فن کی تفہیم و تحسین میں فن کار کی شخصیت کو مرکزی حوالہ بنانے کے خلاف بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ تخلیقی عمل کے دوران فنکارsublimate کرتا ہے یا رفعت و بالیدگی سے ہم کنار ہوتاہے اس طرح اس کی رسمی ذات اور تخلیقی وجود کے مابین، تخلیقی لمحات میں فاصلہ پیدا ہوجاتاہے۔ یوں اس لمحے کی سچائی کا عکس فنکار کی رسمی ذات میں تلاش کرنا، کارعبث ہے حالانکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ریاضت تہذیب و تربیت اور اکتساب کے بعد بھی کوئی رسمی ذات، شخصیت کے رتبے پر فائز ہوتی ہے۔ دوسرے تخلیقی عمل کے دوران فن کار جس فکری و حسیاتی بالیدگی اور وجدانی رفعت سے آشنا ہوتاہے۔ وہ اس کی شخصیت کا جزو بن جاتی ہے۔ وگرنہ اس میں اور پارسائی کے اس جبے میں کیا فرق رہ جائے گا جو منبر پر جلوہ افروزی کے وقت اوڑھ لیا جائے۔ تیسرے ہر وہ فن کار جو اجتماعی زندگی میں صداقت، حُسن اور نیکی کی روشنی میں پھیلانے کا وعدہ کرتاہے۔ جو شرف آدمیت، انسان دوستی، سماجی انصاف کی عالم گیری کا خواب دیکھتا اور دکھاتاہے اور وہ اگر اپنی سماجی زندگی میں ریاکار، کم ظرف، کم حوصلہ اور مردم آزار ہو تو اس کے فن کی اثرپذیری معلوم!
فیض احمدفیض [1911۔1984] ہمارے عہد کی ایک عظیم شخصیت تھے ،زندگی میں ان کا طرزعمل اور رویہ انہی قدروں کا آئینہ دار تھا جن سے ان کا عہدِوفا استوار تھا۔ شاعروں اور فن کاروں سے ناقدری عالم کا گلہ اکثر سننے میں آتا ہے اور اس کا شاید جواز بھی ہے۔ فیض کی جو نظمیں امرہوگئیں ”نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے“ یا ”آج بازار میں پابجولاں چلو“ یا ”ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے“ تو اِن مصرعوں کو جادوئی بنانے والے اُس کے حقیقی تجربات بھی ہیں۔ وہ 9مارچ 1951ءسے 20اپریل 1955ءتک قید میں رہے ، پھر دسمبر1958ءسے لے کر اپریل 1959ءتک اسیر رہے، ضیا الحق کے زمانے میں اُنہیں سرکاری سطح پر جلاوطن تو نہیں کیا گیا مگر یہ ایک طرح سے اُن کا طویل جلاوطنی ہی کا تجربہ تھا جس نے اُن سے ”دلِ من مسافر من“ جیسی نظم تخلیق کرائی۔ فیض نے اسیری میں بے روزگاری میں ، کفر اور غداری کے فتووں میں طعن و تشنیع کے ماحول میں جلاوطن کے ایام میں بھی کبھی ناقدری عالم کا گلہ نہیں کیا۔ نہ ڈکٹیٹروں کو طولِ اقتدار کا حوصلہ دینے والی زمین سے جنم لینے پر تاسف کا اظہار کیا، نہ ذرائع ابلاغ اور سرکار دربار سے وابستہ لوگوں کے آنکھیں بدلنے پر ملول ہوئے۔ان کی شاعری کو دل آویز بنانے میں ان کی رومانوی شخصیت کو بڑا دخل ہے،ان کی پہلی معروف نظم’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ،‘ اور اس کے اس مصرعے’راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا‘ کے بارے میں ایک فیمنسٹ نقاد نے کہا کہ یہ نظم عورتوں اور نسائی کشش کے خلاف ہے،چنانچہ میں ایک مضمون فیض کے خلاف لکھ رہا ہوں،میں نے بڑے ادب سے اسے کہا کہ یہ یاد رکھو ،یہ رشید جہاں نے ہی فیض سے کہا تھا،جس کا اعتراف انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں بھی کیا ہے۔
ان کے پہلے شعری مجموعے میں ان کی ایک نظم’رقیب سے‘ کے ذریعے ان کا نظریہ یا موقف ہی نہیں،وہ جمالیاتی تجربہ بھی سامنے آتا ہے،جو ملکیتی سماج میں پروان چڑھنے والی محبت کو کشادگی فکر و نظر کا وسیلہ بنا دیتا ہے،
عاجزی سیکھی،غریبوں کی حمایت سےکبھی
یاس و حرمان کے ،دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے،رخِ زرد کے معنی سیکھے
(نسخہ ہائے وفا،ص70)
اسی طرح،ان کے یہ اشعار غیر جمہوری اور فاشی دور میں مزاحمت کرنے والے طالب علموں،استادوں،صحافیوں اور دانش وروں کے لئے ایک وعدہ،ایک تسلی، ایک خانہ سوز وارفتگی کا جواز بنے رہے ہیں،
گر آج تجھ سے جدا ہیں،تو کل بہم ہوں گے
یہ چار دن کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اوج پہ ہے،طالعِ رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہدِوفا استوار رکھتے ہیں
علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں
(ایضاً، ص163)
___________________
رنگیں لہو سے پنجہءصیاد کچھ تو ہو
خوں پر گواہ دامنِ جلّاد کچھ تو ہو
جب خوں بہا طلب کریں بنیاد کچھ تو ہو
(ص،182)
چشمِ نم جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشقِ پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پابجولاں چلو
(ص،333)
___________________
ہر اِک اولی الامر کو صدا دو
کہ اپنی فردِ عمل سنبھالے
اُٹھے گا جب جمع سرفروشاں
پڑیں گے دارو رسن کے لالے
کوئی نہ ہو گا کہ جو بچا لے
جزا سزا سب یہیں پہ ہوگی
یہیں عذاب و ثواب ہوگا
یہیں سے اُٹھے گا شورِ محشر
یہیں پہ روزِ حساب ہوگا
(ص،619)
___________________
فیض کے بعض معاصرین کے حسد ، ترقی پسند تحریک کے مخالفین اور اسٹیبلشمنٹ کے پیش کردہ نظریہ پاکستان کے بعض وکیلوں کے فتویٰ نما تبصروں کے باوجود پاکستانیوں کی اکثریت کو اُن سے والہانہ پیار ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے صرف غمِ جاناں اور غم
ِ روزگار کا فرق ہی نہیں سمجھایا بلکہ یہ بھی بتایا کہ غمِ روزگار کو غمِ جاناں بنانے کے لیے کتنی ریاضت کرنا پڑتی ہے۔اِن لوگوں کا یہ بھی یقین
ہے کہ ان کی پوری زندگی انسانوں اور انسانیت کی اعلیٰ قدروں میں صرف ہوئی، جیل سے ایلس کے نام لکھے گئے خطوط میں سے دواقتباسات دیکھئے:
”اس اجتماعی دکھ درد کے علاوہ، جو صرف معاشرتی انقلاب ہی سے دُور ہو سکتاہے، انفرادی رنج و ملال کے ایسے اسباب بھی بہت ہیں، جو تھوڑی سی محبت، شفقت اور سمجھ بوجھ سے اگر دُور نہیں کیے جا سکتے تو کم ضرور کیے جا سکتے ہیں۔‘[’صلیبیں مرے دریچے میں ‘ص 83]قفس میں بلکہ موت کے سائے میں رہ کر بھی فیض کو یقین ہے کہ ”اگر آج کا دن موجود ہے ، توکل کا دن بھی برحق ہے۔ اسی طرح ہردکھ بھرا دن جو گزرتا ہے ، اپنی تسکین اپنے ساتھ لاتا ہے، یہ تسکین لاتا ہے کہ جو دن گزر چکا ہمیشہ کے لیے معدوم ہو چکا اور اس کے بعد جو بھی دن آئے گا، اس سے مختلف ہوگا اور بہت ممکن ہے کہ اس سے بہتر ہو، اس لیے لازم یہی ہے کہ آنے والے دنوں پر نظر جمائے رکھیں اور بیتے دنوں کو جملہ ساکنان عدم کے ساتھ دفن ہو جانے دیں۔“[ ایضاً،ص 120]
ڈاکٹر آفتاب نے اپنی کتاب میں فیض کی طرف سے اس اعتراف کا ذکر کیا ہے کہ راشد ان سے زیادہ ذہین تھے،پھر انہیں باغی بلکہ ایک منحرف کی شہرت بھی حاصل تھی،مگرفیض کی ثقافتی پذیرائی کو نہتے اور بے وسیلہ لوگوں کی بے بسی کے تناظر میں دیکھنا چاہئے،جو اپنی محبوب شخصیتوں کو قید و بند سے،جلاوطنی یاعقوبت سے نہیں بچا سکتے،البتہ اس کا کفارہ بڑھی ہوئی والہانہ محبت سے ادا کرتے ہیں۔
شاید یہ بات کسی کو بڑ ہانکنے کے مترادف لگے ،مگریہ ایک حقیقت ہے کہ جب ضیاءالحق کے دور میں پاکستانی جامعات کا نظام صالحین نے سنبھال لیا تھا اور”کمیونزم کے خلاف جہاد “ کو وسیلہ روزگار بنالیا گیا تھا،ملتان یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے نصاب میں مطالعہ فیض کو شامل کیا گیا،اورمارچ 1981 میں پابندِ سلاسل کئے جانے والے اساتذہ میں سے ایک صلاح الدین حیدر کو فیض کے فکر و فن کے موضوع پر
ڈاکٹریٹ کے لئے رجسٹرڈ کیا گیا اور انہوں نے ڈاکٹر سلیم اختر اور انواراحمد کی نگرانی میں یہ کام مکمل کیا۔حالانکہ اُس وقت یونیورسٹیوں میں ترقی پسند تحریک کے خلاف ہی لکھنے کی اجازت تھی۔ یہ حوالہ محض اس لئے دیا گیا کہ جہاں ایک طرف وزیر آغا فیض کی شاعری کو انجماد کی مثال قرار دے رہے تھے[نظمِ جدید کی کروٹیں]،مظفر علی سید ،فیض کی شاعری پر صوفی تبسم کے استادانہ قلم کے فیض کا ذکر کر رہے تھے[یادوں کی سرگم ] اور مشفق خواجہ ان کے الحاقی مصرعے اور عروضی غلطیاں تلاش کر رہے تھے[ خامہ بگوش ،جسارت کراچی] اور احمد ندیم قاسمی بھی فنون کے اداریوں میں اس آزردگی کو ظاہر کر رہے تھے کہ دورہ چین میں صحافیوں کے دورے پر انہوں نے چینیوں سے ندیم کا تعارف بطور شاعر کیوں نہیں کرایا تھا، مگر آج اتنا وقت گذر جانے کے بعد یہ حقیقت روشن تر ہے کہ اقبال کے بعد فیض اردو کا دوسرا شاعر ہے،جسے بین الاقوامی شناخت ملی ہے اور عوامی سطح کی پذیرائی بھی۔
فاطمہ جناح ،بے نظیر بھٹو،عاصمہ جہانگیر اور ویمن ایکشن فورم کی سیاسی اور قانونی جدوجہد نے پاکستانی معاشرے میں عورت کے حوالے سے جہاں کچھ فتویٰ فروشوں کو پسپا کیا وہاں عورت کے حقوق اور اُس کی توقیر کے حوالے سے بعض تعصبات کو بھی معتدل بنایا یا ان کا ڈنگ نکالا ۔ اِسی تناظر میں بظاہر ملامتی پیرائے میں مزاحمتی اظہار کرنے والی خواتین تخلیق کاروں نے نہ صرف اپنی نظم و نثر کا اعتبارپیدا کیا بلکہ اُردو تنقید میں نسائیت کے حوالے سے ردِتشکیل کی بعض ایسی کاوشیں بھی کیں،جن کے بعد قارئین کو یہ موقف بھی قابلِ توجہ سمجھنا پڑا کہ مردانہ تعصبات یا ملکیتی سماج میں مرد کی برتری پر قائم معاشرے میں اردو داستانوں میں عورت کی بے وفائی یا دوسری اصناف میں اس کی ایک خاص طرح کی پیکر تراشی کو نفسیاتِ انسانی کا آخری اور حتمی حوالہ خیال نہیں کرنا چاہئے ۔ یہی وجہ ہے کہ کشور ناہید، فہمیدہ ریاض اور زاہدہ حنا کی تخلیقی، فکری اور عملی کاوشیں مرد کی فوقیت پر قائم معاشرے کے بہت سے تصورات کو متزلزل کر رہی ہیں۔ اِسی طرح اُردو کے علاوہ سندھی،پشتو،بلوچی،سرائیکی،پنجابی یا دیگر زبانوں میں تخلیق کار، شرف آدمیت اور اپنی شناخت کے ساتھ ساتھ حقوق کی بات کرتے تھے اور اُنہیں ریاست کا وفادار خیال نہیں کیا جاتا تھا تو اَب اُردو اور اِن زبانوں کی تخلیقی دنیا کی فضا میں ایک ربط سا پیدا ہو رہا ہے۔
فیس بک کمینٹ