احمدایک طبقاتی سماج میں مراعات یافتہ طبقے کے لیے قانون ،عدالت، درس گاہ کے ساتھ ساتھ،روزگاراوراظہار کے وسائل اور ہیں اور کم وسیلہ طبقے میں اور،یہی نہیں عالمگیریت کے بھی علیحدہ علیحدہ تصورات ہیں، گویا شرفِ آدمیت کو ترسے ہوئے طبقے کے لئے بنیادی انسانی ضرورتوں کے ساتھ تعلیم ،ہمدردی ،عدل ،امید،یا زندگی کا نصب العین، جدوجہد اور خواب یکسر اور معنی رکھتا ہے اور انگریزوں کی دی ہوئی جاگیروں،گدیوں اور املاک کے علاوہ ڈکٹیٹروں کی عنایات سے قوم فروشی کے عوض ملنے والی آسودگیوں میں زندگی گزارنے والوں میں اور۔ ایک مدرس ہونے کے ناطے میرا واسطہ نظیر اکبر آبادی کی طرح صرف ایک طبقے کے بچوں سے رہا ہے اور اب تک ہے۔ مجھے کبھی کبھار احساس ہوتا ہے کہ اس طبقے کو اپنی جد و جہد کو ایک رومانوی خواب بنانے والے استاد ، سیاسی کارکن اور ادیب یا مفقود ہو رہے ہیں یا پھر تیزی سے غیر مؤثر ہو رہے ہیں۔
طبقاتی ناہمواری کا احساس تو آج سے ساٹھ ستر برس پہلے بھی تھا مگر ہمارے کم وسیلہ طبقے کے بچوں ، درسگاہوں اور استادوں کا عالم ایسا نہ تھا ۔یہ درست ہے کہ کچھ نصابی کتابوں کے طفیل یا میڈیا کے ذریعے لوگ یہ جان لیتے ہیں کہ اقبال کے علاوہ غالب ،میر اور فیض اور جالب بھی کوئی شاعر تھے ،جن کے ایسے مصرعے بھی ٹی وی یا ریڈیو کے ذریعے ان کے کانوں میں پڑ جاتے ہیں :
’ ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا ‘
یا ’جب تاج اُچھالے جائیں گے اور تخت گرائے جائیں گے‘
مگر شاید انہیں اندازہ نہیں کہ ان کی پیدائش سے پہلے اسی سماج میں ایک وقت تھا کہ سماجی عدل کی بنیاد پر ایک سوشلسٹ انقلاب اس بے وسیلہ طبقے کی زندگی کا سب سے سنہری خواب تھا، وہ خیال کرتے تھے کہ اس انقلاب کے بعد جاگیرداری ختم ہو جائے گی، پیر پرستی کا نشان نہیں رہے گا، سرمایہ دار ی کا زور منافع کی بنیاد پر پیداوار پر نہیں انسانی ضرورت کی بنیاد پر پیداوار ہو گا،بلکہ پیداوار کی تقسیم کا ایک منصفانہ نظام ہو گا۔ لوگوں کو کوڑے مارنے والے، آئین پامال کرنے والے ،عدالتوں سے من پسند فیصلے لینے والے ، مردان آہن کو تشکیل دینے کی نظریاتی فیکٹریاں بند ہو جائیں گی، مزاحمت کرنے والے سیاسی کارکن اور جماعتیں عوام کی تائید سے برسر اقتدار آجائیں گی۔ عوامی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی، اختیارات کی تقسیم نچلی سطح تک ہو گی وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن آج گذشتہ تیس برس کی شکست و ریخت پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ایک عجیب و غریب منظر سامنے آتا ہے ۔چند سرمایہ دار کمپنیاں ،دنیاکے جغرافیائی نقشے کو ہی نہیں ثقافتی اور لسانی نقشے کو بھی بدلنے کی کوشش میں ہیں۔ اس بدمست نظام کا محافظ امریکا ہے۔ روس اور چین بھی اس کے کوئی بہت بڑے حریف نہیں رہے۔ ادھرپاکستان کی سرحدوں پر ایران ،افغانستان، بھارت اور مشرق وسطیٰ کی ریاستیں اپنا روایتی کردار تبدیل کر چکی ہیں، کہیں آتش فشاں سُلگ رہے ہیں اور کہیں پھٹ رہے ہیں۔تیسری دنیا ، اتحاد عالم اسلام ، نیٹو، سیٹو، سینٹو اور سارک یا دم توڑ چکے ہیں یا سسک رہے ہیں۔ خود کش جیکٹ طاقت وروں کا سب سے بڑا تحفہ ہے جو دیہاڑی دار مزدوروں اور اپنے بچوں کے بھیانک مستقبل سے افسردہ لوگوں کے لیے! یا پھر مدارس میں پالے گئے یتیم بچوں کے محشرستان میں حوروں سے وصال کے آرزومندوں کے لیے یہی جیکٹ ایک جذباتی وسیلہ ہے۔ گویا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے، ایک ایسی نسل وجود میں آچکی ہے جسے اس سے غرض نہیں کہ قرار داد پاکستان میں دو ریاستوں کا ذکر تھا یا ایک ریاست کا ۔ یہ وہ نسل ہے جس نے پاکستان کی قرار داد پیش کرنے والوں یا خود مسلم لیگ کو تشکیل کرنے والوں کے ہاتھوں پاکستان کی تقسیم کا ہولناک ڈرامہ نہیں دیکھا ۔ وہ 16 دسمبر 1971 ء کی تذلیل سے نہیں گزرے۔ ان کے منہ پر پلٹن میدان میں نہ کسی نے جوتا پھینکا نہ ان کے چہرے پر تھوکا گیا۔ اور تو اور ان میں سے بہت سوں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ پانامہ کی آف شور کمپنیاں، سوئس اکاﺅنٹ ، دبئی محلات، شوگر ملوں کے مالکوں کا مافیا،قائد ایوان، اور قائد اختلاف کے گٹھ جوڑ کے بعد پارلیمنٹ کی مسخرگی کے روبرو ان تحریروں کا مصنف یہ میجر محمد اسحاق کون تھا؟ یہ کسان مزدور پارٹی کیا تھی؟ اور یہ ان کی فکر کا شمع بردار ’عوامی مورچہ‘ کا مدیر محفوظ خان شجاعت کون ہے؟
ادب کے طالب علموں کو تو جاننا چاہیئے کہ میجر اسحق کون تھا ؟ وہی جو فیض احمد فیض کے ساتھ پنڈی سازش کیس میں ماخوذ ہوا اور چار برس ان کے ساتھ قید میں رہا اور فیض نے اپنے تیسرے مجموعے ”زنداں نامہ“ کا دیباچہ اسے لکھنے کو کہا۔ تب اس نے لکھا تھا کہ کسی بڑے آدمی یا نظریے سے صرف قربت ضروری نہیں اخذ فیض کے لیے ظرف بھی چاہیے۔
”ریڈیو پروگرام سننے کے لیے طاقت ور اسٹیشن ہی نہیں ریسیونگ سیٹ بھی نقائص سے پاک ہونا چاہیے“
اسی نے لکھا:
”جیل ایک طرح طلسماتی آئینہ خانہ ہوتا ہے ۔جہاں صورتوں کے نہیں سیرتوں کے عکس عجیب و غریب شکلیں بنا کر ظاہر ہوتے ہیں“
یہی نہیں اس نے یہ بھی لکھا تھاکہ:
”ملکوں کی سیاسی و اقتصادی حدیں وقت کے تقاضوں کے مطابق بدلتی رہی ہیں۔ لیکن ایک خطہ زمین کے کلچر، زبان، ادب، آرٹ ، موسیقی ، فن تعمیر اور دوسری ثقافتی قدروں کا قوام سینکڑوں ، ہزاروں سالوں کی ریاضت کے بعد تیار ہوتا ہے اور اس کی بنیادی ترکیب میں تبدیلی آسان نہیں ہوتی۔ پاکستان اور ہندوستان میں سیاسی دھینگا مشتی کیسی بھی صورت اختیار کر جائے ، دلی ، لکھنؤ ، حیدر آباد اور لاہور کی گنگا جمنی تہذیبیں اپنی جگہ قائم رہیں گی اور میر اور غالب میں سب کی سانجھ رہے گی۔“
گویا جب ان نوجونوں کو بتایا جائے کہ میجر محمد اسحاق ایک سیاسی کارکن نہیں تھا اور صرف ایک بہت بڑے شاعر کا ہم نشین نہیں تھا ، وہ خود بھی پنجابی زبان کا بہت بڑا ڈرامہ نگار تھا اور اس نے” مصلی“ جیسا شاہکار ڈرامہ لکھا تھا اور پھر جب اُنہیں یہ بھی بتایا جائے کہ ایوبی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف ایک نوجوان طالب علم رہنما حسن ناصر کو شاہی قلعے میں جس طرح اذیت دے کر ہلاک کیا تھا اسے طالب علموں تک ہی نہیں باشعور طبقے اور عدل و انصاف کی انجمنوں تک پہنچانے کے لیے میجر اسحاق نے ایک جدوجہد کی تھی ۔اور پھر جب انہیں بتایا جائے کہ بے شک ملتان میں زر اندوزی اور کرپشن فوجی ڈکٹیٹر کے ساتھ مل کر امروز جیسے ادارے کو چاٹ گئی ۔کالونی ٹیکسٹائل ملز میں شکاگو سے بھی زیادہ مزدوروں کو ایسے ہلاک کیا گیا کہ اس خطے سے مزدور انجمنوں کی کمر ہی توڑ دی گئی ۔جی ٹی ایس ورکرز کا مورچہ ہی نہیں پورا جی ٹی ایس فروخت ہو گیا ۔ کھاد فیکٹری کے مزدوروں کی نظریاتی تربیت گاہ نہیں خودکھاد فیکٹری بھی زمین بوس ہو گئی ۔ریلوے ،واپڈا، پی آئی اے سبھی مزدورانجمنوں پر یا مفاد پرستی نے کالک مَلی یا خوف نے ایک مہیب چادر تان لی ۔ سو ایسےمیں وہ بچے وہ نوجوان حیرت سے میری یہ سطریں پڑھیں گے اور سنیں گے کہ ملتان کے خبطیوں(عابد عمیق،صلاح الدین حیدر،خالد سعید،عرفان حیدر شمسی) میں شجاعت محفوظ خان کون ہے اوراس کے چند ساتھی کون ہیں جو نہ صرف قومی جدو جہد کا پرچم تھامے ہوئے ہیں بلکہ ایک رسالہ بھی چھاپتے ہیں’عوامی مورچہ‘۔ یہی نہیں کچھ فکری نظریاتی کتابیں بھی شائع کرتے ہیں اور اب اس سلسلے میں میجر محمد اسحق کی دوتاریخی تحریریں’ مشرقی پاکستان کا المیہ‘ اور’ پنجاب کا مقدمہ‘ یکجا کر کے شائع کر رہے ہیں ۔
اس میں شک نہیں کہ ان دونوں تحریروں کا ماخذ وہ تاریخی شعور ہے جو کسی بھی دور میں غیر متعلق نہیں ہو جاتا تاہم 16 دسمبر 1971 ء کی ہزیمت کو ایک سابق پنجابی فوجی ، ایک سیاسی کارکن اور رہنما نے جیسے محسوس کیا ہو گا اس کے بعد کی کم و بیش نصف صدی نے اس منظر کو تبدیل کر دیا۔ اور بہت کچھ سرحد کے تین طرف سے دستاویزات کے ساتھ شائع ہو گیا،’بنگ بندھو‘ کی ادھوری ڈائری شائع ہو گئی،اس کی اپیل پر پاکستانی فوج سے بھاگ کر بھارت کی میزبانی کے راستے پہلے مکتی باہنی کے کمانڈر بننے والے اور پھر بنگ بندھو کا قتل کرنے والے لیفٹینیٹ کرنل شریف الحق دالیم کی کتاب ’پاکستان سے بنگلہ دیش،ان کہی جد و جہد‘ (جمہوری پبلیکیشنز لاہور) ، مکتی باہنی کو اپنے دو بیٹے دینے والی ڈھاکہ ریڈیو کی صداکار جہاں آرا کی ڈائری، پاکستان کے کئی فوجیوں اور بیورو کریٹوں کے ساتھ ابھی آکسفورڈ پریس نے راﺅ فرمان علی جیسے کردار کی کتاب بھی شائع کر دی ہے،جس پر ہتھیار ڈالنے سے ایک رات پہلے بنگلہ دیش کے کئی مصنفوں اور صحافیوں کو قتل کرنے کا الزام ہے، اس لیے پاکستان کے لوگوں کے لیے آج اس تاریخی تحریر کے معنی اس قدر ہیں کہ یہ قومی تاریخ کے ایک دور کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ جہاں تک پنجاب کے مقدمے کا تعلق ہے میجر محمد اسحاق کی بیشتر باتوں سے اتفاق کے باوجود میں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ پنجاب میں ملتانی یا سرائیکی زبان کو پنجابی کا ایک لہجہ قرار دینا بھی دراصل وہ رویہ ہے جس کی توقع میجر محمد اسحاق جیسے یا عابد حسن منٹو جیسے یا اور دوسرے قوم پرست مگر ترقی پسند ساتھیوں سے نہیں کی جا سکتی۔ اب آئیے اس کتاب میں سے چند اقتباسات،جو اس مصنف کے تاریخی اور قومی شعور اور تدبر کو ظاہر کرتے ہیں اور آج بھی اس کتاب کی بار بار اشاعت کا جواز پیش کرتے ہیں:
”ہر کوئی جانتا ہے کہ انقلاب کے بعد سویت یونین کی زار شاہی سرحدوں میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا ہے۔ روس نے مشرقی جرمنی، ہنگری، چیکو سلوواکیہ میں مداخلت کی ہے۔ اس کا جواز ہو یا نہ ہو اس سے ”قومی آزادی“ کا تصور ضرور مجروح ہوا ہے اور روس تو بعض علاقوں پر جارحانہ قبضہ رکھنے کے لیے چین کی سرحدوں پر بھی خونریزی کر چکا ہے۔ ادھر امریکی سامراج نے آدھی دنیا کی قوموں کاحق خود اختیاری سلب کر رکھا ہے اور وہ یہودیوں کی بے ملک قوم کو عربوں کے دل میں پیوست کیے ہوئے ہے۔ ویت نام اور کوریا کی تقسیم جاری رکھے ہوئے ہے اور تائیوان کو ایک علیحدہ مملکت بنا رکھا ہے الغرض کتنے بظاہر آزاد ممالک کا حق خودارادی سامراجیوں اور سوشل سامراجیوں کے ہاتھوں سلب ہے! حالیہ دنوں میں کانگو سے کٹنکا، نائیجیریا سے بیافرا، پاکستان سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر بڑی خونریزی ہوئی ہیں۔ جن سب میں بین الاقوامی ڈوریں ہلتی رہی ہیں۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ یہ ساری خونریزیاں وہاں کے محنت کشوں کے کس مصرف آئی ہیں“۔
”یہ قاعدہ کلیہ کہ معاشرے کے ارتقاءکے ساتھ ساتھ عقل و شعور، اہلیت و صلاحیت ، منصوبہ بندی اور کارکردگی ، فہم و ادراک یہ سب نئی گہرائیاں اور پہنائیاں حاصل کر لیتی ہیں بار بار میرے ذہن میں آیا۔ بھارت کا معاشرہ صنعت کاروں کے کنٹرول میں آرہا ہے۔ جب کہ ہمارا معاشرہ ابھی تک جاگیرداروں کے بس میں ،چنانچہ بھارت کے سیاستدانوں ، سفیروں، نشر و اشاعت کرنے والوں، منصوبے بنانے والوں اور جرنیلوں نے ہر شعبے میں اپنے مدِ مقابل پاکستانیوں کو شکست دی ۔ بھارت کے حکمرانوں کو دور اندیشی اور تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کو بدل بدل کر نمٹنے کی صلاحیت حکمت ِ عملی کا ایک شاہکار نظر آتی ہے۔ جس کے مقابلے میں پاکستان کے حکمران جاگیردارانہ کند ذہنی کے مریض نظر آتے تھے۔ کہ بس ڈنڈا پکڑ لیا اور اسی کی واحد ٹیک پر سب کچھ چھوڑ دیا۔ ۔۔۔ بنگال کی جنگ کے دنوں میں ویت نام کا کارزار بھی گرم تھا۔ وہاں مقابلہ انتہائی ترقی یافتہ امریکی صنعتی معاشرے اور ایک پسماندہ لیکن سوشلسٹ معاشرے کے شہریوں میں تھا۔ لیکن ارتقائی لحاظ سے اعلیٰ معیشت کے نمائندے ویت نامی ، ایک کم تر معیشت کے ممالک امریکیوں اور ان کے پٹھوﺅں کو ناکوں چنے چبوا رہے تھے۔ میں یہ موازانہ اکثر کرتارہتا تھا کہ ہراعلیٰ تر معاشرہ کس طرح انسان کی صلاحیت اور اہلیت بڑھا دیتا ہے“۔
” یہ جنگ رائے عامہ کے خلاف لڑی جا رہی تھی اور فوج بھی اپنے لوگوں کے خلاف لڑ رہی تھی۔ اس لیے اس میں اخلاقی جرات کمزور پڑ گئی اور یہ جذبے سے بالکل عاری ہو گئی۔ دوم یہ کہ مولویوں کے جہاد، لونڈی، غلام اور مال غنیمت کے حق میں پروپیگنڈے نے انسانی اخلاق پر کاری ضرب لگائی۔ بعض فوجی بہیمانہ حرکتوں پر اتر آئے۔ انہوں نے جہاد کا فریضہ ادا کرنے سے پہلے ہی لونڈی ، غلام اور مال غنیمت کے مشاغل کی طرف توجہ دینی شروع کر دی۔ سوم یہ کہ اس فوج کے افسران اعلیٰ سالہا سال سے مارشل لاءکے ذریعے اپنے عوام کی ہی سرکوبی کرتے رہے تھے۔ ان میں برخود غلط ہونے کی طرف رجحان بڑھ گیا“
”یہ درست ہے کہ پاکستان کی آفرینش میں برصغیر ہند میں مروج برہمنی ذات پات کو بڑا دخل تھا لیکن پاکستان کی بقاء کا انحصار اس قسم کی انسانی تقسیم و افتراق پر نہیں ہو سکتا کیونکہ آج کی روح عصر یعنی سوشلزم ، کیا پاکستان ، کیا بھارت ، کیا سیلون ، کیا برما، کیا نیپال اور کیا چین ، ہمسائے کے ان تمام ممالک بلکہ دنیابھر کے عوام کے دلوں کو اپنی مقناطیسی کشش میں سموئے ہوئے ہے اور ہر جگہ کے عوام ذات پات کے جھگڑے جھمیلے چھوڑ چھاڑ کر سوشلزم کی طرف لپک رہے ہیں۔ پاکستان کی بقاء اب برہمنی ذات پات کے عکس یعنی دو قومی نظریہ پر ممکن نہیں ہے بلکہ اس کو سوشلزم کے عالمی دور کے تقاضوں کے مطابق ہی پروان چڑھایا جا سکتا ہے“۔
”مغربی پاکستان کے مشترکہ تاریخی ، ثقافتی ، تجارتی اور نفسیاتی پس منظر کے باوجود آج یہاں کی مختلف زبانوں میں جو بُعد ہے وہ ملک کی ان زبانوں کی پسماندگی ہے۔ ملک کی پسماندگی کے نتیجے میں یہاں صنعت نے ترقی نہیں کی کہ مختلف علاقوں کے لوگ ایک جگہ کام پر اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کی زبان سمجھتے ۔ نہ ہی یہاں تعلیم عام ہے کہ زبانیں مدرسوں میں پڑھائی جا سکتیں۔ یہاں کے مواصلات کے ذرائع بھی بہت پسماندہ ہیں جن سے لوگوں کے آپس کے اختلاط میں سہولت نہیں ملتی۔ زبانوں کی پسماندگی اس درجہ ہے کہ ان کی لغت اور گرامر کی کتابیں تک نایاب ہیں۔ مروجہ سائنس اور دوسرے علوم پر کتابیں یکسر مفقود ہیں۔ دفتری زبان نہ ہونے سے سرکاری کاروبار میں استعمال ہونے والی اصطلاحات بھی ناپید ہیں۔ جوں جوں ملک ترقی کرے گا، یہاں ماڈرن علوم کا چرچا ہو گا اور لوگوں کا آپس میں اختلاط بڑھے گا تو مغربی پاکستان کی زبانوں کا ایک دوسرے کے قریب آنا قدرتی امر ہے۔ ایک تو ان کے رسم الخط ایک دوسرے سے بہت ملتے جلتے ہیں اور دوسرے علمی اصطلاحات کے لیے یا تو ہمیں انگریزی کی طرح لاطینی کا سہارا لینا ہو گا یا سنسکرت کا اور یا عربی فارسی کا۔ ہمارے مخصوص ثقافتی پس منظر میں لازم ہے کہ عربی فارسی کی اصطلاحات کو اپنایا جائے “۔
فیس بک کمینٹ