بے ہنگم مصروفیت کے پورے ایک دن کے ڈھلنے پر اس سپاٹ سی خبر میں کوئی ایسی بات تھی کہ میں اس پر اٹک گیا: ’’ذرائع کے مطابق حسن ظفر عارف نامی ایک شخص کی لاش گاڑی کے اندر سے ملی ہے۔۔۔‘‘ ہمارے ذرائع ابلاغ بے بات کے مرچ مصالحہ لگانے کے عادی ہوگئے ہیں مگر اس خبر میں کچھ بھی نہ تھا۔ پھر بے نشانی کے اندھیروں میں وہ نام ابھرا اور ایک دم سے کتنی باتیں سامنے آنے لگیں، سراسیمگی اور بے حواسی سی طاری ہونے لگی۔ ’’ڈاکٹر صاحب؟ ظفر عارف؟ ایک سرد لاش؟ اس طرح؟ یہ انجام۔۔۔ مایوسی اور خوف کی گرفت مضبوط ہونے لگی جو اس سے پہلے کبھی ڈاکٹر صاحب کے نام سے وابستہ نہیں رہی تھی۔مزاحمت اور دانش کی علامت معلوم ہوتے تھے وہ جب میں نے پہلی بار ان کو دیکھا۔ وہ تھے بھی ایسے کہ ہجوم میں بھی نمایاں ہو جاتے تھے۔ حالاںکہ اس محلّے میں نمایاں اور ’’دانش ور‘‘ معلوم ہونے والی شخصیات کی کمی نہ تھی۔ میرا لڑکپن کراچی یونیورسٹی کے کیمپس میں گزرا جہاں اساتذہ ایک کُنبے، برادری کی طرح رہتے تھے۔ وہ بھی ان ہی اساتذہ میں سے تھے مگر ان کی وضع قطع نرالی تھی۔ بڑے بڑے بال، جینز پہنے ہوئے، پورے انداز میں ایک غیررسمی پن اور بے تکلّفی سی تھی جو الگ معلوم ہوتی تھی۔ جینز پہننے کا ہمیں بھی شوق تھا مگر اس عمر اور مرتبے کے کسی آدمی کو اس میں دیکھنا مختلف لگتا تھا۔ بعد میں یہ لباس بھی ان کے فردِ جرم میں ٹانک دیا گیا۔ ظفر عارف کو نوجوان سارے وقت گھیرے رہتے اور مسلسل گفتگو ان کے چاروں طرف جاری رہتی۔ شام ڈھلے سے رات گئے تک وہ کیمپس کی پُلیا پر بیٹھے باتیں کرتے رہتے۔ وہ ڈرائنگ روم میں نہیں، پُلیا پر محفل جمائے نظر آتے۔ ایک گفتگو جس کا مرکز شاید ہمارے چاروں طرف تھا اور جس کی شدّت میں کمی نہیں آنے پاتی۔ اس وقت بھی نہیں جب یونیورسٹی کے حلقوں میں یہ بات گردش کرنے لگی تھی کہ ظفر عارف حکومت کے مخالف ہیں۔ حکومت کا مخالف قرار دیا جانا ان دنوں جان جوکھوں کا کام بن گیا تھا۔ ضیاء الحق کی آمریت سیاسی اقتدار پر قبضہ جمانے کے بعد نظریاتی جڑیں بھی کاٹ رہی تھی کہ کسی ممکنہ اختلاف کا امکان بھی نہ رہے، مخالفت تو دور کی بات ہے۔ نت نئے ہدایت نامے جاری ہوتے۔ صحافیوں کو یوں لکھنا چاہیے، اساتذہ کو ایسے پڑھانا چاہیے۔ تمام شہریوں کو راہِ حق پر کاربند ہونا چاہیے۔ صراطِ مستقیم پر چلنا چاہیے۔ ایسا ہی ہدایت نامہ یونیورسٹی کے اساتذہ کے حق میں جاری کیا گیا۔ سبھی کو اس پر آمنّاً و صدقنا کہتے ہی بنی۔ تب ظفر عارف نے گورنر سندھ کے نام وہ خط لکھا جس میں صاف جواب دے دیا تھا کہ فوجی حکمرانوں کو یہ استحقاق حاصل نہیں کہ اساتذہ کو یہ بتانے لگیں کہ کیا پڑھانا ہے اور کس طرح۔ یہ خط دور دور تک گردش کرتا رہا۔ اس کی فوٹو اسٹیٹ کاپیاں ہاتھوں ہاتھ تقسیم کی جاتی رہیں۔ وہ خط میں نے بھی پڑھا تھا۔ پہلے سوچا کہ انھوں نے اپنی زبان دانی کی مہارت دکھائی ہے اور برتر لہجے میں بات کر کے اس کی بے علمی اور بے منصبی کو نمایاں کیا ہے، پھر اس خط کی سطروں میں بے پناہ اعتماد اور حوصلہ نظر آیا جو دیکھتے ہی دیکھتے معاشرے سے غائب ہونے لگا۔
پھر ہم نے سنا کہ کراچی یونیورسٹی ظفر عارف کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، فوجی حکمرانوں کے کہنے پر۔ ان کے خلاف جو الزامات لگائے گئے تھے ان میں طالب علموں میں مقبولیت، غیر رسمی انداز، پُلیا پر دیر تک بیٹھنا اور جینز پہننا شامل تھے۔ طالب علموں کی ایک پارٹی حاوی ہوتی جارہی تھی اور وہ ان الزامات کو ہوا دے رہی تھی۔ پھر ظفر عارف کو یونیورسٹی کی ملازمت سے برخواست کردیا گیا اور ان کو کیمپس کا مکان چھوڑنا پڑا۔ مجھے کیا، سبھی کو معلوم ہوگیا تھا کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ پر اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔اس واقعے کو کراچی یونیورسٹی کی تاریخ کا سیاہ باب کہنا چاہیے۔ لیکن اتنے عرصے کے بعد بھی اس بارے میں ندامت کا کوئی حرف سننے میں نہیں آیا۔ جمہوریت کی بحالی کے بعد ضیاء الحق دور کے بہت سے غلط فیصلوں کو درست کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن کراچی یونیورسٹی نے نہ تو ظفر عارف سے معافی مانگی اور نہ ان کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ ان میں اخلاقی جرأت بھی پیدا ہو جاتی مگر کسی نے ضرورت نہیں سمجھی۔ شاید اس طرح یونیورسٹی کی خفّت کچھ کم ہوجاتی۔ مگر اس کی بجائے یونیورسٹی کے حکام اپنی وقتی اور عارضی کرسیوں کو مضبوط کرنے میں لگے رہے۔ وہ دن بھی دیکھنا پڑا جب کراچی یونیورسٹی نے اس وقت کے وزیرداخلہ کو اعزازی ڈگری تفویض کردی۔ یعنی گر ہمیں مکتب و ہمیں مُلّا کار طفلاں تمام خواہد شد۔ کار طفلاں تو کراچی کی گلیوں، سڑکوں پر تمام ہو رہا تھا جہاں بے نام لاشیں ملنا معمول کی خبر بن گیا۔ لوگوں نے ایسی باتوں میں چونکنا بھی چھوڑ دیا۔ظفر عارف یونیورسٹی چھوڑ گئے۔ ان سے دور دور کی معمولی سلام دعا کا جو سلسلہ تھا وہ بھی جاری نہ رہ سکا۔ بس ان کے بارے میں خبریں ملتی رہیں۔ کبھی یہ پتہ چلتا کہ کتابیں لکھ رہے ہیں، ترجمے کررہے ہیں۔ پھر سُنا کہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے اور بے نظیر بھّٹو کے ایماء پر اسٹڈی سرکل چلا رہے ہیں۔ لیکن ان کا مزاج پارے کی طرح تھا، ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھتے تھے۔ پارٹی اقتدار میں مضبوط ہونے کے لیے ہاتھ پیر مارنے لگی تو ان کے اختلافات پیدا ہوگئے۔ پھر سننے میں آیا کہ وہ پارٹی سے دور ہوگئے۔ شاید وہ براہِ راست سیاسی عمل سے زیادہ تجزیے کے اہل تھے۔ ان کا بنیادی منصب لوگوں کی تربیت اور فکر کی ترویج تھ ۔ اس پورے عرصے میں یہی سکے بازار میں بے توقیر ہونے لگے۔ جب تک یہ خبریں ملتی رہیں کہ وہ کہیں کلاسیں لے رہے ہیں، کوئی فکری حلقہ چلا رہے ہیں، تب تک یہ خیال تھا کہ وہ کام کررہے ہیں جو ان کو کرتے رہنا چاہیے۔ پھر یہ خبر ملی کہ انھوں نے ایم کیو ایم میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس خبر پر بہت حیرت ہوئی۔ پھر سوچا کہ کہیں ملاقات ہوئی تو پوچھوں گا اس کے پیچھے کیا معاملہ ہے۔ شاید اس طرح سمجھ میں آئے کہ اس شہر کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔ پھر اخبار میں وہ تصویر چھپ گئی کہ پولیس کے اہلکار ان کو گھیرے ہوئے ہیں اور پریس کلب سے گرفتار کرکے لے جارہے ہیں جہاں وہ پریس کانفرنس کرنے والے تھے۔ اس تصویر میں ظفر عارف کے سرپر بال نہیں تھے اور انھوں نے جینز کے بجائے عام پتلون پہن رکھی تھی۔ یہ تصویر میرے لیے بے اعتباری کا حیرت انگیز مرّقع بن گئی۔ کیا انجامِ گلستاں یوں ہونا ہے؟اس کے باوجود کوئی بھی اس الم ناک سانحے کے لیے تیار نہیں تھا جو اب ظفر عارف کے ساتھ پیش آیا ہے۔ ایک زمانے میں نواز شریف صاحب نے فرمایا تھا کہ ایک مکھی بھی مرجائے تو کراچی شہر بند ہو جاتا ہے۔ ظفر عارف مکھی نہیں بن سکتے تھے۔ ان کے جانے پر شہر کیا بند ہوتا اور شہر بند ہونے سے کیا حاصل ہوتا؟ معمول کے مطابق زندگی جاری ہے جہاں ان کی موت کا معمہ کبھی حل نہ ہو سکے گا۔ ان کے بارے میں جو چند ایک تحریریں سامنے آئی ہیں، ان میں شاید سب سے پُراثر وسعت اللہ خان کا کالم ہے ’’ظفر عارف مرگئے پر سوال زندہ ہے۔‘‘ انھوں نے بتایا ہے کہ سیاسی وابستگی کی بنا پر ان کو شروع سے خبردار کردیا گیا تھا کہ ظفر عارف سے دور رہنا۔ ظفر عارف کے آخری دور کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے: ’’اس دوران ان سے سرسری مل کر مجھے لگتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب تنہا رہ گئے ہیں۔ پچھلی نسل کے لیے وہ محض ایک یاد اور آج کی نسل کے لیے مس فٹ تھے۔ مس فٹ ہونے کی تنہائی کیا ہوتی ہے، یہ محسوس تو کی جاسکتی ہے سمجھائی نہیں جا سکتی۔۔۔‘‘آج کی نسل کے لیے مس فٹ۔ کتنا خوف ناک فقرہ ہے۔ مگر انجام اس سے بھی زیادہ ہولناک لکھ دیا گیا تھا۔ آج وہ مس فٹ سے بڑھ کر ایک لاش میں تبدیل ہو گئے جس کی تفصیلات معلوم نہیں ہوسکیں۔ ’’ان کی لاش پر کوئی نمایاں نشان نہیں۔۔۔‘‘ جناح اسپتال کی ڈاکٹر سیمیں جمالی کا بیان میڈیا پر فلیش ہونے لگا جن کی زیر نگرانی ایسی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا جانا ہے اور ان کے بارےمیں مصّدقہ رپورٹ جاری کی جاتی ہے۔ میں ڈاکٹر صاحبہ کے ایسے تمام بیانات غور سے پڑھا کرتا ہوں مگراس بار مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ وہ افضال احمد سیّد کی شاعری سے لاشعوری طور پر متاثر ہوگئی ہیں۔
محبّت کوئی نمایاں نشان نہیں۔۔۔ اس نظم نے بتایا تھا، جس سے لاش کو شناخت کرنے میں آسانی ہو۔۔ میں سوچ رہا ہوں محبّت کے علاوہ ظفر عارف کی لاش پر اور کیا نمایاں نشان ہوسکتا تھا۔
( بشکریہ : ہم سب ۔۔ لاہور )