائی یا حمایت ہمیشہ تقویت دیتی ہے۔ خاص طور پر زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر غلام مصطفی چوہدری کے زمانے میں جب 2000 ءمیں سرائیکی ریسرچ سنٹر قائم ہوا اور مجھے ڈین کے طور پر اُس کا پہلا ڈائریکٹر بنایا گیا ۔ میں نے جن 6 احباب سے سب سے پہلے مشاورت کی اُن میں اسلم انصاری شامل ہیں۔ بعد میں سرائیکی کی بی اے کی اختیاری یا آپشنل کتاب کی ترتیب وتدوین کا معاملہ آیا یا ایم اے سرائیکی کے نصاب کی تشکیل کا یا سرائیکی کتب کی اشاعت اور کتاب خانے کے فروغ کا یا تحقیقی منصوبوں کو منضبط کرنے کا میں نے ہمیشہ اپنے اُستاد شبیر حسن اختر ، اپنے دوست نصراللہ خان ناصر اور اپنے بزرگ دوستوں اسلم رسولپوری اور اسلم انصاری کو ہمیشہ ساتھ پایا ۔ میں اپنی بعض غلطیوں کا بوجھ اِن دوستوں پر منتقل نہیں کرنا چاہتا ، لیکن اگر کچھ کرسکا تو اُن کی حمایت اور رہنمائی کا اعتراف کرنا ضروری ہے۔
6 برس قبل میں نے اپنے سرائیکی کے شاگردعمران میر کے جاری کردہ رسالے ”پیلوں“ پرقبضہ کرنے کا سوچا تو تب بھی میں نے اُسے ایک ایسے سہ ماہی ادبی اور ثقافتی جریدے میں ڈھالنے کےلئے اپنی مجلس ِ ادارت کے علاوہ جناب ِ اسلم انصاری سے مشورہ کیا۔یہی وجہ ہے کہ ”پیلوں“ کی کم وبیش ہر اشاعت میں اُن کی کوئی تحریر شامل رہی ہے۔ حتیٰ کہ پہلے 6 شماروں پر ہم نے ناصرف ”پیلھوں“کے املاءکو اپنایا مگر بہت سے دوستوں کی تجاویزکا جائزہ لینے کے بعد آخری فیصلے کا اختیار جناب ِ اسلم انصاری کو دیا گیا جس کے بعد ہم نے اسے ”پیلوں“ لکھنا شروع کیا۔ہر جریدے کی کامیابی میں ایک بہت بڑے تخلیق کار کی رفاقت کا دائمی احساس ضروری ہے۔ اس لئے مجھے ”پیلوں“کے سلسلے میں انصاری صاحب کی رفاقت نصیب رہی ۔ اسی لئے اس کتاب میں نارنگ صاحب کی ایک کتاب سے متعلق اسلم انصاری کی جانب سے اُٹھائے گئے علمی نکات کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔تاہم میں ابھی بھی سمجھتا ہوں کہ ہماری سرائیکی دُنیا کے بعض دوست انصاری صاحب کی صلاحیتوں کے اعتراف میں بخل سے کام نہ لیں تو وہ تنقیدی اصطلاحات کا بے پناہ ذخیرہ اس زبان کو منتخب کرسکتے ہیں، کیونکہ وہ مولوی لطف علی کے کلام کے شیدائی ہیں اور اُن کے کلام کی بیشتر تراکیب کو ذرا سے تصرف سے ایک بلیغ اصطلاح میں ڈھال دیتے ہیں۔
ملتان کے علمی سلسلے کی جدید کڑی ایمرسن کالج ملتان ہے جو 1920ءمیں قائم ہوا۔ اس درسگاہ سے بڑے بڑے اساتذہ وابستہ ہوئے۔ اسی درس گاہ نے بہت سے عالم، فاضل، ادیب، شاعر، فنکار اور سائنس دان پیدا کئے۔ انہی میں محمد اسلم انصاری بھی ہیں جو یہاں ناصرف زیر تعلیم رہے بلکہ برس ہا برس یہاں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے،اگرچہ وہ بہت بڑے استاد ہیں،تاہم ان کی ذات کا مقدم حوالہ ایک بہت بڑے تخلیق کار اور فلسفہ و تاریخ کے غیر معمولی طالب علم کا ہے،جس نے شعوری طور پر کوشش کی کہ وہ شہر کی تہذیبی امانت اور اس خطے سے متعلق احساس ِ فخر ہو ،اپنی ذات میں منتقل کرے۔مگر اس میں بہت سارے سخت مقامات آتے ہیں۔نا صرف کئی مذاہب ، حملہ آورآئے جنہوں نے عارضی طور پر اس خطے کے تہذیبی تسلسل کو تعطل میں بدل دیا ہوگا اور بہت سارے لوگ اپنے اپنے عقیدے ، اسلوب ِ حیات یا شناخت کی خاطر کٹ مرے ہونگے اور بہت سوں نے مصلحت کا چولا پہن کر طاقتور کی منشاءکے مطابق بہت کچھ بدل دیا ہوگا۔ اس لئے جب ہم پانچ ہزار سال کی روایت کا ذکر کرتے ہیں تو اُس میں فتح مندیاں ہی نہیں ہوتیں، ہزیمتیں بھی ہوتی ہیں۔ رونمائیاں نہیں ہوتیں روپوشیاں بھی ہوتی ہیں ۔ رزمیہ للکار ہی نہیں ہوتی، معافی نامے بھی ہوتے ہیں۔اس لئے جو بھی اجتماعی لاشعور کا امانت دار بننے کی کوشش کرے گا ۔ اس کے تخلیقی وجود میں تضادات سے مشابہہ کئی رنگ بھی آئیں گے ۔
آج پورے ملک میں اسلم انصاری جیسے لوگ کمیاب ہونگے جو چار زبانوں (اُردو، فارسی ، انگریزی، سرائیکی)میں تخلیقی اظہار کرسکیں۔اسی طرح شاعرو ں میں اسلم انصاری ، شہزاد احمد ، جیلانی کامران اور مجید امجد جیسے بہت کم لوگ ہونگے جنہوں نے فلسفہ اور تاریخ کا بہت سنجیدہ مطالعہ کیا ہو۔اور شاید ایسے لوگ نہ ہونے کے برابر ہونگے جنہوں نے تحقیق وتنقید اور تخلیق کا چراغ 80 برس کی عمر میں بھی فروزاں رکھا۔ اس میں شک نہیں کہ اس خطے کی زبان اُردو سے پہلے فارسی تھی ، عربی تھی ، ملتانی تھی اور شاید سنسکرت بھی ہو ۔ مگر اسلم انصاری نے شعوری طور پر اُردو اور فارسی سے اپنارشتہ جوڑا ۔ان زبانوں کے تخلیقی جوہر کو جذب کیا۔ پھر انگریزی زبان پر بھی انہیں دسترس رہی اور وہ جانتے تھے کہ خود پنجاب یونیورسٹی یا لاہور میں فارسی کے نامور اساتذہ انگریزی پر بھی قدرت رکھتے تھے۔ چنانچہ جب کوئی شخص چار زبانوں میں تخلیقی اظہار کرتا ہوتو اُس کے تخیل کی دنیا میں کوئی نہ کوئی قریب یا دور کا دربار ضرور ہوتا ہے ۔ جہاں کا ملک الشعراءبننے کی تمنا اسے ہوتی ہوگی۔دربار سے خلعت ِ فاخرہ یا مسند ِ عالی کی توقع بھی رہتی ہوگی۔اُردو دنیا نے اسلم انصاری کو صف ِ اول کے لکھنے والوں میں جگہ دی مگر فارسی اور انگریزی نے انہیں حسب ِ دل خواہ مقام نہ دیا۔تب وہ اپنے خاندان اور شہر کی مٹھاس کا ذریعہ بننے والی زبان ملتانی کی طرف لوٹے، انہوں نے سرائیکی میں ایک رفیع الشان ناول ’بیڑی وچ دریا‘ لکھیا،جس میں اپنے تخییلی ہم زاد،اس ناول کے ہیرو سانول کے بارے میں لکھا:
اُردوترجمہ :(کبھی کبھی مجھے یہ بالکل ہی یاد نہیں آتا تھا کہ میں کہاں سے آیا ہوں ، حالانکہ یہ یاد کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ میرے آس پاس کے سبھی مجھے یہ یاد دلاتے تھے کہ میں یہیں کا پیدائشی ہو ں اور میری سات پشتیں یہاں کی ہیں۔ اس لئے مجھے اس وہم میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ میں کہاں سے آیا ہوں۔ پر کبھی کبھی جب میں اکیلا ہوتا تھا اپنوں سے ذرا دور ، تو مجھے لگتا تھا کہ میں وہ نہیں جو کچھ میں ہوں یا کم از کم اُن میں سے نہیں ۔ جن کے ساتھ میرا رات دن کا واسطہ تھا۔مجھے لگتا کہ میرا رشتہ کچھ اور لوگوں کے ساتھ ہے جو پتہ نہیں کہاں رہتے ہونگے اور کیا کرتے ہونگے ؟اس لئے میں اپنے خاندان کے بوڑھوں سے اپنی پیدائش کی تفصیل سن چکا تھا اور ہر مرتبہ وہ ایک جیسی کہانی سناتے تھے ۔یہاں تک کہ کسی دوسرے سے وہ قصہ پھر سے سنتا جب پہلا راوی موجود نہ ہوتا۔ تب مجھے احساس ہوتا کہ اگر میں اُن میں سے نہ ہوتا تو کسی کا بیان تو تبدیل ہوتا۔)
( جاری )
فیس بک کمینٹ