ہرنظریاتی ریاست میں بڑے تخلیق کار کی آزمائش ہوتی ہے کہ وہ منظور شدہ لفظوں میں بولتا رہے ، سرکاردربار میں پذیرائی حاصل کرے یا پھر ہکلاہٹ کو زبان دے اور ایک غیرمنظم اضطراب کو بامعنی بنائے، یوں اُس کا بھرم یا ساکھ سرکار کی نظروں میں تو نہیں رہتی مگر معاشرے کے کمزور اور بے بس لوگوں میں نہ صرف اُس کا اعتبار قائم ہوتاہے بلکہ یہی لوگ ایسے باغی کی شخصیت کے گرد ایک رومانی ہالہ بھی بنا دیتے ہیں۔ پاکستان میں اِس طرح کی صورتِ حال کو سمجھنے کے لیے تین چار باتوں کو ذہن نشین کرنا چاہیے کہ ایک تو مُلّا کی سخت گیری، یک رُخے پن اور فتویٰ بازی سے غیرمذہبی حکمران طبقات نے ہمیشہ فائدہ اُٹھایا۔ اس لیے عوام میں ملامتیہ رنگ رکھنے والے صوفی، بھگت اور رِند ہمیشہ مقبول رہے۔ یوں اشرافیہ کی تہذیب و ثقافت اور نچلے طبقے کے رہن سہن ہی نہیں مابعدالطبیعاتی تصورات اور تعبیرات میں بھی ہمیشہ فاصلہ رہا۔ دوسرے، جنگ عظیم دوم کے دوران ہی امریکہ کی دلچسپی عالمِ اسلام میں غیرمعمولی طور پر بڑھ گئی تھی اِس لیے کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اتاترک نے اپنی ڈائری میں برطانیہ کو ہدفِ تنقید بنایا مگر ترکی میں امریکی سفیر کو اپنا دانش مند دوست قرار دیا۔ بغداد پیکٹ اور سینٹومیں عراق کے ساتھ ایران، ترکی اور پاکستان کی رکنیت اور امریکہ کی سرپرستی کی قبولیت جیسی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ میں سب سے فعال کردار فوج کا رہا ہے۔فوج کے بعض سینئر افسروں کے سیاسی عزائم قیامِ پاکستان سے پہلے ہی یعنی قائداعظم کی موجودگی میں ہی اقتدار پر قابض ہونے کے رہے ہیں۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے دوسرے اہم رکن یعنی بیوروکریسی کے نمائندہ ایک پاکستانی وزیراعظم چودھری محمدعلی نے اپنی کتاب ”ظہورِپاکستان“ میں ایک معنی خیز واقعہ لکھا ہے: ”بریگیڈیئر کے،ایم،کری آپاسے ایک مسلمان فوجی افسر نے کہا اگر ایسانہیں ہوسکتا تو پھر سیاسی لیڈر بھاڑ میں جائیں، اس سے بہتر یہ ہوگا کہ تقسیم ہونے کی جگہ فوج ہی دونوں ڈومینینوں کا انتظام خود سنبھال لے۔“]ص232[ گمان غالب ہے کہ یہ مسلمان فوجی افسر فیلڈمارشل محمدایوب خان تھے جو دَس برس پاکستان پر حکمران رہے۔ اِسی طرح 9 مارچ 1951 ءکو فوجی افسروں اور بائیں بازو کے بعض دانشوروں کو اس الزام کے تحت گرفتار کیا گیا کہ یہ حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کر رہے تھے، اسے پنڈی سازش کیس کا نام دیاگیا، اس سازش کے سرغنہ میجرجنرل اکبرخان کا موقف یہ تھا ”23 فروری 1951ء کے روز میرے گھر میں آخری میٹنگ ہوئی، جسے پنڈی سازش کیس بنا کرخوب مشہور کیاگیا، اس میٹنگ نے سات گھنٹوں کی بحث و تمحیص کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ مجوزہ کارروائی پرعمل نہیں کیا جائے گا۔“ ]میجر جنرل اکبر خان ،(ترجمہ عنایت اللہ) ”کشمیر کے حملہ آور اور پنڈی سازش کیس“، ص991۔[ تاہم وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مجوزہ کارروائی میں یہ سب کچھ شامل تھا ”پرانی حکومت کو برطرف کردیا جائے، نگران سول گورنمنٹ بنائی جائے، بالغ رائے دہی کی بنیاد پرعام انتخابات کے لیے تاریخ مقرر کی جائے، آئین بنانے کے لیے آئین ساز اسمبلی بنائی جائے، انتخابات میں غیرجانب داری قائم رکھنے کے لیے فوج کی غیرجانب دار مشینری استعمال کی جائے اور تمام جرنیلوں کی ایک مشاورتی کونسل بنائی جائے۔“]ایضاً، ص991 [بہر طورفوج،بیورو کریسی اور پاکستان کے جاگیر دار پھر بڑے تاجروں کے مشترک مفادات نے جو سنڈیکیٹ تشکیل دیا،اسکی سرپرستی ہمیشہ امریکہ نے کی،اس لئے بائیں بازو کی سیاست کو ہمیشہ وفاقِ پاکستان بلکہ آئیڈیالوجی کے لئے خطرہ خیال کیا گیا۔اور اس کے لئے امریکہ نے پاکستانی افواج کے سربراہ کے طور پر اپنا آدمی یااپنے مفادات کے قریب تر آدمی کوپسند کیا۔ اس طرح کے معاہدوں کے لئے جواز یہ بھی پیش کیا گیا کہ بھارت نے پاکستان کے وجود یا تقسیمِ ہند کو قبول نہیں کیا،اس لئے نظریہءپاکستان کے بنیادی اجزا میں مذہبیت اور بھارت دشمنی کا رنگ نمایاں رہا۔
خالد بن سعید نے لکھا ہے کہ 1950-1958ءکے عرصے میں پاکستان نے سات وزرائے اعظم اور ایک کمانڈرانچیف کودیکھا، جب کہ اس عرصے میں بھارت میں وزیراعظم تو ایک رہامگر کمانڈر انچیف بہت سے ہوئے["Politics in Pakistan”, P.32]۔ اسی طرح یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ جب 1953-1954ء میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان جنگی امداد کے موضوع پرمذاکرات جاری تھے، تو امریکہ کی خواہش تھی کہ پاکستان کے گورنرجنرل کی بجائے کمانڈرانچیف ہی صدر امریکہ آئزن ہاور سے معاملات طے کریں [Mohammad Ahmad, "My Chief”, P.75-76]۔ اسی طرح یہ بھی کوئی راز نہیں کہ 1954ءمیں اُس وقت کے گورنر جنرل اور بیوروکریسی کے ایک اور سازشی نمائندہ نے دستورساز اسمبلی کو کالعدم قرار دینے سکندرمرزا نے پاکستان کے پہلے دستور (1956 ) کی تنسیخ اور اسمبلیوں کی برطرفی کا فیصلہ کرکے 7 اکتوبر 1958ءکو مارشل لاءنافذ کیا، تو وہ بھی مسلّح افواج کی تائید پربھروسے کا عملی اظہار تھا، چنانچہ اس نے جنرل محمدایوب خان کوچیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور وزیراعظم بنا دیا[Ibid, P.9]۔ یہ اور بات کہ جنرل محمد ایوب خان نے 27اکتوبر1958ءکو اقتدار پر قبضہ کیا تومحض چھ ماہ بعد یعنی 18اپریل 1959ءکو پروگریسو پیپرز یعنی ”پاکستان ٹائمز“ ، ”امروز“ اور ہفت روزہ ”لیل و نہار“ کے دفاتر پر قبضہ کیا گیا، اِن جرائد کے باضمیر صحافی (مظہرعلی خان، احمدندیم قاسمی اور سیّدسبط حسن)مستعفی ہوگئے ، ’پاکستان ٹائمز‘ کے چیف ایڈیٹر فیض احمدفیض کو دسمبر1958ءمیں ہی گرفتار کرلیا گیا تھاچنانچہ ”پاکستان ٹائمز“ لاہور کا 19اپریل 1959 ءکا اداریہ ”نیولیف“ کے نام سے ایک دانشور بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب نے لکھا ۔ کچھ عرصے بعد اشفاق احمد کو ”لیل و نہار“ کا ایڈیٹر بنادیا گیا چنانچہ یہ بہت اہم بات ہے کہ روحانی مکاشفوں کے دعووں اور پاکستان کے بارے میں فکرمندی کے بلند آہنگ اظہار کے باوجود شہاب اور اشفاق احمد کو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کا کارندہ خیال کیا گیا۔ایوب خان کو ہر ڈکٹیٹر کی طرح اقتدار کی طوالت سے دلچسپی رہی،اگرچہ اس کے دور میں نظریہ پاکستان کی متشددانہ پرچارک جماعت ،جماعتِ اسلامی کو ریاستی وسائل پر تصرف کے مواقع نہ ملے،لیکن اس کی تلافی جنرل ایوب کے جانشیں جنرل یحییٰ کے دور میں ہو گئی،جب امیرِ جماعتِ اسلامی میاں محمد طفیل نے جنرل کی قائم کردہ کارنیلئس کمیٹی کی سفارشات کو عین اسلامی قرار دیا تھا،اسی طرح مشرقی پاکستان میں اسی جماعت نے الشمس اور البدر کے نام سے جو مسلح رضاکار تنظیمیں فوج کے تعاون سے بنائیں اور پھر وہاں کی حقیقی سیاسی قیادت کے خلاف آرمی ایکشن کے بعد یک طرفہ ضمنی انتخابات کا سوانگ رچایا گیا، اُس میں بھی پارلیمنٹ کی نشستوں کا ایک بڑا کوٹہ اِسی جماعت کو منتقل ہوا لیکن اِس جماعت کو حسبِ منشا نظریہ پاکستان کی تعبیر کا موقع پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ اُلٹنے والے جرنیل ضیا الحق کے دَور میں ملا۔ ضیا الحق کے نفسِ ناطقہ کے طور پر اِس جماعت میں تعلیم اور انفارمیشن کے ذرائع پر مکمل قبضہ کیا، نہ صرف نصاب کو اور انفارمیشن پالیسی کو اپنی مرضی سے ڈھالا بلکہ پاکستان کے دوبانیوں جناح اور اقبال کی تقاریر، اقوال کو بھی ایڈٹ کیا، روشن خیال اساتذہ، صحافیوں اور دانشوروں پر حتی الامکان روزگار کے دروازے بند کیے، بڑے پیمانے پر اساتذہ کو پابندِ سلاسل کیا گیا، عقوبت خانوں میں رکھا گیا، صحافیوں کو کوڑے مارے گئے اور اُس زمانے میں کھلم کھلا یہ کہا گیا کہ ہمیں نظریہ پاکستان کی حفاظت کے لیے پاکستانیوں کی کثیر تعداد کو ہلاک بھی کرنا پڑا تو ہم کرگزریں گے۔ اِسی زمانے میں امریکہ کو ویت نام میں اپنی ہزیمت کا بدلہ روس سے لینے کے لیے افغانستان کے میدان میں ایک ایسا جہاد برپا کرانا پڑا جس میں پاکستانی فوج، اعلیٰ قیادت اور جماعتِ اسلامی نے سب سے زیادہ مفادات حاصل کیے اور یوں مُلّا ملٹری الائنس وجود میں آیا ، پاکستان کے اندر تشدد کی نرسریاں ہزاروں کی تعداد میں پروان چڑھیں اور اقبال کے اتحادِ عالمِ اسلام کے تصور کی مسخ شدہ تعبیر پیش کی گئی۔ سرکاری سطح پر اشتیاق حسین قریشی جیسے مورخین کو پذیرائی حاصل ہوئی، انہیں مقتدرہ قومی زبان کا سربراہ بنانے کے لیے اِس ادارے کو تخلیق کرنا پڑا، شریف الدین پیرزادہ ، جسٹس جاویداقبال اور اِسی طرح کے دانشوروں کو سرکاری نظریے اورمقاصد کے پرچار کے لیے مواقع دئیے گئے۔ گویا اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ضیاءالحق دور میں ایسی نظریاتی تعبیر پر اصرار کیا گیا،جس کے مطابق پاکستان کی اساس متشددانہ مذہبی ذہن کے تشکیل کردہ تصورات پر تھی چنانچہ صلوٰة کمیٹیاں، زکوٰة اور عشر کمیٹیاں بنائی گئیں، سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں میں ریکارڈ میں درج ہونے والی عبادات کی ادائیگی کے احکامات جاری ہوئے۔ بظاہر یوں دکھائی دیتا تھا کہ ٹینکوں کے مقابل چندسو نہتی آہیں، کچھ شاعروں کے گیت اور چند افسانے یا ڈرامے خوش وقتی اور خوش خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ مگر ضیاءالحق کے گیارہ سالوں میں اُس کے خلاف سیاسی مزاحمت کرنے والوں کو بھی ذہنی، جذباتی اور جمالیاتی تحریک دینے میں اگر اُردو شعر و ادب کے حوالے سے دیکھیں تو فیض احمدفیض کی شاعری اور شخصیت کی دل آویزی اور فیض رسانی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ( افسانے کی دنیا میں منٹو کی تحریروں کی ایک طرح سے بازآفرینی ہوئی ، خاص طور پر ’شہیدساز‘، ’اللہ کا بڑا فضل ہے‘، ’دیکھ کبیرا رویا‘، ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ اور کئی افسانے ضیا کے دَورِ ریا میں بھرپور معنوی آگہی اور سرشاری کے ساتھ پڑھے گئے۔)
فیس بک کمینٹ