تب شاہد راحیل اپنی ایک عزیزہ ‘ ممتاز’ کی الفت میں گرفتار تھے تو وہ ساحر لدھیانوی کی نظم تاج محل گنگنایا کرتے تھے اور اپنی تہی دستی میں دن رات خواب بنا کرتے تھے . پھر ایسا ہوا کہ ایک بینک میں ‘ کلرکی ‘ کا دروازہ کھلا تو ممتاز بیگم باقاعدہ ان کی زندگی میں آئیں اور وہ ایک ہاتھ میں تقرر نامہ لے کر دوسرے ہاتھ میں ایک وعدے کی خوشبو لئے ” تمہارا ساتھ نہیں چھوڑوں گی ” وہ چشتیاں چلے گئے اور 32 برس محنت، کفایت اور دیانت سے سفر جاری رکھا اور وہ ترقی کی منزلیں طے کرتے رہے مگر نواں شہر کے محلہ باغبان کا بلوچ اپنی ملتانی مٹی اور مٹھاس سے سبھی کے دلوں میں گھر کرتا رہا اور اپنی ‘نیک کمائی’ اپنی ممتاز محل کے ہاتھ پر رکھتا رہا جو اس کی والدہ اور بہن بھائیوں کی خدمت کے ساتھ راحیل کے عطا کردہ پھول بھی پروان چڑھاتی رہی ۔
ان کی زندگی میں بہت نشیب و فراز اور سچ مچ انہوں نے بہت سے حادثے بھی دیکھے ان کی ممتاز انہیں اپنے قریب تر ملیں ۔ نثر کا چسکا تو انہیں مسلم ہائی سکول ملتان کے زمانہ طالب علمی میں پڑا وہ ریڈیو ملتان ، اخبارات اور سٹیج ڈراموں کے منظر ناموں میں رنگ بھرتے رہے اور وکالت کی تعلیم کا سفر بھی طے کرتے رہے ، شمالی علاقوں کی سیاحت کے ساتھ حرمین کی زیارت بھی کر آئے ، شاکر ، رضی اور قیصر کی ادبی بیٹھک میں گئے ، ملتان کے رجسٹرڈ ادیبوں میں شمار ہوئے تو ملتان ٹی ہاوس کی دیوار پر ان کی تصویر بھی سج گئی مگر ان کی کامرانیوں کی محرک ممتاز بیگم اس دنیا سے چلی گئیں اور وہ شاعر بن گئے اردو کے ساتھ سرائیکی میں بھی شعر کہنے لگے مگر عاصی کرنالی مرحوم کے بعد یہ ملتان کا منفرد کنبہ ہے کہ ان کے دونوں بیٹے شعر کہتے ہیں اور بیٹی اپنے بابا کے شعروں کو مصور کرتی ہے سو اس کتاب کا ٹائیٹل سائرہ راحیل خان نے ہی بنایا ہے اور بیٹوں کے مشورے سے انہوں نے اپنے ایک مصرعے کا جزو اس مجموعے کا عنوان بنا دیا ہے اسے رضی الدین رضی کے گردوپیش پبلی کیشنز نے شائع کردیا ہے جس کی ادبی قدرو قیمت ڈاکٹر محمد امین کے دیباچے نے بڑھا دی ہے
فیس بک کمینٹ